شام سے پابندیوں کے خاتمے کی ابتدا امریکی پالیسی میں یو ٹرن یا اسرائیلی منصوبے کی تکمیل؟

کاشف حسن: لیکچرر جامعہ اسلامیہ کیرالا
امریکہ نے شام پر عائد بعض اہم معاشی پابندیوں کو ختم کرنا شروع کردیا ہے ۔ یہ اقدام بظاہر انسانی ہمدردی، تعمیر نو اور علاقائی استحکام کے نام پر کیا جا رہا ہے، لیکن جو شخص بین السطور دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ اس فیصلے کی تہ میں چھپی عالمی سیاست کو بخوبی بھانپ سکتا ہے۔
اب خلیجی ممالک کے مختلف بینک اور سرمایہ کار شام میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں، شام کے پڑوسی مسلم ممالک تعمیراتی منصوبے شروع کر سکتے ہیں، اور خلیجی ممالک جو پہلے پابندیوں کی وجہ سے شام میں قدم رکھنے سے گریزاں تھے، اب آزادانہ طور پر مداخلت کر سکتے ہیں۔
امریکہ نے ایک اور خاموش قدم اٹھایا ہے اور احمد الشرع الجولانی کے سر پر رکھا گیا انعام ہٹا لیا ہے۔ یاد رہے، یہی جولانی وہ شخص ہے جسے ایک وقت میں خود مغربی دنیا نے القاعدہ سے منسلک دہشت گرد قرار دیا تھا۔ مگر اب وہی مغربی میڈیا اسے "موڈریٹ ریبل” اور "شام کا مستقبل” قرار دے رہا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ نے صرف انعام ہٹایاہے ، دہشت گردوں کی فہرست سے نام نہیں نکالا۔ گویا وہ بیک وقت اسے قابو میں رکھنا بھی چاہتے ہیں اور حسب ضرورت استعمال بھی کرنا چاہتے ہیں۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امریکہ کا اصل مقصد شام کو اسرائیل کے لیے ایک محفوظ بفر زون میں تبدیل کرنا ہے۔ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ ایک دیرینہ تنازع ہے، جسے اب امریکہ شامی کمزوری اور لالچ کے بدلے میں "قانونی حیثیت” دلوانا چاہتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ پابندیوں میں نرمی کے بدلے شام سے یہ مطالبات کیے جا سکتے ہیں:
1. گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی دعووں کو تسلیم کرنا
2. ابراہیم معاہدے (Abraham Accords) کو قبول کرنا
3. شام میں موجود فلسطینی عناصر، خاص طور پر اخوانی رجحان رکھنے والوں کو بے دخل کرنا
ایران اسرائیل حالیہ کشیدگی کے دوران اسرائیل نے شام کی فضائی حدود کو استعمال کیا تھا۔ گولان کی پہاڑیوں سے ایران کے میزائل انٹرسیپٹ کرنا اسرائیل کے لیے آسان تھا۔ اس کے علاوہ، امریکہ کے دباؤ میں آ کر شام پہلے ہی مال غنیمت میں ملے میزائل ذخیرے تلف کر چکا ہے۔ اور کچھ اسرائیلی بمباری میں ختم کیا جاچکا ہے
یعنی دفاعی طاقت میں کمی کی جا چکی ہے، تاکہ شام مزید اسرائیل کے لیے خطرہ نہ رہے بلکہ اس کی سیکورٹی کا آلہ کار بن جائے۔
اگر شام ابراہیم اکارڈز معاہدے کو تسلیم کرتا ہے اور اسرائیل کے ساتھ رسمی تعلقات بناتا ہے تو یہ عرب دنیا کے لیے ایک اور صدمہ اور تاریخی "یو ٹرن” ہوگا۔ اس یو ٹرن کی بنیاد احمد الشرع اور اس کے معتدل کہلانے والے جنگجو گروہوں کے کندھوں پر رکھی جائے گی۔
اب تک ہم نے احمد الشرع کو ظالم بشار الاسد حکومت کے خلاف اٹھنے والی "عوامی آواز” سمجھا ہے، جو ترکی، امریکہ اور خلیجی ممالک کی مدد سے ابھرے۔ اگر احمد الشرع خلیجی مفادات، اسرائیلی تحفظ، اور امریکی نقشے پر چلتے ہیں، تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔ لیکن اگر وہ کسی مقام پر اسرائیل یا امریکہ کی خواہشات کے خلاف جاتے ہیں، تو یہی مغربی دنیا انہیں دوبارہ دہشت گرد قرار دے سکتی ہے اور پابندیاں لگا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک مکمل ڈیل سے پہلے پابندیاں مکمل طور پر نہیں ہٹائی جا رہیں۔
امریکہ کی جانب سے شام پر سے پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ بظاہر انسانیت، بازآبادکاری اور استحکام کے نام پر لیا گیا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک گہری شطرنج کی چال ہے، جس کے پیچھے اسرائیلی سلامتی، ابراہیمی معاہدے کی توسیع اور خطے میں امریکی اجارہ داری کا نیا باب چھپا ہے۔
بہرحال، شام کا مستقبل اس وقت ایک دوراہے پر ہے۔ یا تو وہ عزت اور خودمختاری کی راہ اپنائے اور ہر "مدد” کی قیمت جانچ کر قدم اٹھائے، یا وہ نئی ترقی اور سیاسی قبولیت کے وعدے کے بدلے اپنی زمین، نظریہ اور تاریخ کا سودا کرے گا۔ دنیا دیکھ رہی ہے، تاریخ فیصلہ لکھنے کو تیار ہے، اور احمد الشرع کا اصل چہرہ بھی سامنے آئے گا۔ کیا وہ استعمال ہوں گے یا سب کی مخالفت لے کر ایک اور جنگ پر آمادہ ہوں گے
Comments are closed.