Baseerat Online News Portal

حضرت مولانا قاری محمد عثمان منصورپوریؒ علم و عمل اور اخلاص کے پیکر تھے۔

وہ جن کے ہونے پہ نازاں تھی زندگی وہ لوگ چل بسے ہیں خدا مغفرت کرے

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

آج جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکر جیسے ہی گھر پہنچا، سوشل ذرائع سے حضرت قاری محمد عثمان صاحب منصور پوری صدر جمعیت علماء ہند و قائم مقام مہتم دارالعلوم دیوبند کی وفات کی خبر ملی، ہفتہ، عشرہ سے زیادہ سے حضرت قاری صاحب موت و زیست کی کیفت سے دوچار تھے، پورے ملک میں ان کے لیے دعاوں کا اہتمام ہو رہا تھا۔آخر موت کے سامنے زندگی نے دم توڑ دیا جو ہر ذی روح کا انجام ہے، حضرت قاری صاحب کو جو حیات مستعار کے دن ملے تھے وہ مکمل کرکے آج ۲۱/ مئی ۲۰۲۱ء بروز جمعہ جو کے سید الایام ہے عین جمعہ سے قبل اپنے رب حقیقی سے جاملے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی

آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا

یہ دور ایسے ہی قحط الرجال کا ہے، عبقری اور جامع شخصیات بہت کم رہ گئی ہیں، ماضی میں جس قدر ہر فن کے ماہرین اور رجال کار کی کثرت تھی، آج اتنی ہی کمی کا احساس سب کو ہے، فروغ شمع تو کسی نہ کسی حد تک باقی ہے لیکن محفل پروانوں سے بالکل خالی ہوتی جارہی ہے۔

فروغ شمع تو باقی رہے گا صبح محشر تک
مگر محفل تو پروانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے
حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصور پوری کا نہ میں شاگرد ہوں اور نہ مرید و مسترشد اور نہ ہی ان سے مجھے کسب فیض کا موقع ملا، لیکن ان کی شخصیت سے میں ہمیشہ متاثر رہا اور بارہاں ان کے شاگردوں کی زبانی ان کے محاسن، خوبیوں، نیکیوں اور اچھائیوں کا تذکرہ سنا، میرے گاوں میں ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد ہے، ان کی زبانی ان کے بارے میں بہت سی باتیں معلوم ہوئیں، بطور خاص گرامی قدر مولانا ایاز اسعد قاسمی جو ان کے خاص شاگرد اور خادم رہے ہیں، ان کی زبانی ان کی شرافت، مروت، سخاوت پاک بازی اور سادگی کا چرچہ سنا وہ سادات حسینی کے چشم و چراغ تھے، خاندانی آدمی تھے نسبت اونچی تھی،مولانا مدنی رح کے داماد تھے،علم و عمل کے جامع اور اخلاص و صفا اور تواضع و انکسار کے پیکر تھے۔

ملتے کہاں ہے ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تجھ کو میر سے صحبت نہیں رہی

آج سے پچیس چھبیس سال پہلے وہ ہمارے گاوں میں طلبہ کے ایک اجلاس میں تشریف لائے تھے، جو بزم جلالی کے زیر اہتمام منعقد ہوا تھا،مجھے انکی خدمت اور ان سے گفتگو کا موقع ملا اور کئی سوالات کئے مولانا نے بہت محبت سے جوابات دئیے اور بہت خوش ہوئے، ایک آدھ بار اور ان سے ملنے کا موقع ملا۔۔ ان کے یہاں ہٹو بچو کا کوئی معاملہ نہیں تھا ہر ایک سے محبت اور خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ اس مجلس میں ان سے ہم لوگ بے تکلف گفتگو اور سوالات کر رہے تھے اور مولانا اولاد کی طرح شفقت سے پیش آرہے تھے۔
یقینا آپ کے انتقال سے ملت کا بہت بڑا خلا ہوا ہے، دیوبند اور جمعیت ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ ایک عظیم قائد، منتظم، مدبر استاد، مربی اور اتالیق محروم ہوگئی ہے ، جس کا احساس سبھی اہل علم اور باشعور افراد کر رہے ہیں ۔
قدرت نے قاری صاحب کو حسن و جمال سے بھی نوازا تھا بہت ہی وجیہ و شکیل تھے ہر دم رواں اور ہر دم جواں معلوم ہوتے تھے، قدرت کی طرف سے اچھی صحت بھی ملی تھی، قاری صاحب کو علم حدیث سے خاص شغف تھا، معاملہ فہمی اور امانت و دیانت کی دولت سے بھی مالا مال تھے، ان کی سب سے بڑی خوبی اور کمال جس میں وہ منفرد اور بے مثال لوگوں میں ہیں، میں ہی نہیں بلکہ ہزاروں علماء اور اہل علم ان پر رشک کرتے ہیں اور کریں گے وہ ان کی اپنی اولاد کی دینی علمی فکری اور روحانی تربیت ہے وہ یقینا اس اعتبار سے بہت کامیاب والد اور مربی ثابت ہوئے، ان کی دینی علمی اور روحانی تربیت ہی کی وجہ سے ان کے دونوں صاحبزادگان مولانا مفتی سلمان منصور پوری مدیر ماہنامہ ندائے شاہی مراد آباد اور مولانا محمد عفان منصور پوری صدر مدرس جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ علم و عمل اور اخلاق و کردار کے جامع ہیں اور دونوں برادران الولد سر لابیہ کے مصداق ہیں۔۔ ہندوستان کے ایک بڑے اور جہاں دیدہ عالم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ علماء اور اہل علم کو اپنی اولاد کی تربیت کے حوالے سے حضرت قاری عثمان صاحب منصور پوری کو اپنا نمونہ اور آیڈیل بنانا چاہیے یقینا وہ مثالی باپ اور مثالی والد و مربی ہیں۔۔ جمعیت کی صدارت کے حوالے سے جو قضیہ پیش آیا میں وہاں بھی ان کو ایک طرح سے مجبور خیال کرتا ہوں، وہ خود عہدہ و منصب کی طرف بھاگنے والے والے نہیں معلوم ہوتے تھے۔۔ کہیں نہ کہیں وہ سسٹم کی وجہ سے مجبور تھے۔۔۔ خیر اس کا تذکرہ نہیں آنا چاہیے تھا لیکن میری ایک سوچ اور خیال تھا جس کا میں نے ذکر کردیا۔
مجلس تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے جو ان کی خدمات ہیں اور انہوں نے اس میدان کے لیے طلبہ کی جو کھیپ تیار کی اور جس طرح ان کی تربیت کی، رجال کار تیار کیے اور جو قیمتی محاضرات دئیے یہ خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ مستقبل کا مورخ اور سوانح نگار ان کی خدمات کو اس حوالے سے بھی ضرور لکھے گا۔۔ مولانا کی سرگزشت حیات کا مختصر خاکہ ذیل میں پیش کرتے ہیں تاکہ خلف، سلف کے حالات سے واقف ہوں اور ان کی قربانیوں اور خوبیوں کو اپنے لیے نمونہ اور مثال بنائیں۔۔۔
قاری محمد عثمان صاحب منصور پوری دار العلوم دیوبند کے استاد حدیث اور معاون مہتم تھے، اپنے وطن منصور پور میں ۱۲اگست ۱۹۴۴ ء میں کو پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کی اور فارسی عربی کی پوری تعلیم دار العلوم دیوبند میں حاصل کی، ۱۹۶۵ء میں دورہ حدیث سے فارغ ہوئے اور۱۹۶۶ء میں دیگر فنون کی تکمیل کے ساتھ تجوید و قرات اور ادب عربی کی تربیت حاصل کی، اولاً جامعہ قاسمیہ گیا میں پانچ سال تک تدریسی خدمات انجام دی، پھر جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں گیارہ سال تک محتلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھائیں، شوال ۱۴۰۲ھج /مطابق ۱۹۸۲ ء میں دار العلوم دیوبند میں مدرس مقرر ہوئے۔ درس و تدریس کے ساتھ مختلف انتظامی ذمہ داریاں بھی آپ سے متعلق رہیں، ۱۹۸۶ء میں عالمی اجلاس تحفظ حتم نبوت کے موقع پر آپ کو کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کا ناظم مقرر کیا گیا، ۱۹۹۹ء میں تدریس کے ساتھ نائب مہتم مقرر ہوئے۔ ۲۰۰۸ء تک اس اہم عہدہ پر فائز رہے، مؤطا امام مالک، مشکوۃ المصابیح وغیرہ زیر درس رہیں۔ رد قادیانیت کے موضوعات پر تکمیلات کے طلبہ کو محاضرہ بھی پیش کرتے رہے، مجلس شوریٰ کے اجلاس صفر ۱۴۴۲ھج مطابق اکتوبر ۲۰۲۰ء میں آپ کو دار العلوم کا معاون مہتم مقرر کیا گیا۔ ۲۰۰۶ء میں جمعیت علماء ہند کے قومی صدر منتخب کیے گئے اس کے بعد امیر الہند کے باوقار منصب پر بھی فائز ہوئے۔ اللہ تعالیٰ حضرت قاری صاحب کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس ان کا نصیبہ بنائے اور وارثین، متعلقین اور اہل تعلق کو صبر جمیل اور دار العلوم کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے آمین
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے

Comments are closed.