یوگی پولس کے ہاتھوں مسلمانوں کی لنچنگ!

احساس نایاب ( ایڈیٹر گوشہء خواتین بصیرت آن لائن، شیموگہ, کرناٹک )

کل تک جس طرح سے مسلمانوں کی لنچنگ مودی بھگتوں کے ذریعہ کروائی جارہی تھی وہ آج کل یوگی پولس بخوبی انجام دے رہی ہے ….
جو سرکار اپنی جنتا کو دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکی, جس کی اوقات بیمار جنتا کو دوائی دینے، اُس کا علاج کروانے یہاں تک کہ مرنے کے بعد اُس کا انتم سنسکار کرنے کی نہیں ہے وہ سات سالوں سے کیڑے مکوڑوں کی طرح مسلم نوجوانوں کا وحشیانہ قتل کروارہی ہے …
کہیں اپنے خونی درندوں کے ہاتھوں آصف جیسے خوبرو نوجوانوں کی لاشیں گرارہی ہے تو کہیں سنگھی پولس کے ذریعہ معصوم نوجوانوں کا خون بہایا جارہا ہے یوں اترپردیش کی یوگی سرکار نسل کشی پہ اتر آئی ہے، اپنی غنڈہ پولس کے ہاتھوں اقلیتی طبقہ کی نسل کشی کی جارہی ہے, لاک ڈاؤن کی آڑ میں غیریب مزدور طبقے کو بالخصوص مسلمانوں کو بےرحمی سے مارا جارہا ہے؛ تاکہ قانوں کی آڑ میں مسلم نوجوانوں کو ہمیشہ کی نیند سلادیا جائے ….
دراصل یہ بھی ایک قسم کی لنچنگ ہی ہے، ماب لنچنگ جو خاکی وردی والی پولس کے ذریعہ بی جے پی حکومت کروا رہی ہے …. آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ کیسے لاک ڈاؤں کی آڑ میں 4 سے 5 , یا کہیں کہیں تو 10 سے 12 پولس والے ایک نہتھے مفلس انسان کو جانوروں کی طرح مارتے ہیں, اُس وقت تک جب تک کہ وہ مر نہ جائے جیسے آج 18 سالہ فیصل کو مارا گیا ہے …..
اناؤ ضلع میں فیصل نامی اس 18 سالہ نوجوان کو پولیس اہلکاورں نے اتنا پیٹا کہ اس معصوم کی جان چلی گئی۔ فیصل کا ‘جرم‘ محض اتنا تھا کہ وہ اپنے غریب گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لئے لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے باوجود سبزی بیچ رہا تھا !
فیصل کے ایک رشتہ دار اکرام کا کہنا ہے کہ یہاں جزوی طور پر لاک ڈاؤن لگا ہے اور سبزی ضروری چیز ہے جسے فروخت کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود پولیس نے مسلمان ہونے کے بنا پر فیصل پر اتنا ظلم کیا کہ اس کی موت ہو گئی, جبکہ بازار میں فیصل اکیلا نہیں تھا جو سامان بیچ رہا تھا اور بھی لوگ ایسا کر رہے تھے؛ لیکن افسوس فیصل کو مسلمان ہونے کی سزا ملی ہے …..
خبروں کے مطابق فیصل اناؤ کے بھٹ پوری علاقہ میں رہائش پذیر تھا۔ جمعہ کے روز وہ نزدیکی قصبہ بانگر مئو میں سبزی فروخت کر رہا تھا۔ اس کے اہل خانہ کے مطابق دو سپاہی اور ایک ہوم گارڈ نے لاک ڈاؤن کے دوران سبزی بیچنے کی پاداش میں اس کی پٹائی کر دی, اس کے بعد پولیس اس کو تھانے لے گئی۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ فیصل کو وہاں لے جاکر بھی بےرحمی سے پٹائی کی گئی۔ اس کے بعد جب اس کی طبیعت بگڑ گئی تو اسے اسپتال لے جایا گیا؛ لیکن ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔ اس کے بعد پولیس والے فیصل کی لاش کو اسپتال میں چھوڑ کر بھاگ گئے …..
فیصل کی موت کے بعد مشتعل لوگ سڑک پر اتر آئے اور مقامی پولیس کے خلاف نعرے بازی کرنے لگے, مظاہرین نے ہردوئی , اناؤ روڈ کو بھی جام کر دیا, اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں اور 6 گھنٹے تک ہنگامہ چلتا رہا, تب جاکر اے ایس پی ششی شیکھر نے بتایا کہ ہوم گارڈ کو برخاست کر دیا گیا ہے اور دونوں سپاہیوں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ دیر رات 11 بجے ملزم پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے …..؛
لیکن سوال یہ ہے کہ ہوم گارڈ کو برخاست کرنے یا پولس اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرنے سے کیا ہمارا فیصل ہمیں واپس مل جائے گا ؟؟؟
کیا اُن بدنصیب ماں باپ کے آنگن کا چراغ دوبارہ جل پائے گا ؟؟؟
کیا اُس گھر کی خوشیاں دوبارہ لوٹ آئیں گی ؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں؛ کیونکہ فیصل تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلا گیا ہے؛ لیکن اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا ہے کہ آخر کب تک ملک میں مسلمانوں کی جانین کیڑے مکوڑوں کی طرح لی جائیں گی ؟؟؟ کب تک مسلمان کو مسلمان ہونے کی سزا دی جائے گی ؟؟؟
اور کب تک مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جائے گا ؟؟؟

Comments are closed.