Baseerat Online News Portal

جنگ کب ختم ہوگی مصر اور ایران پر منحصر ہے

مشرف شمسی

حماس اور اسرائیل کی لڑائی کو روکنے میں مصر کا کردار کافی اہم ہوتا ہے۔کیونکہ حماس کو زیادہ تر خوردنی اشیاء اور فوجی ساز و سامان کی سپلائی مصر کی سینائی کے راستے حاصل ہوتا ہے۔اسرائیل کے سخت رخ کی وجہ سے زیادہ تر موقع پر اس راستے کو بھی اسرائیلی بند کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔لیکِن غزہ کے لوگوں کے لئے باہری دنیا سے رابطہ قائم کرنے کا واحد راستہ یہی ہے۔کیونکہ اسرائیل غزہ سے لگے سمندر میں غزہ کے فلسطینیوں پر پابندی لگا رکھی ہے۔غزہ کے فلسطینی سینائی کے راستے سے ہی روزآنہ کام کرنے کے لئے مصر بھی جاتے ہیں ۔یہ اور بات ہے کہ مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ ہونے کے بعد سے مصر میں ہمیشہ اسرائیل دوست یا اسرائیل کی پٹھو سرکار ہی حکومت میں رہی ہے۔موجودہ السیسی سرکار بھی اسرائیل کی حمایت سے ہی بنی ہے۔عوام کی منتخب اس حکومت کے ٹھیک پہلے کی سرکار کو ایک سازش کے تحت پلٹ دیا گیا تھا۔ وہ واحد حکومت تھی جو اسرائیل کی خواہش کے برخلاف قائم ہوئی تھی ۔سینائی علاقوں میں بہت بڑی مصری افواج تعینات ہوتی ہے جس کا صرف یہ کام ہوتا ہے کہ وے غزہ کے فلسطینیوں کی نقل حرکت پر نگاہ رکھے۔اُسکے باوجود غزہ کی جیالے مصری افواج سے نظر بچا کر فوجی ساز و سامان غزہ میں پہنچانے میں کامیاب رہتے ہیں۔غزہ چاروں جانب سے محصور رہتا ہے ۔اسرائیلی غزہ کے لوگوں کی زندگی تنگ بنانے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑ رکھا ہے اُسکے باوجود غزہ کے جیالے اپنے محدود وسائل سے اسرائیل جیسے طاقت ور ملک کی پسینے چھوڑا رکھا ہے ۔
موجودہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ سے پہلے بھی کئی بار دونوں کے درمیان جنگ ہو چکی ہیں اور ایک جنگ تو رمضان میں ہی شروع ہوئی تھی اور وہ دو مہینے کے قریب چلی تھی اور جب بھی حماس اور اسرائیل کی لڑائی ہوتی ہے غزہ کو اسرائیل ہوائی بمباری سے پوری طرح سے تہس نہس کر دیتا ہے لیکِن لڑائی ختم ہوتے ہی غزہ پھر پہلے جیسا کھڑا ہو جاتا ہے۔غزہ میں لڑائی رکنے کے صرف چھ ماہ کے بعد اس علاقے میں بربادی کے کوئی نشانات دکھائی نہیں دینگے۔ہاں جانی نقصان کو پورا نہیں کیا جا سکتا ہے۔
قطر کو چھوڑ دیں تو باقی کے سبھی خلیجی ممالک غزہ کے فلسطینی کو مدد نہیں کرتے ہیں۔سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک مغربی کنارے کے فلسطینی کو ضرور مدد کرتے ہیں۔یہ مدد محمود عباس کی فتح گروپ کو پہنچتی ہے جو فلسطینی کاز کو اسرائیل کے ہاتھوں فروخت کر چکے ہیں۔قطر ،شام ،لیبیا اور ایران غزہ کے فلسطینیوں کی ہر طرح سے مدد کرتے رہے تھے۔لیبیا کرنل قذافی کی موت کے بعد خانہ جنگی کا شکار ہو گیا ۔اسلئے غزہ کو لیبیا سے امداد آتی تھی وہ ختم ہو گئی ہے۔شام بھی خانہ جنگی کی وجہ سے معاشی طور پر تباہ ہو گیا ہے لیکِن شام سے ہی غزہ کے فلسطینیوں کو فوجی ساز و سامان غزہ میں اور لبنان کے حزب اللہ تک پہنچتی ہے۔ قطر پیسے سے غزہ کے فلسطینیوں کی مدد اب بھی کر رہا ہے۔جبکہ ایران کھل کر غزہ کو سبھی طرح کی مدد کرتا ہے۔قطر کے ایران سے تعلقات کی وجہ سے ہی مصر اور دیگر خلیجی ممالک نے قطر کا بائکاٹ کیا تھا۔لیکِن ایران کی مدد سے قطر اس بائیکاٹ برداشت کر لے گیا۔
دراصل خلیجی ممالک کے عرب حکمرانوں کو اپنی بادشاہت بچانے کے لئے ایران اور اسرائیل میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہے۔اسرائیل چونکہ امریکہ کا بغل بچہ ہے اسلئے عربوں نے بہت دنوں تک چوڑی چھپے اب کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ہاں اپنے ملک کی عوام کو گمراہ کرنے کے لئے یا غصّے سے بچنے کے لئے جنگ کے دوران اسرائیل کے خلاف تھوڑی بہت بیان بازی کر دیتے ہیں۔لیکِن شام میں امریکہ اور اسرائیل کی فوجی طاقت کے باوجود اسد حکومت کو ایران بچا لے گیا۔ساتھ ہی امریکہ کی سبھی پابندیوں کے باوجود ایران کے نہیں جھکنے سے ایران کی پوزیشن نہ صرف مشرقی وسطیٰ میں بلکہ دنیا میں ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حثیت سے مضبوط ہوئی ہے۔دراصل امریکہ اسرائیل کا ڈر دکھا کر خلیجی ممالک کی تیل کی دولت پر قبضہ بنائے رکھنا چاہتا ہے جبکہ امریکہ اب واحد سپر پاور رہا نہیں۔ایران اب روس اور چین کے ساتھ مل کر امریکہ کو مشرقی وسطیٰ سے باہر نکالنا چاہتا ہے اور اسکے لئے اسرائیل کو کمزور دیکھانا ضروری ہے۔اسرائیل کمزور نظر آئیگا تبھی خلیجی ممالک اسرائیل کو چھوڑ کر ایران کے ساتھ کھڑے ہونگے۔
دراصل حماس اور اسرائیل کی لڑائی ایران اور اسرائیل کا خلیجی ممالک کی تیل کی دولت پر اجارہ داری کی لڑائی ہے۔بظاھر یہ نظر آ رہا ہے کہ اسرائیل جنگ روکنے کے لئے تیار نہیں ہے۔لیکِن اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ ختم ہو جائے اسکے لئے اسرائیل سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔اسرائیل امریکہ کے ذریعے جنگ روکنے کے لئے مصر اور قطر سے رابطہ بنائے ہوئے ہیں۔غزہ میں مصر کے کردار کو سمجھ چکے ہیں اور قطر کا مطلب ایران ہوتا ہے۔اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کب رکےگی یہ ایران پر منحصر ہے۔فی الحال حماس مصر کی بات بھی ماننے سے انکار کر رہا ہے۔صیہونی ریاست اتنی بڑی طاقت ہونے کے باوجود اپنے عوام کو حماس کے راکٹ حملے سے نہیں بچا پا رہے ہیں۔اسرائیلیوں کے دن بنکر میں گزر رہے ہیں جس کے وے عادی نہیں ہیں۔آئرن ڈوم جس پر اسرائیل کو ناز تھا وہ بھی حماس کے راکٹ حملے سے اسرائیل کے لوگوں کو بچا نہیں پا رہا ہے۔اسرائیل کے وزیر اعظم نیتیں یاہو سخت دباؤ میں ہیں اور جلد سے جلد جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں۔حماس کے لڑاکو نے اسرائیل کی طاقت کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔جنگ آج یا کچھ دنوں میں بند ہو جائے گی۔لیکِن اس جنگ نے مشرقی وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو بدل کر رکھ دیا ہے اور وہ دن دور نہیں ہے کہ اب دنیا کو اسرائیل کی سلامتی کے لئے ایک آزاد اور خودمختار فلسطین کی حثیت کو قبول کرنا ہوگا اور جس کی راجدھانی مشرقی یروشلیم ہوگی۔
(نوٹ – یہ مضمون جنگ بندی کے دو دن پہلے لکھی گئی تھی)

Comments are closed.