امریکہ کاکھویاہواوقار؟

سمیع اللہ ملک
امریکی کانگریس بہت جلدبائیڈن کی طرف سے پیش کیے جانے والے1900ارب ڈالرکے کووڈ بل کی منظوری دینے والی ہے۔اس منظوری سے جوبائیڈن کایہ نعرہ کامیاب بنانے میں خاصی مددملے گی کہ امریکہ واپس آگیاہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ نعرہ اب تک محض ایک بڑھک ہے۔اس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کرسکتاکہ امریکہ کمزورپڑچکاہے۔ وہ عالمی سطح پراپنی برتری سے بہت حد تک محروم ہوچکا ہے۔جوبائیڈن کے انتخابی مہم کے دوران امریکہ کی واپسی یعنی عالمی سطح پراسے پہلی سی برتری اور سبقت واپس دلانے کے نعرے نے بیشترامریکیوں کی توجہ پائی۔امریکہ کچھ مدت سے متنازع ہے اوراس کی برتری بھی گم ہو چکی ہے۔وہ عالمی برادری میں الگ تھلگ بہت حدتک اس کی ساکھ خراب ہوگئی ہے۔ جوبائیڈن امریکہ کی غیرمتنازع عالمی سربراہ کی حیثیت بحال کرانے کی تگ ودومیں مصروف ہیں۔اب امریکہ میں بھی یہ بحث زورپکڑرہی ہے کہ امریکہ کوعالمی سطح پرقائدانہ کردار ادا کرناچاہیے یانہیں۔بہت سے امریکیوں کاخیال ہے کہ کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش ضرورکرنی چاہیے اورایساہو بھی سکتاہے کہ امریکہ اپناکھویاہوامقام دوبارہ حاصل کر لے ۔
حق تویہ ہے کہ امریکہ کی کامل اورغیرمتنازع برتری کادورجاچکاہے۔امریکہ معاشی اورعسکری قوت کے ملاپ سے بہت کچھ کر چکاہے۔ایک زمانے تک اس کی حیثیت مست وبے لگام ہاتھی کی سی رہی ہے۔اب مشکل یہ ہے کہ طاقت کے کئی مراکزابھرکر سامنے آچکے ہیں۔چین ہی نہیں،برازیل اور انڈونیشیا جیسے ممالک بھی بہت کچھ کرنے کاعزم رکھتے ہیں۔ اسلامی دنیامیں ترکی ہے جواپنی کھوئی ہوئی قائدانہ حیثیت بحال کرنے کی طرف تیزی سے قدم بڑھارہاہے۔ایسے میں امریکہ کیلئیےباقی دنیاکواپنی مٹھی میں لینے یاجیب میں رکھنے کا دوررہانہیں۔امریکہ باقی دنیا کی قیادت کرسکتاہے یانہیں،یہ سوال اہم ہے،مگراس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ کہاں کھڑاہے۔امریکی پالیسی سازجوکچھ بھی سوچتے ہیں زمینی حقیقتوں کی روشنی میں سوچتے ہیں۔کوشش کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینالازم ہے کہ امریکہ باقی دنیاپراپنی برتری ثابت کرنے اوران کی قیادت کرنے کی پوزیشن میں ہے بھی یانہیں۔
ٹرمپ کے عہدِصدارت میں امریکہ نے اپنے اتحادیوں سے کنارہ کرلیا۔وہ تنہاآگے بڑھنے کی ذہنیت کے ساتھ سامنے آیاتورابطے کم رہ گئے اوربہت سے اتحادی شدید ناراض ہو گئے۔ایک سال کے دوران ایک بڑی تبدیلی یہ رونماہوئی کہ کوروناوبانے امریکہ کوباقی دنیاکے سامنے بے نقاب کردیا۔وہ اتحادیوں اورپسمانددہ ممالک کی مددکی پوزیشن میں نہیں رہا۔۔کوروناوباجب تیزی سے پھیلی توامریکہ اوریورپ شدیددباؤمیں آگئے۔یہ افتادان کیلئے خاصی پریشانی کاباعث بنی۔امریکہ اوریورپ میں کوروناوائرس سے بہت بڑے پیمانے پراموات واقع ہوئیں۔کوروناکی وباپھیلی تودنیانے امریکہ کی طرف دیکھاکہ وہ اس وباسے نمٹنے میں باقی دنیاکی مدد کیسے کرے گا۔کوروناوبانے خودامریکہ کوبحران کی نذرکر دیا۔ایسے میں دوسروں کی مددکرنے کی گنجائش ہی کہاں رہی تھی؟
اس وقت امریکہ کیلئے سب سے بڑاچیلنج پوری دنیاکے لوگوں کوکوروناوائرس سے بچاؤکی ویکسین لگانے میں مدددینے کاہے۔پس ماندہ اورترقی پذیرممالک امریکہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔چین نے کوروناوائرس سے نمٹنے کے حوالے سے غیرمعمولی نوعیت کے اقدامات کیے ہیں۔اس نے کوروناوائرس کی وباکے دوران پسماندہ ممالک کوحفاظتی تدابیر اختیار کرنے میں خاصی مدددی۔ امریکہ توماسک کی پیداوارکے معاملے میں پیچھے رہ گیا۔چین نے میدان مارلیا۔کوروناوبانے چین کوعالمی سطح پرتیزی سے اور غیرمعمولی حدتک ابھرنے کاموقع فراہم کیاہے۔امریکہ کوبرابری کی بنیادپراتحادیوں کوبھی کوروناوائرس سے بچاوکی ویکسین لگانے کااہتمام کرناہے۔اس مدمیں وہ چارارب ڈالرخرچ کرے گا۔رواں سال کے آخرتک دوارب خوراکوں کااطلاق کرنے کاہدف ہے۔ اب تک کم آمدنی والے صرف7فیصدممالک کوروناوائرس سے بچاوکی ویکسین تک رسائی پانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ایسے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ امریکہ پسماندہ دنیاکوکوروناوائرس اوردوسری بہت سے وباؤں سے بچانے میں کیاکرداراداکرسکتاہے۔اب امریکہ کواپنی عالمی قائدکی حیثیت ثابت کرناہے۔اس موسمِ گرمامیں کوروناویکسین کے حوالے سے امریکہ کی ضرورت توپوری ہوجائے گی مگربائیڈن کوڈیفنس پروڈکشن ایکٹ کے تحت کوروناویکسین کی پیداوارمیں اضافے کی راہ ہموارکرناہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال کیلئے بڑی تعداد میں کوروناویکسین موجودہو۔
دواسازادارے جانسن اینڈ جانسن نے ایک ارب خوراکیں تیارکرنے کاوعدہ کیاہے۔پسماندہ ممالک کوکوروناویکسین فراہم کرنے کے وعدے پرعمل کے بعدبھی بہت بڑے پیمانے پرویکسین محفوظ کی جائے گی تاکہ کسی بھی ناگہانی صورتِحال میں الجھن اورخِفت کاسامنانہ ہو۔فائزرویکسین دنیاکے بیشترممالک میں استعمال ہورہی ہے۔ایسی صورت میں کوروناویکسین کی پیداواربڑھے گی مگر سب سے بڑامسئلہ اب بھی لاگت کاہے۔افریقی ممالک کیلئے زیادہ لاگت کسی بھی طورموزوں نہیں۔ یہ ممالک کچھ زیادہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔افریقی اتحادکی تنظیم نے3ڈالرفی ویکسین کے نرخ سے خریداری پرآمادگی ظاہرکی ہے۔امریکی دواساز ادارے دیگر(بالخصوص ترقی یافتہ)ممالک سے جوکچھ وصول کر
رہے ہیں یہ اس کا صرف20فیصدہے۔دنیابھرمیں ایک ارب افراد کوفوری طورپرکوروناویکسین دیناہے۔اب ٹرمپ دورکی کمپنی’’ نوواویکس‘‘ بھی میدان میں ہے۔امریکہ کواس مشن میں کامیاب ہوناہی ہے۔
اگرامریکہ نے کوروناویکسین کے حوالے سے اہداف حاصل کرلیے اوردنیاکواس کی ضرورت کے مطابق ویکسین فراہم کردی تو عالمی سیاست ومعیشت میں اس کی واپسی کے حوالے سے کوششیں کامیاب ہوں گی مگرخیر،امریکہ کاکرداریہاں تک محدود نہیں۔ اسے ثابت کرناہے کہ وہ دنیابھرمیں عام آدمی کیلئے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت وسکت کاحامل ہے۔آج بھی کئی بیماریاں ہیں جو عالمی سطح پرخرابیاں پیداکرتی رہتی ہیں۔ہرسال کم وبیش20کروڑافرادملیریاکاشکارہوتے ہیں۔ہلاکتوں کی تعدادبھی بڑھتی جارہی ہے۔کینسرکے مؤثر علاج کے حوالے سے امریکہ کچھ خاص کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکاہے مگرخیر،یہ کوئی شرمندگی کی بات نہیں کیونکہ کینسرکے علاج کیلئے کئی بیماریوں سے نبردآزماہونا پڑتا ہے۔ہاں،افریقامیں ایبولاوباجیسے معاملات سے نمٹنے میں امریکہ کوواضح طورپر قائدانہ کرداراداکرناہے۔اس حوالے سے امریکہ کوجہاں دیگرترقی یافتہ ممالک سے مل کرکام کرنا پڑے گاوہاں اس کواپنے پرانے حلیفوں سے بے وفائی ختم کرکے اخلاص کے ساتھ ان کاہاتھ تھامناہوگا۔جنوبی ایشیامیں مسئلہ کشمیرکو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنا کردار ادا کرکے امریکہ کے سرپردنیاکی قیادت کاتاج سجاناہوگاوگرنہ بڑے پیمانے پرمسائل پیدا کرنے والی بیماریوں پرقابو پانے کے معاملے میں وقتی طورپرسہاراتومل سکتاہے لیکن کھویاہوا وقارنہیں۔
Comments are closed.