حماس کی مزاحمت اسرائیل پر کتنی بھاری

عبدالرافع رسول
جمعہ 21مئی 2021کوعلیٰ الصبح اسرائیل اور حماس کے درمیان سیز فائر نافذالعمل ہوچکاہے ۔11 روز تک جاری رہنے والی اس اسرائیلی جارحیت میں خواتین اور بچوں سمیت مجموعی طورپر 240 سے زیادہ افرادشہید ہوئے ہیں،جن میں سے بیشتر شہادتیں غزہ میں ہوئی ہیں۔سیز فائر نافذالعمل ہوتے ہی فلسطینیوں نے غزہ کی سڑکوں پر آ کر االلہ اکبر کے نعرے بلندکئے۔اسرائیل اور حماس دونوں نے اپنی اپنی فتح کا دعویٰ کیا ہے۔سوال یہ ہے کہ اصل فتح کس کی ہوئی ،فتح اسی کوحاصل ہوتی ہے کہ جو نہایت بے سروسامانی کے عالم میں ہونے کے باجود اپنی استقامت سے ہرقسم کے جدیدترین سامان حرب وضرب سے لیس مدمقابل کوسیزفائر پرمجبورکرائے اس تناظر میں حماس کو فتح ہوئی اوریہودیوں کوشکست ۔کاش عرب ممالک فلسطین میں حماس اورمصر میں اخوان المسلمون کے منڈیٹ کوتسلیم کرکے انکے ساتھ کھڑے ہوجاتے توآج مشرق وسطیٰ کانقشہ لیکن افسوس قطر کے سوا فی الوقت ان دونوں انقلابی قوتوں کے ساتھ تمام عرب ممالک نے رشتہ و ناطہ توڑ کے رکھ دیاہے اورانہیں تسلیم کرنے کے بجائے ،انہیں سپورٹ کرنے کے بجائے انہیں دہشت گردقراردے کرقریش مکہ کی طرح ان سے بلال وخباب جیسا سلوک کررہے ہیں۔چلئے آج حماس کی قوت کااجمالی جائزہ لیتے ہیں ۔
مردسپاہی ہے وہ اسکی زرہ لاالٰہ
سایہ شمشیرمیں اس کی پناہ لاالٰہ
کافرہے توشمشیرپہ کرتاہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتاہے سپاہی
فلسطینی تنظیم حرکہ المقاومتہ الاسلامیہ یااسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس ‘‘ کی بنیاد غزہ اور غرب اردن میں اسرائیلی قبضے کے خلاف 1987 میں شیخ احمد یاسینؒ شہیدنے رکھی۔اس کے اہم مقاصدمیں سے بیت المقدس مسجدالاقصیٰ ،ارض مقدس یعنی سرزمین فلسطین سے سفاک، جارح اورقابض اسرائیلی فوج کو نکال باہر کرنا ہے اوراہل فلسطین کی زمینوں اورانکے آبائی گھروں کوہڑپ کرنے اورجبری قبضہ جمانے والے یہودی آبادکاروں کوارض فلسطین سے بے دخل کرناہے مقاصدکے حصول کے لئے حماس اسرائیلی فوج اوریہودی آبادکاروں کے خلاف مسلح مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے۔جبکہ اس کے طویل المدتی مقاصد میں فلسطین کوہرطرح سے ایک مکمل اسلامی ریاست میں بدل دیناہے۔2004 میں حماس کے بانی امیرشیخ احمد یاسین ؒ ایک اسرائیلی حملے میں شہیدہوئے جبکہ ان کی شہادت کے معاََ بعد ان کے جانشین عبدالعزیز رنتسی ؒاسرائیلی حملے میںشہید ہوگئے ۔ عبدالعزیز رنتسی ؒکی شہادت کے بعد خالدمشعل حماس کے سربراہ نامزدہوئے تاہم آج کل اسماعیل ہانیہ حماس کی زمام تھامے ہوئے ہیں۔حماس کی متذکرہ قیادت انتہائی درجے کی خداترس اورعالم وفاضل ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت قابل اورباصلاحیت ہیں۔انکی (Dictionary)میں جھکنے اوربکنے جیسے الفاظ کوئی نہیں۔سابق امریکی صدر کلنٹن کی سرپرستی میں امریکی پشت پناہی سے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن اور تنظیم آزادی فلسطین یا پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات کے ساتھ1993میں ہونے والے’’اوسلو معاہدہ‘‘کیاجس کی اہم شق یہ تھی کہ فلسطینی جہادبالسیف کومکمل طورپرترک کریں گے لیکن حماس نے یہ کہتے ہوئے’’اوسلو معاہدہ‘‘ ماننے سے صاف انکارکیاکہ یہ اسرائیل کوقبول کرنے اوراسکے سامنے شکست کااعتراف کرنے کے متراف ہے۔اسلامی تحریک مزاحمت’’ حماس‘‘ اپنے یوم قیام اوراپنے یوم تاسیس سے آج2021 تک اپنی33 سالہ سیاسی اورعسکری سفر کے د وران ہمیشہ اس موفف پرقائم رہی ہے کہ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ باطل، جارحانہ اور ناجائز ہے اوراسکے اس جبری تسلط کوایک بھرپور مزاحمت اور مسلح جدو جہد جاری رکھنے سے ہی خاتمہ ہوگا ۔ حماس نے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق اسرائیل کے ساتھ استوارنہیں رکھااور صہیونیوںکے سرزمین انبیاء ،ارض فلسطین پر ناجائز تسلط کے خلاف مسلح جدو جہد جاری رکھی۔
مردخداکاعمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پرحرام
حماس نے اپنی اصطلاحی تعریف بھی واضح کی ہے، اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ارض فلسطین کی آزادی کی تحریک ہے جو قومی اور اسلامی بنیادوں پر مزاحمت کے اصولوں پر قائم ہے۔ اس کا ہدف فلسطین کی آزادی اور اس کا مقابلہ قابض صہیونی پروگرام سے ہے۔ اسلام حماس کی بنیادی تعلیمات کی بنیاد ہے اور اس کے اہداف وسائل بھی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔حماس اس بات پر زور دیتی ہے کہ اسلام کا پیغام حق، عدل و انصاف، آزادی، انسانی وقار، ظلم کی تمام اشکال کو حرام قرار دینے، رنگ ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ ظلم کو جرم قرار دینے جیسی سنہری اقدار کا امین ہے۔ اسلام اپنے پیروکاروں کی تربیت جارحیت اور ظلم کے خلاف لڑنے اور مظلوم کی نصرت کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام سخاوت، قربانی، اپنی عزت کے دفاع، وطن، قوم اور مقدسات کے تحفظ کی تلقین کرتا ہے۔
تنظیم کا 1988 میں اعلان کردہ اصل منشور آج بھی بے لچک من وعن اورجوں کا توں نافذالعمل ہے۔ جس میں اس نے واضح کیاہواہے کہ حماس اسرائیل کے فلسطینی سرزمین پر قیام کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتی ہے۔ ارض فلسطین اور اس کے حوالے سے حماس کے بنیادی مطالبات، فلسطینی قوم اور اس کے بنیادی مطالبات سر فہرست ہیں۔ فلسطین کے عالم اسلام سے تعلقات اور حماس کا موقف، بیت المقدس، پناہ گزینوں کی واپسی، اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے د رمیان فلسطین کی بندر بانٹ مستردکرنے کا موقف، تحریک آزادی اور مزاحمت، فلسطین کے سیاسی نظام کے خدو خال، حماس کے عرب اور مسلمان ممالک کے ساتھ تعلقات اور عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کے اصول و ضوابط شامل ہیں۔اس حوالے سے وہ خطے کے خلیجی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات استوارکرتی رہی ہے اوران سے عملی تعاون مانگتی رہی ہے ۔لیکن سوائے قطرکے تمام عرب ممالک نے حماس پراپنے د روازے بندکردیئے۔ حماس کاموقف ہے کہ سرزمین فلسطین صرف عرب فلسطینی قوم کا وطن ہے۔ اسی میں اس قوم نے آنکھ کھولی۔ اسی میں پرورش پائی، قوم کا اسی مٹی سے آج بھی تعلق ہے اور یہ تعلق ہمیشہ قائم رہے گا کیونکہ فلسطینی قوم کا اس کے سوا اور کوئی وطن نہیں۔نیزیہ کہ اگرچہ فلسطین اہل فلسطین کا وطن ہے مگر عالم اسلام میں بھی اسے ممتاز مقام حاصل ہے۔
حماس کے منشور میں بیت المقدس کو محوری حیثیت حاصل ہے۔ بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے علاوہ شہر اپنی دینی، تاریخی، تہذیبی، عربی، اسلامی اور انسانی شناخت بھی رکھتا ہے۔ اس شہر کی آزادی فلسطینی قوم ہی نہیں بلکہ مسلم امہ کا مسلمہ اور ثابت شدہ حق ہے۔ اس پر کوئی سمجھوتہ قبول ہوگا اور نہ اس کی تقسیم گوارا کی جائے گی۔ بیت المقدس کو یہودیانے کی جس قدر سازشیں کی جا رہی ہیں ان کا مقصد شہر مقدس کی اسلامی، عرب اور فلسطینی تشخص کو مٹانا اور شہر پر یہودیت اور عبرانیت کی چھاپ قائم کرنا ہے۔ مسجد اقصی یعنی مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے۔ مسجد اقصی خالصتا فلسطینی اور مسلمان قوم کی ملکیت ہے اور اس پر کسی دوسرے مذہب کی اجارہ داری اور قبضہ قبول نہیں ہوگا۔ مسجد اقصی کو یہودیانے، اسے تقسیم کرنے اور اس کی آئے روز بے حرمتی کی تمام سازشیں جارحانہ اور باطل ہیں۔
حماس کی ہیت ترکیبی اور انتظام دو بنیادی شعبوں اورحصوں میں منقسم ہیں۔پہلاانتظامی اورمعاشرتی امور جیسے کہ سکولوں، ہسپتالوں اور دینی اداروں کی تعمیر جبکہ اس کادوسرا شعبہ جہادبالسیف کاہے۔ جہادبالسیف کی کاروائیاں اسکی عزالدین القسام بریگیڈ سر انجام دیتی ہے۔اپنی پالیسیوں کی وجہ سے حماس نے 2006 کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی اور فلسطین میں انتظامی امورچلانے کے لئے سریرآرائے اقتدارہوئی۔اسمائیل ہانیہ وزیراعظم منتخب ہوئے جبکہ یاسرعرفات کی تنظیم الفتح سے تعلق رکھنے والے محمودعباس بدستورصدررہے ۔حماس کی کامیابی امریکہ کوبرداشت نہ ہوسکی تواس نے عرب ممالک کے حکمرانوںکویہ ٹاسک سونپاکہ کسی بھی طرح حماس کواقتدارسے بے دخل کیاجائے چنانچہ ٹاسک پوراکرنے کے لئے صدرمحمودعباس کوشیشے میں اتاراگیا حماس کی انتظامیہ کے معرض وجودمیں آنے کے محض چندماہ بعد2007 میںمرحوم یاسرعرفات کی باقیات الفتح نے حماس سے اقتدارچھینے پررسہ کشی شروع کردی ۔جس کے باعث دونوں کے درمیان اختلافات کافی شدت اختیار کر گئے یوں فلسطین میں خانہ جنگی کا ماحول پیداہوا۔ دونوں جماعتوں کے درمیان مفاہمت کی کئی کوششیں ہوئیں لیکن ان میں ناکامی ہوئی۔ آخر کار صدر محمود عباس نے جون 2007 میں حماس کی منتخب حکومت کو توڑ کر اپنی خودساختہ کابینہ اور وزیراعظم کا اعلان کردیا۔ ایسا کرتے وقت محمود عباس کو امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ کچھ عرب حکومتوں کی مکمل حمایت اور آشیرباد حاصل تھی۔
حماس سے جبری طورپراقتدارچھینے جانے کے بعد اسے غزہ تک محدودرکھاگیاہے تاہم غزہ میں باقاعدہ طورپرحماس کی انتظامی امورچلارہی ہے اورغزہ میں الفتح کی انتظامیہ کاکوئی خاطرخواہ اثرونفوذ نہیںہے۔غزہ پٹی کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں ہوتا ہے۔ مصر، اسرائیل اور ساحلی علاقوں کی سخت ترین نگرانی کے باعث غزہ پٹی کا دنیا سے رابطہ بالکل منقطع ہے۔اس ناکہ بندی کے باعث غزہ پٹی زبوں حال معیشت کی شکارہے ۔غزہ کی پٹی مشرق وسطی میں واقع اور مصر اور اسرائیل سے متصل ایک تنگ علاقائی پٹی ہے۔غزہ پٹی کی لمبائی365 کلومیٹرجبکہاس کی آبادی 1.7 ملین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس خطے میں دنیا میں آبادیاتی ترقی کی ساتویں نمبر ہے۔اس کے باشندوں کا کافی حصہ فلسطینی مہاجر ہیں۔سلطنت عثمانیہ کے دوران غزہ اس سلطنت کااہم مرکز تھا ، لیکن1918 میں پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد اس پر انگلینڈ نے جبری قبضہ کرلیا۔غزہ کی پٹی1948 اور1949 کے درمیان پھر ابھری کہ جب فلسطین کوجبری طورپر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔فلسطین کے سب سے بڑے اوروسیع حصے پر اسرائیل نے جبری قبضہ کیا ،جبکہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں اہل فلسطین سمیٹ دیئے گئے۔ارض فلسطین کے غالب حصے پرناجائز اورجبری ریاست اسرائیل کی تشکیل کے ساتھ ہی اکثر فلسطینیوں نے غزہ کی پٹی میں پناہ لے لی۔1950 سے ، مصر نے اس خطے پر کنٹرول کرنا شروع کیا ، یہاں تک کہ 1967میں اسرائیل نے چھ روزہ جنگ جیت کر غزہ کی پٹی سمیت کچھ علاقوں کوناجائزطورپر اسرائیل میں شامل کرلیا۔غزہ پٹی مصر کے ساتھ سرحد11 کلومیٹر لمبائی تک پھیلی ہے ، جبکہ ناجائزطورپرقائم ہونے والے ا سرائیل سے غزہ51 کلومیٹر تک دورہے۔بیت ہانون ، بیت لاہیہ ، دیر البلاہ ، غزہ ، جبالیہ ، خان یونس ، رفا کے نام سے موسوم بستیاں اورعلاقے غزہ میں ہی واقع ہیں۔
جب 1948میں اقوام متحدہ اور برطانیہ نے اسرائیل کو جنم دیا وہ دن اورآج کادن امریکہ اس کا باپ بن کر سرپرستی کر رہا ہے امریکہ نے ہمیشہ مظلوم کوظالم کہااورظالم کومظلوم ،علیٰ ہذاالقیاس وہ مظلوم فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک حماس کوظالم قراردے رہاہے اورفلسطینیوں پرآگ برساوالے اورغزہ کوکھنڈرات میں تبدیل کرنے والے اسرائیل کومظلوم کہہ کرکہتاہے کہ اسرائیل کویہ حق حاصل ہے کہ وہ حماس کی طرف سے پھینکنے والے راکٹوں پراپنادفاع کرے یعنی فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹادے ۔سامان حرب وضرب کے اعتبارسے اسرائیل کے مقابلے میں حماس اگرچہ نہایت کمزور فریق ہے بلکہ یوں کہاجائے کہ اسلحے کے اعتبارسے حماس کااسرائیل کے ساتھ کوئی تقابلہ نہیں تاہم وہ کوئی نہتابریگیڈبھی نہیں ہے وہ ایمان کے مضبوط ترین ہتھیارسے لیس ہے ۔ایمان کی بنیادپرہی وہ بہادری ،دلیری اور شجاعت کے ساتھ اسرائیلی قلعوں پر حملہ ور ہے، اس نے بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی کیلئے عہدکررکھاہے، کسی ڈگر جھکنا، رکنا اور پیچھے مڑنا اسے کی سرشت میںنہیں ۔اسکے پاس اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کارروائیاں کرنے کے لیے محدودہی سہی لیکن ہتھیارضرور ہیں۔حماس کے پاس زمین سے زمین تک مار کرنے اور(current guided missile system) کورنٹ گائیڈڈ ٹینک شکن میزائل ہیں اگرچہ یہ جدید قسم کے نہیں ہیں۔ حماس کے یہ میزائل اوردیگر ہتھیارخودساختہ ہیں جواسکی اپنی دیسی ہتھیارساز فیکٹریوں میں تیارکئے جاتے ہیں۔حماس کے پاس اتنے میزائل ضرور ہیںکہ کافی عرصے تک وہ اسرائیلی ٹھکانوںکوہدف بنا سکتی ہے اوراپنی مزاحمت جاری رکھ سکتی ہے۔ اگرچہ حماس کے پاس کئی قسم کے میزائلوں کی بڑی کھیپ موجودہے تاہم ان میں سے کوئی زیادہ جدید ڈیزائن کے نہیں ہیں۔ حماس کے پاس شارٹ رینج میزائل کی ایک قسم جسے ’’القسام‘‘ کہاجاتاہے جسکی رینج 6 سے10 کلومیٹرہے ۔دوسراشارٹ رینج میزائل جوحماس کے پاس ہے اسے ’’القدس‘‘کہاجاتاہے جسکی رینج 16سے110 کلومیٹر ہے۔ اس کے علاوہ حماس کے پاس گریڈ سسٹم اور سیجل 55 میزائل ہیںجسکی رینج55 کلومیٹر ہے۔ اس کے علاوہ حماس کے پاس مارٹر سسٹم بھی ہے۔ان میں سے ایک کانام’’ الفجر‘‘جسکی رینج100 کلومیٹر تک ہے۔آرنامی مارٹرجسکی رینج 160 کلومیٹر تک ہے جبکہ ایم -302ایس بھی حماس کے پاس ہے کی رینج 200 کلومیٹر تک ہے ۔ شارٹ رینج ہی سہی لیکن یہ توطے ہے کہ حماس کے ہتھیار تل ابیب یا یروشلم کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور اسرائیل کے ساحلی علاقے جہاں پر اس ملک کی زیادہ تر آبادی اور اہم ترین تنصیبات ہیں، کو بھی حماس کے میزائل نشانہ بنا سکتے ہیں۔اسرائیلی کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ کئی روزکے دوران اسرائیل نے اس پر 3500کے قریب راکٹ فائرکئے ہیں جن میں سے 90 فیصد کو اسرائیل کے(Iron Dome systems) آئرن ڈوم سسٹم نے انٹرسیپٹ کر لیا ہے۔ مگر آئرن ڈوم کا ایک حصہ جو کہ ایشکیلون شہر کا دفاع کر رہا تھا تکنیکی خرابی کی وجہ سے حالیہ کشیدگی میں آف لائن تھا۔ یہ مکمل طور پر100 فیصد کامیاب میزائل شکن نظام نہیں ہے۔اسرائیل نے اعتراف کیاکہ حماس کی طرف سے داغے جانے والے میزائلوں سے 10اسرائیلی ہلاک جبکہ 300سے زائدزخمی ہوئے۔لیکن ہلاک اورزخمی شدگان کی تعدادکہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ اسرائیل نے آج تک ابھی جانی اورمالی نقصان کے صحیح اعدادوشمارپیش نہیں کئے اورنہ ہی اسرائیل میں ایسے کسی آزادمیڈیاچینل کی رسائی ہے جودرست اعدادوشمار سامنے لے آتا۔یہاں یہ بات قابل غورہے کہ اسرائیل نے اپنی حفاظت کے لئے جس میزائل شکن نظام آئرن ڈوم سسٹم کی تنصیب کررکھی ہے اس سب کے باجودحماس کی مزاحمتی کارروائیوں نے اسرائیلوں کورولایااورانہیں بھی اپنے عزیزوں کے تابوت کندھوں پرسوارکروائے۔
اللہ کوپامردی مومن پہ بھروسہ
ابلیس کویورپ کی مشینوں کاسہارا
Comments are closed.