ایک عظیم سانحہ

ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی
امیر شریعت مدھیہ پردیش حضرت مولانا مفتی عبدالرزاق خان صاحب کی پوری زندگی ملت کی فلاح وبہبود کے ارد ہی گرد گھومتی نظر آتی ہے ۔ ملت کی فلاح و بہبود ہی آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ آپ کی شخصیت اس اعتبار سے بھی ایک ممتاز شخصیت تھی کہ آپ شیخ الاسلام حضرت حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہ تھےآپ علوم اسلامیہ خصوصا تفسیر، حدیث اور فقہ میں محققانہ نظر رکھتے تھے۔ حضرت سے مجھے در مختار پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ہے، آپ ہمیشہ اپنے شاگردوں کو تعلیم سے زیادہ تربیت کی طرف متوجہ فرماتے تھے۔ اللہ کے اوامر اور سنت نبوی کی بجا آوری آپ کی طبیعت ثانیہ تھی۔ عمر کے اس مقام تک پہونچنے کے بعد بھی قرآن مجید کی تلاوت اور تہجد کی نماز کبھی ناغہ نہ ہوتی تھی، سنت نبوی کی پیروی کا عالم یہ تھا کہ اگر آپ کو کسی دینی مجلس میں شرکت کی وجہ سے کبھی کبھار رات کے دو تین بج جاتے تھے تو اس وقت بھی آپ سنت نبوی کے اتباع میں تھوڑی دیر سو کر اٹھنے کے بعد ہی تہجد کی نماز ادا کرتے پھر تہجد پڑھ کر آرام فرماتے اس کے بعد فجر کی نماز ادا فرماتے۔
حضرت مفتی صاحب کی عملی زندگی کو ملت اسلامیہ ہند کی ضرورت کے مختلف تقاضوں کو مدد دینے اور تقویت پہونچانے میں نمایاں دیکھا جا سکتا ہے ہندوستانی مسلمان کے ہر ایک طبقے میں حضرت مفتی صاحب نے اپنی گونا گوں صفات، جامع کمالات، قومی، ملی، سیاسی اور سماجی خدمات کے سلسلے میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے تھے۔ حضرت مفتی صاحب کے وطن وقوم کی خدمات کے سلسلے میں فداکاری جانثاری وجاں سپاری اور شعلہ بیانی کا یہ حال تھا کا آپ بڑے بڑے جبابرے وقت کے سورما اور ظالم حکومت کے سامنے بھی بلا خوف و خطر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شیر کی طرح حق وصداقت کا اظہار فرماتے تھے۔ آزادی کے بعد اس ملک میں جہاں بھی اور جب بھی مسلمانان ہند کو اکثریت فرقہ کے ہاتھوں سنایا گیا وہاں مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ پہونچ کر اپنی پرجوش اور حوصلہ آور تقریروں سے مسلمانوں کے دلوں سے خوف و ہراس اور اور یأس و قنوطیت کو دور فرمایا ساتھ ان کا بے مثال تعاون و خدمت بھی فرماتے تھے۔
لیکن اس حقیر کی نظر میں حضرت مفتی صاحب رحمتہ اللہ علیہ میں دو ایسے خصوصی اوصاف تھے جن میں ان کی شخصیت کو اپنے معاصرین میں امتیاز اور تفوق حاصل تھا۔
ایک: دینی غیرت و حمیت دوسرے سخاوت و مہمان نوازی جہاں مسئلہ دین و شریعت کا آتا وہاں کوئی مصلحت ان کو حق کہنے اور اس کے مطابق عمل کرنے سے روک نہیں سکتی تھی اس میں نہ وہ اپنوں کی پرواہ کرتے اور نہ بیگانوں کی نہ حاکموں کی نہ محکوموں کی. ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تو طلاق واقع نہ ہو اس کے لیے اس نے کسی ڈاکٹر سے اپنے دماغ کےخرابی کا سرٹیفیکٹ بنوا کر لے آیا جب وہ ترجمہ والی مسجد فتویٰ لینے کے لیے آیا اور کسی ذریعے سے حضرت مفتی صاحب کو معلوم ہوگیا کہ یہ جھوٹا میڈیکل سرٹیفکیٹ بنواکر لے آیا ہے تو آپ نے اس کو ڈنڈے مار کر جامعہ سے یہ کہتے ہوئے بھگایا کہ شریعت ہمارے مزاج کے موافق ہو جائے اس کے لیے لوگ پاگل بننے تک تیار ہیں، میں اپنے جیتے جی ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ اسی طرح اللہ نے سخاوت و مہمان نوازی میں اپنے استاد محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا پرتو بنایا تھا آپ اس معاملے میں ان کے نقش قدم پر ہی چلتے تھے اور اسی کی تعلیم اپنے بچوں کو بھی دی تھی آپ کے دسترخوان کی وسعت بہت مشہور ہے خصوصاً رمضان المبارک میں اس کا دائرہ مزید وسیع ہو جاتا ہے۔ حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کام کی قبولیت اور آپ کے سعی مسلسل کا اندازہ جامعہ اسلامیہ عربیہ کو دیکھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح آپ نے ایک چھوٹی سی مسجد جو ترجمہ والی سے موسوم تھی تھی اس کو مدھیہ پردیش کا سب سے بڑا ادارہ بنا دیا یا فی الوقت مدھیہ پردیش کے اس سب سے بڑی دینی درسگاہ میں 600طلبہ زیر تعلیم ہیں اسی طرح شہر کے مختلف حلقوں اور اطراف و جوانب میں ڈیڑھ سو سے زائد جامعہ کی شاخیں ہیں جن میں تقریبا دس ہزار طلبہ حفظ و ناظرہ کی تعلیم پاتے ہیں اور ان شاخوں میں درس دینے والے اساتذہ کو بھی جامعہ سے ہی تنخواہ دیا جاتا ہے اسی طرح شہر کے پراگندہ ماحول سے 28 کلو میٹر دور پھندہ میں ایک وسیع و عریض مدرسہ کی بنیاد ڈالی ہے جس میں ڈھائی سو طلبہ مع قیام طعام علم کے حصول میں مصروف ہیں۔
اس معنی کر بھی حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی قابل رشک رہی کہ آپ کو کو اپنے لگائے ہوئے درختوں کا پھل اپنی زندگی میں ہی کھانا نصیب ہوا ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ جو کنواں کھودتا ہے اس کا پانی پینا بھی نصیب ہوتا ہے حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس معاملے میں خوش نصیب رہے کہ آپ نے تن تنہا کنواں کھوداپانی بھی پیا اور علمی دنیا کو سیراب بھی کیا آج حالیہ ہے کہ جامعہ سے فارغ ہوکر ہزاروں طلباء ملک و بیرون ملک میں علوم اسلامی کی بقاء اور قرآن و حدیث کی تبلیغ و اشاعت قوم و ملت کی فلاح اور انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔
یہ دنیا فانی ہے اور یقینا انسان کی زندگی مستعارہے۔ اور اس کی دائمی اور ابدی زندگی آخرت ہے اور لوگ اپنی متعینہ زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور پیش ہو رہے ہیں لیکن اس وبائ ماہ اور سال میں علمائے دیوبند کی زنبیلیں اکابرین کی زنجیریں اور صالحین کی کڑیاں جس طرح یکے بعد دیگرے ٹوٹ رہی ہیں انسانی دنیا پہ یہ غم کی قیامت صغری سے کم نہیں ہے خصوصا اس فانی دنیا سے رخصت ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد ایسے عظیم و باکمال افراد کی ہے جن کی زندگی کا شب و روز عوامی خدمت اور انسانیت کی سربلندی کے لئے صرف ہوتا تھا جن کے ہونے سے چمن میں رونق تھی مگر اب ایک ویرانی سی طاری ہے ۔ بقیۃ السلف حجۃ الخلف حضرت مولانا مفتی عبدالرزاق صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی ہم سب کو داغ مفارقت دے گئے آپ کے چلے جانے سے پورا مدھیہ پردیش یتیم ہوگیا حضرت مفتی
صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ١٦ اولاد ہیں جن میں میں ٨ لڑکے اور٨ لڑکیاں ہیں جن میں محترمہ سیدالنساء کے علاوہ ساری اولاد باحیات ہے اسی طرح ان کی اولادیں اور ان کی اولادوں کی اولادیں ایک بھرا پورا خاندان ہے ان سب سے ہم تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہوں کہ اللہ حضرت مفتی صاحب کے درجات بلند فرمائے اعلی علیین میں جگہ نصیب فرمائے اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
آمین یارب العالمین
Comments are closed.