عالم کی موت عالم کی موت ہے!

✍️محمد عفان فتحپوری

بخت سے کوئی شکایت ہے، نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے

گزشتہ دو سال تمام دنیا پر؛ نیز عالمِ اسلام پر اور خصوصاً ہندوستان پر سخت بھاری رہے۔ علم و ادب کے چراغ ایک ایک کرکے گل ہوتے رہے اور ان چراغوں کے پروانے دھیمی دھیمی آہیں بھرتے رہے۔ ابھی پچھلے زخم مندمل نہ ہوئے تھے کہ ۳ شوال المکرم مطابق ۱۶ مئی بروز اتوار، صوبہ اترپردیش کے قدردانِ علم و فن، ایک بار پھر حزن و غم کے مہیب سائے تلے سسکتے نظر آئے۔ اس مرتبہ دستِ اجل نے مولانا یونس صاحب مظاہری کے داماد اور قاری صدیق صاحب کے معتمد و فیض یافتہ مولانا طیب صاحب مظاہری نور اللہ مرقدہ کو چنا اور علم و معرفت کا یہ چراغ ایک طویل عرصے تک پورے ہندوستان اور خصوصا صوبۂ یوپی کو منور کرنے کے بعد بجھ گیا؛ مگر اپنی ضیا پاشی کو بہ طور مشعل راہ چھوڑ گیا۔ اللہ کریم اس نور کو تا ابد قائم و دائم فرمائے۔ (آمین)
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ۱۹۵۰ء میں ضلع سیتا مڑھی بہار میں ہوئی، ابتدائی تعلیم گھر میں ہی ہوئی، پھر جامع مسجد سیتا مڑھی میں تعلیم حاصل کی، بعدہ مدرسہ اشرف العلوم، جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ (یوپی) وغیرہ میں تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے مظاہر العلوم سہارنپور کا رخ کیا، فراغت کے بعد بھی اپنے عظیم استاذ "حضرت باندوی” سے رابطے کا سلسلہ قائم رکھا۔
حضرت ہی کے ایماء پر مولانا طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ضلع فتحپور(یوپی)کے گاؤں "عالم گنج” میں "مدرسہ اصلاح العلوم” کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی اور اس چھوٹے سے مدرسے کو اپنی جفا کشی سے ایک عظیم ادارے میں تبدیل کردیا۔ یہ کوئی عام کارنامہ نہ تھا؛ بلکہ سخت زمین کو نرم کرکے اڑتی خاک تلے باغ بسانے کی سی بات تھی، ان دنوں یہ پورا علاقہ بدعات کی زد میں تھا؛ مگر حضرت بھی اہل دل حضرات کے صحبت یافتہ تھے اور بھلا مصائب کی آندھیاں، یقیں محکم اور عمل پیہم والوں کا بگاڑ ہی کیا لیتی ہیں؟ ان تھک محنت کے بعد یہ ننھی نہر بھی دریا میں بدلی اور آس پاس کی بنجر زمینیں اس سے سیرابی حاصل کرنے لگیں۔
یہ آفتاب اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا؛ مگر گردشِ دوراں نے بھلا کس کا دامن سلامت رکھا؟ یہ تو ازل سے طے شدہ بات ہے کہ راہ حق پھولوں کی سیج نہیں۔ آخر حضرت بھی بعض "اہل خیر” حضرات کی "سیاسی نگاہوں” کے تانوں بانوں میں الجھے اور اپنے چمن  (جسے خون جگر سے سینچا تھا) سے ہجرت پر مجبور ہوکر اپنے آبائی وطن لوٹ آئے؛ لیکن سیکھنے کی چیز یہ ہے کہ حالات کی تند ہوا میں بھی یہ چراغ "جاء الحق” کا شعلہ بن کر چمکتا رہا اور آخری وقت تک اپنی علم دوستی اور پاک نیتی کا ثبوت پیش کرتا رہا کہ باوجود اس ستم کے، حضرت نے اپنے چمن سے "ناطہ دل” نہ توڑا اور مدرسے کے نام سے آنے والی رقومات، پوری امانت داری کے ساتھ مدرسے تک پہنچاتے رہے۔
بالآخر امسال ۳ شوال المکرم کو حضرت اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون!
قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے: ”کُلّ نَفْس ذَائِقَة الْمَوْت“ (سورہ آل عمران، آیت:۱۸۵) ترجمہ:(تم میں) ہرجان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے؛ چناں چہ سب کے سب انبیاء ورسل، صحابہ وتابعین اوراولیاء وصلحا کو اس جہان سے کوچ کرنا پڑا۔ ہم سب کو بھی ایک دن جانا ہوگا۔ حضرت مولانا طیب صاحب نور اللہ مرقدہ بھی اپنے مقررہ وقت پر، پاک پروردگار کے حکم کا اتباع کرتے ہوئے اس جہاں سے کوچ کرگئے، حضرت کے پسماندگان میں ایک بارونق گھرانہ اور معتقدین کا ایک بڑا حلقہ شامل ہے۔ دعا ہے کہ مالک الملک ان تمام کو حضرت کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اور حضرت کے فیوضات کو عام و تام فرمائے مولانا کے حسنات اور خدمات کو قبول فرمائے (آمین)

Comments are closed.