اسرائیلی جارحیت میں خیر کا پہلو

صفوان غنی، عالم گنج، پٹنہ
(8092649313)

دو سو سے زائد فلسطینیوں کی شہادت کے بعد بظاہر یہ عنوان عجیب معلوم ہوتا ہے البتہ یہ غیبی نظام ہے کہ شر میں بھی بعض دفعہ خیر کا پہلو نکل آتا ہے۔ایک کمزور اور بے یار و مددگار خطہ غزہ پر اسرائیلی بمباری بدستور جاری ہے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے جب فلسطینی باشندے اس بدترین ظلم کا شکار ہوئے ہیں اور نہ ہی شاید آخری مرتبہ ہو۔ ہر آنے والا دن فلسطینیوں بالخصوص اہل غزہ کے لیے بظاہر تاریک نظر آتا ہے۔ان سب کے باوجود بعض ایسے خیر کے پہلو بھی ہیں جو ہم سے صرف نظر ہو جاتے ہیں۔یہاں اسرائیلی جارحیت اور اس کے جواب میں فلسطینی مزاحمت کے وہ پہلو پیش ہیں۔

1. سوشل نیٹورکنگ سے اسرائیلی ظلم کا آشکار ہونا
ایسا نہیں ہے کہ اسرائیلی ظلم و تشدد کے واقعات کی ترسیل پہلے نہیں ہوتی تھی۔ البتہ پہلے ایک عام آدمی کو فلسطین کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے دوسروں پر انحصار کرنا پڑا تھا۔ ان کے پاس ایسا کوئی طریقہ کار نہیں تھا کہ وہ براہ راست فلسطین کے حالات و واقعات سے باخبر رہ سکیں۔ آج ہر شخص جسے سمارٹ فون کا بنیادی استعمال آتا ہو وہ بیک وقت اسرائیلی بمباری اور حماس کی مزاحمتی کارروائیوں کو دیکھ اور سمجھ سکتا ہے۔ جہاں آئی ڈی ایف (اسرائیلی ڈیفنس فورسز) جیسے ٹویٹر ہینڈل ہیں وہیں قدس نیوز نیٹورک اور حماس کی ملٹری ونگ القسام بریگیڈ بھی ہے جن کہ ذریعہ ہر لمحہ کی خبر مل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسرائیل کی کریہہ شبیہہ دنیا کے سامنے جس قدر عیاں ہوئی ہے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔

2. . کھلاڑیوں، فلمی اداکاروں اور دوسرے بااثر افراد کا فلسطین کی حمایت میں آنا
سوشل نیٹورکنگ اور دوسرے ذرائع سے صحیح خبریں حاصل کرنا یا یوں کہیں کہ خبروں کو چھانٹنا نسبتاً آسان ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر کھیلاڑی، اداکار اور دوسرے مشہور و بااثر افراد فلسطین کے ساتھ کھل کر اظہار یکجہتی پیش کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں مشہور بھارتی اداکرہ سوارہ بھاسکر، مینچسٹر یونایٹڈ اور فرانس کی نیشنل ٹیم کے فٹبالر پول پوگبہ ، ا مریکہ کے معروف اداکار (جن کے تقریباً 75 لاکھ ٹویٹر فولوور ہیں) مارک رفیلو، الجزیرہ کی نیوز اینکر سنا سعید، امریکہ کی مشہور و معروف موڈل بیلا حدید جن کے چار کروڑ سے زیادہ انسٹاگرام فولووَرہیں اور ان جیسے بے شمار لوگ اب کھل کر فلسطین کی حمایت میں بولنے لگے ہیں۔

3. غیر متعصب مانے جانے والے مغربی میڈیا کا چہرہ بے نقاب ہونا
نیو یارک ٹائمز، بی بی سی اور واشنگٹن پوسٹ جیسے بڑے میڈیا گھرانوں کے بارے میں یہ مانا جاتا رہا ہے کہ ان کی رپورٹنگ غیر جانبدارانہ رہتی ہے۔ یہ مفروضہ اب دھیرے دھیرے کمزور ہونے لگا ہے۔حالیہ دنوں میں ان کی رپورٹنگ اور اس میں استعمال کیے گئے الفاظ یا یہ کہیں کہ الفاظ کے ساتھ کھیل (wordplay) ایک عام قاری کے ذہن میں ایک خاص قسم کا تاثر بناتا ہے۔
نیو یارک ٹائمز کی اس سرخی کو دیکھیں :
Israelis and Palestinians Clash Around Jerusalem’s Old City
یا بی بی سی کی اس سرخی کو دیکھیں:
Al-Aqsa mosque: Dozens hurt in Jerusalem clashes
شیخ جراح جہاں فلسطینیوں کو اپنے گھر سے بے دخل کیا جارہا تھا اسے خبر نہیں بنایا گیا۔ بلکہ جب کچھ فلسطینی مسلمان ایک دعوت افطار میں شریک تھے اور ان پر شدت پسند صیہونیوں نے حملے کیے تو اسے "جھڑپ” کا نام دے دیا گیا. اس کا مطلوب شاید یہ رہا ہوگا کہ اسے اسرائیل کی اقدامی کاروائی نا دکھا کر دو طرفہ تشدد ظاہر کیا جائے۔
جرمنی کی بہت ہی معروف نیوز ایجنسی ڈویچ ویلے نے ۱۱ مئی کو ایک ٹویٹ کیا جو کچھ اس طرح تھا:
Palestinian health officials in the Gaza Strip say 20 people, including nine children, have been killed in fighting with Israel.
بظاہر اس جملے میں کہیں کوئی چیز قابل اعتراض نہیں معلوم ہوتی ہے لیکن قاری کے ذہن میں یہ بات ڈالنے کی ایک خطرناک کوشش کی گئی ہے کہ جو بیس لوگ مارے گئے ان میں ۹ بچے بھی اسرائیل کے خلاف لڑائی میں شامل تھے۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں مل جائیں گی جہاںwordplay کے ذریعہ گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ اب اس قسم کی بددیانتی چھپ نہیں پاتی ہے۔سی جے ویرلیمن آسٹریلیا کے معروف صحافی ہیں۔ وہ کہتے ہیںکہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی تشدد چوبیس گھنٹے اور سالوں بھر جاری رہتا ہے۔ انہیں قید کیا جاتا ہے، گولی ماردی جاتی ہے، بے گھر کیا جاتاہے اور ان پر بمباری کی جاتی ہے لیکن میڈیاتب اسے ’’تنازعہ‘‘ کے طور پر پیش کر تا ہے جب فلسطینی مزاحمت پر مجبور ہوتے ہیں۔لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حماس کے راکٹ حملوںسے ہی کشیدگی ہوئی ہے۔

4. حماس کی مقبولیت و مزاحمت میں اضافہ ہونا
سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ غزہ کے بدترین محاصروں کے باوجود حماس نے اپنی دفاعی طاقت میں زبردست ترقی حاصل کی ہے۔ایک محدوداندازہ یہ ہے کہ 2008میں حماس کے میزائل 40 کیلومیٹر کا رینج کور کرتے تھے، یہ رینج 2014میں بڑھ کر 100کیلومیٹر ہو گیا۔ابھی حماس کے میزائیل 200کیلومیٹر یعنی اسرائیل کے بالکل جنوبی علاقہ نہاریا تک ٹارگیٹ کر سکتے ہیں۔یونیورسٹی آف سائوتھ آسٹریلیا میں سوشیولوجی کے لیکچرر محمد سلیمان غزہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ غزہ میں آپ کسی بھی عام آدمی سے اگر یہ پوچھیں کہ کیا وہ خود کو حماس سے الگ دیکھتے ہیںتو ان کا جواب ہوگاکیا ہم اپنے کنبہ کو چھوڑ دیں؟

5. اسرائیل کی پروپیگنڈا مشینری کا کمزور پڑنا
عوامی صحافت جسے انگریزی میں سٹیزن جرنلزم کہا جاتا ہے اس نے اسرائیلی پروپیگنڈا کو کمزور کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔فلسطینی اب نہ صرف اچھی انگریزی بولتے ہیں بلکہ اپنوں پر ہونے والے اکثر تشدد کے واقعات کو موبائل پر ریکارڈ کر کے دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ جب حالیہ اسرائیل جارحیت شروع ہوئی اس وقت کئی فلسطینی نوجوانوں کو اسرائیلی پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ہاتھوں میںہتھکڑی ہونے کے باوجود یہ نوجوان مسکرا رہے تھے ۔مریم عفیفی انہیں میں سے ایک نام ہے جن کی ویڈیو سب سے زیادہ وائرل ہوئی ۔الجزیرہ نے ان سے انٹرویو کیا وہیں ترکی کی خاتون اول امینہ اردوان نے ان بذات خود فون کرکے خیریت حاصل کی۔
اسرائیل ڈیفنس فورسز کے ٹویٹس پر آئے جوابات (Replies)پڑھیں جائیںتو سوائے چند مودی حامیوں اور امریکی یہودیوں کے اکثر جواب میں ان کے جارحانہ اقدام کی مزمت ملے گی۔ اسرائیل دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ حماس عام شہریوں کوانسانی ڈھالHuman Shieldکے طور پر استعمال کرتا ہے لیکن غزہ سے آنے والے ویڈیوز میں یہ صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح اسپتالوں اور میڈیا دفاترپر بھی بمباری کی جاتی ہے۔

فلسطینی نہ صرف دشمن ریاست کے نرغہ میں ہیں بلکہ وہ اپنوں کی بھی بے اعتنائی کا شکارہیں۔بعض اپنے ان کی مزاحمت کو دہشت گردی سے تابیرکرتے ہیں تو بعض اپنے فلسطینیوں کے لیے دروازے بند رکھتے ہیں۔اسرائیل کی طاقت اس قدر ہے کہ چند دن کی بمباری غزہ کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کر سکتی ہے۔ان سب کے باوجود دنیا اب یہ جاننے لگی ہے کہ فلسطینی مظلوم ہیں۔بظاہر یہ مٹھی بھر افرادکا مستقبل تاریک نظر آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اتنا ہی روشن اور تابنا ک ہے۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ وعد ئہ خداوندی ہے کہ "جس پر زیادتی کی جائے گی اللہ اس کی ضرور مدد کرے گا” (سورہ حج 60) ۔ البتہ مدد آنے سے پہلے ہو سکتا ہے ایک قوم ہلا ماری جائے، مدد کی راہ دیکھتے دیکھتے ان کی آنکھیں تھک جائیں۔
’’جب وہ اوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے۔ جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آ گئے اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے، اس وقت ایمان لانے والے خوب آزمائے گئے اور بری طرح ہلا مارے گئے ‘‘ (احزاب 10،11)۔

 

Comments are closed.