حضرت مفتی عبدالرزاق خانصاحب،بھوپال: وہ پیر ناتواں جس سے نوجوان حوصلہ پاتے تھے

✍?بقلم: مفتی محمداشرف قاسمی، مہدپور،اُجین،ایم پی

کلیوں کو میں خون جگردے کے چلاہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضایادکرے گی

کوڈ19وباکے دور میں بے شمارافراداس دنیائےدنی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگئے،جس پرفطری تقاضوں کے تحت ایک طرف ان کے متعلقین نے اظہاررنج وافسوس کیا تودوسری جانب کچھ لوگوں نے کلماتِ صبر لکھ وبول کران کے پسماندگان کی اشک سوئی کی کوشش کی۔
لیکن ان مرحومین میں ایک تعدادایسی بھی ہے،جن کی وفات پرصرف ان کے اہل خانہ ہی حزن و ملال کا شکارنہیں ہوئے، بلکہ بڑی تعدادمیں عام افرادِملت کو کوبھی ان کے انتقال پرکافی صدمہ پہونچاہے۔ ع
یہاں آندھیوں نے گرائے زمیں پر،سروں پہ کھڑے سائباں کیسے کیسے
خزاں چھا گئی اس طرح اب چمن میں، اُجڑتے گئے گُلستاں کیسے کیسے

ذاتی طورپر میرے ذہن میں یہ بات راسخ ہے کہ ملت اسلامیہ کو بروقت جن حالات کا سامنا ہے وہ اس میدانِ کارزار سے کم نہیں ہے جہاں دماغ کو صحیح وغلط استعمال کرکے فتح وشکست کی تاریخ بنائی جاتی ہے۔ جس طرح مسلح جنگ میں مرحومین ومقتولین اورشہداءکے انتقال پرنوحہ خوانی کے بجائے اعداء کے تیروں کو روکنے اوراپنے ترکش سے دشمن کو نشانہ بنانے کی سعی میں ادنی توقف وتساہل سے بھی احترازکیاجاتا ہے، اسی طرح دماغی معرکہ میں بھی ہمیں کسی کے انتقال پراپنا دماغی کام( اکیڈمک ورکس) چھوڑ کرنمائشی تعزیت وغیرہ میں نہیں مصروف ہوناچاہیے۔ چوں کہ اعداء اسلام پوری قوت کے ساتھ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف اپنے دماغ کواستعمال کررہے ہیں، اس لیے اسلام کے دفاع اوراشاعت کے لیے ہمیں بھی اپنے دماغ کو مسلسل استعمال کرتے رہناچاہئے۔
اسی فکروخیال کے پیش نظرراقم الحروف نے لاک ڈاون کے موقع پرہزار سے بھی زائد صفحات سیاہ کیے، لیکن دنیا سے رخصت ہونے والے بے شمار لوگوں میں چند افرادکے علاوہ کسی پر کوئی مضمون نہیں لکھا۔ان چندمیں مزید کچھ نام شامل ہو سکتے ہیں،جن میں میرے اساتذۂ حدیث حضرت مولاناحبیب الرحمن صاحب اعظمی علیہ الرحمہ،حضرت مولانا مولاناقاری سیدمحمد عثمان صاحب منصورپوری علیہ الرحمہ (اساتذۂ حدیث دارالعلوم دیوبند)پروفیسر انیس چشتی،حضرت مولانا سیدمحمدولی رحمانی (نوراللہ مرقدہم)ایسے جلی و نمایاں اسماء ہیں جن کی وفات پربطور نذرانۂ عقیدت کچھ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔کثرتِ مشاغل کے باوجود ان شخصیات کے بارے میں لکھنے کے لیے فرصت کی تلاش ہی میں تھا کہ آج(شب26و27مئی2021ء)
معلوم ہوا کہ مجاہد جنگ آزادی صوبہ مدھیہ پردیش کے رجل نبیل بطل جلیل نمونۂ اسلاف ریحانۃ العصر عالمِ بے بدل فاضلِ اجل حضرت مولانا مفتی عبدالرزاق خان صاحب قاسمی بھی اس دارفانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ فرماگئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون

ویراں ہے میکدہ، خُم وساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہارکے

وفیات پرہماری تحریروں میں آج حضرت والا کے نام نامی کااضافہ ہورہا ہے۔
چوں کہ حضرت والاسے راقم الحروف کوگہری عقیدت تھی اوروہ ایک مثالی شخصیت کے مالک تھے، اس لیے ان کے انتقال پُرملال پر بندہ کوقلبی رنج ہے، ساتھ ہی ان کی دینی وملی خدمات موجودہ اورآئندہ فکرمند افرادکے لیے مشعل راہ ونمونۂ عمل ہیں، اس لیے ان کی رحلت کے بعد بطورعقیدت ومحبت چند حروف وسطور سے صفحات قرطاس کو منقش کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ع

کیالوگ تھے جوراہ وفا سے گذرگئے
جی چاہتاہے نقش قدم چومتے چلیں

*دینی وعلمی مقام ومرتبہ*

آپ کے دینی وعلمی مقام ومرتبہ کو سمجھنے کے لیے صرف اتنی سی بات کافی ہے کہ موصوف حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی علیہ الرحمہ کے شاگردِرشید اور خلیفہ ہیں۔یہ اتنی بڑی نسبت ہے کہ ہزاروں تعلیمی اسنادودستاویزات کی کوئی خاص اہمیت نہیں باقی رہتی ہے۔ نیزدارالعلوم دیوبند کے سابق شیخ الحدیث استاذی حضرت مولانا شیخ نصیراحمدخان صاحب علیہ الرحمہ آپ کے استاذ ہیں، لیکن شیخ صاحب نے آپ سے یعنی اپنے شاگرد سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور پھرشاگرد یعنی آپ نے حضرت شیخ صاحب کو اجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا۔
معاملہ یہیں نہیں رُکتا ہے، بلکہ آپ نے بھوپال میں جامعہ اسلامیہ ترجمہ والی مسجد میں مسند درس کو کئی دہائیوں تک رونق بخشنے کے علاوہ اصلاح وتذکیہ کے میدان میں بھی وسیع پیمانے پرطالبین وسالکین کو فیضیاب فرمایا۔ درس وتدریس، اصلاح وتذکیہ کاکام صرف تقریری وزبانی نہیں انجام دیابلکہ تصنیف وتالیف کے ذریعہ بھی آپ نے اپنی دعوت وتبلیغ، ارشادواصلاح کواستمرارودوام عطا کیا،اور آپ کے قلم گہربارسے متعددوقیع وضخیم کتب معرض وجودمیں آئیں۔ع

آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا

*جمعیۃ العلماء مدھیہ پردیش*

آزادی سے قبل وبعد میں جمعیۃ العلماء نے ملک و ملت کی جوخدمات انجام دی ہے، وہ تاریخ کاروشن باب ہے۔ ملک میں بے شمار تنظیمیں ہیں جو اپنے اپنے دائرۂ کار میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اگر تنقیدی نظر سے ملی تنطیموں کاجائزہ لیاجائے تو شاید کوئی تنظیم اورجماعت ایسی ہو جس میں کچھ کمزوریاں اور کوتاہیاں نہ ہوں۔ اوراگر کار کردگی کے لحاظ سے ملی تنظیموں کاجائزہ لیاجائے تو جمعیۃ العلماء کی خدمات ملک کی تمام ملی تنظیموں پرفائق ہوں گی۔
ایک جمعیۃ یا تنظیم کے ہوتے ہوئے دوسری جمعیۃ یا تنظیم قائم کرنا اُس وقت پسندیدہ ہوتا ہے، جب پہلے سے موجود تنطیموں واداروں کی معاونت کے جذبے سے وہ قائم کی جائے۔ مسلم مخالف ادارے جب کوئی تنظیم قائم کرتے ہیں توتنظیم کے برانڈڈ نیم کے ساتھ متعددناموں سے دوسری کئی تنظیمیں بھی کھڑی کرلیتے ہیں۔ دوسری تنظمیں برانڈڈ تنظیموں کی ٹانگ کھچائی کے بجائےپسِ پردہ ہو کر بالواسطہ طور معاونت کے ذریعہ برانڈڈ تنظیم کوتقویت واستحکام فراہم کرتی ہیں۔
افسوس کے ساتھ لکھنا اورکہنا پڑتا ہے کہ اہل اسلام کی طرف سے جب کوئی تنظیم اورجمعیت قائم کی جاتی ہے۔ توبریف کیس میں بند اپنی نئی نویلی
تنظیم کو نمایاں کرنے کے لیے پہلے سے قائم تنظیموں، اداروں اورجمعیتوں سے ٹکراؤ وتصادم اور ٹانگ کھنچائی کواپنی نومولود تنظیموں واداروں کی سنگِ بنیادخیال کیاجاتا ہے۔
مزیدافسوس کے ساتھ اپنے مشاہدے کے مطابق لکھنا پڑرہا ہے کہ صوبہ مدھیہ پردیش میں خاص کر بھوپال میں مسلمانوں میں جس قدرتنظیمی ٹکراؤ ہے، شاید ملک کے کسی دوسرے شہرمیں ہو۔(خدا کرے میرا خیال غلط ہو۔آمین)
تنظیمی ٹکراؤ کے ساتھ ہی علاقائی تعصب اورعلاقہ ونسل کی بنیاد پرتعاون وتناصر کے جذبات کچھ بڑے بڑے اصحابِ جبہ ودستار کے سینوں میں ٹھاٹیں مارتے ہیں۔ بعض مولویوں کے قلب ونظرمیں اتنی تنگی وضیق اور انقباض ہے کہ کسی نہ کسی لحاظ سے وہ منافقینِ مدینہ کی طرح اس بات کی تبلیغ کرتے ہیں:
لَا تُنفِقُواْ عَلَىٰ مَنْ عِندَ رَسُولِ ٱللَّهِ حَتَّىٰ يَنفَضُّواْ ۗ ( آیت 7المنافقون)
لَیُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡہَا الۡاَذَلَّ ؕ (آیت 8المنافقون)
یہ لوگ باہری(علماء) کے استخفاف کے لیے رات دن فکر مند رہتے ہیں۔ خواہی نہ خواہی غریب ریاستوں کے صلاحیت مند مہاجرعلماء بھی منافق صفت مولیوں کو لگام دینے میں اپنی توانائی صرف کرنے پرمجبورہیں۔ع

غبارآلودۂ رنگ ونسب ہیں بال وپرتیرے

صوبہ مدھیہ پردیش میں
آبادعامۃ المسلمین کے دل ودماغ میں علماء کرام بلکہ مشرع افراد کے لیے عظمت ومحبت کے کافی جذبات پائے جاتے ہیں، جس سے فائدہ اٹھا کرملت کی تعمیر اوردین کی تبلیغ واشاعت کے لیےملت اسلامیہ کو صحیح رُخ پرقائم کرکے بہتر ودوررس نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہاں کے عام مسلمانوں کی اس خوبی(اکرامِ علماء) کاغلط فائدہ اٹھا کربعض جاہ پسندافراد،اورعلماءِسوء ملی تنظیموں، افرادواشخاص کے درمیان مخاصمت میں مسلمانوں کو
الجھانے کی شاطرانہ حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔
جب کہ یہاں مجبور ومظلوم مسلمانوں کی صورت حال یہ ہے کہ صوبہ مدھیہ پردیش کے کسی شہر میں کوئی بڑا فساد یاحکام کی جانب سے اہل اسلام کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو مسلمان بالکل یتیم دکھائی پڑتے ہیں۔ کچھ تنظیمیں دلاسہ ودلبستگی کے نام پر جنھجھنا بجاکرصرف خود نمائی وشہرت حاصل کرلیتی ہیں۔
لیکن اکثر ایسا دیکھا گیاہے کہ جہاں جمعیۃ العلماء کھڑی ہوجاتی ہے وہاں مسلمانوں کے زخموں کا کچھ نہ کچھ مرہم ضرور ملتا ہے۔اگرتنطیمی ٹکراؤ ختم ہوجائے تو امید ہے کہ صوبہ مدھیہ پردیش کے مسلمان اس قدریتیم اور بے سہارانہ ہوں گے۔
سیمی کے عنوان سے تعلیم یافتہ اورباکردارمتمومل مسلم نوجوانوں کے پیچھے پولس ڈنڈالیکر پڑی رہتی ہے۔ اس جارحیت ونانصافی کوروکنے یا کم کرنے میں جمعیۃ العلماء کا اہم کردار ہے۔ چارپانج سال قبل متعدد باکردارنوجوانوں کو سیمی کی طرف منسوب کرکے گرفتار کیاگیا اورحکام نے یہ الزام لگایا کہ ان لوگوں کے پاس کثیرمقدار میں دھماکہ خیزاشیاء فراہم ہوئی ہیں، اس سلسلے میں حضرت مفتی عبد الرزاق خانصاحب کو علم ہوا، تو فورا مدھیہ پردیش کے موجودہ وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان کوصورت حال سے واقف کرایا اورانصاف کامطالبہ کیا۔ دو ایک دن کے بعدخفیہ محکمہ کے کارندوں نے برآمدکردہ دھماکہ خیزمادہ کے چُھپائے جانے کی جگہ، زمین اور زمین کھود کروہاں سے ضبطی کے ویڈیوزدیکھائی۔ اور پھر اسی تفصیل کے مطابق اخبارات میں نیوز بھی آئی۔ جوکہ عدالتی شواہد میں ملزمین کے لیے کافی مددگار ثابت ہوئی، کیونکہ اس خبرمیں یہ بتلایا گیا کہ یہ دھماکہ خیز مادہ گیہوں کے کھیت سے کھودکرحاصل کیا گیاہے۔ ضبطی کی تاریخ میں بیان کردہ کھیت میں ایک ایک بالشت اونچے گیہوں کے پودے اُگے ہوئے تھے۔ پانی سے وہ مادے جل کرخراب ہوجاتے ہیں، لیکن آبپاشی کی وجہ سے اسی تاریخ میں اس کھیت میں پانی بھی تھا۔ موقع کا معائنہ کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اس کھیت میں کہیں بھی کھدائی کا کوئی نشان نہیں ہے کہ جہاں کھود کریہ اشیاء ضبط کی گئیں ہوں۔
سال چھ ماہ قبل مندر کے نام سے چندہ یا لوٹ کی ریلیوں کے ذریعہ اندور، اُجین،مندسور،چاندکھیڑی وغیرہ میں جوتانڈو،طوفانِ بدتمیزی اورغنڈہ گردی برپا ہوئی تھی، اس پراگر کسی مسلم تنظیم کی طرف سے کوئی مؤثر کاروائی ہوئی ہے تووہ جمعیۃ العلماء ہے۔اگر مسلمانوں میں تنطیمی ٹکراؤ نہ ہوتا تو امید تھی کہ اس کے خاطرخواہ نتائج حاصل ہوتے۔
اس طرح جمعیۃ العلماء کے پلیٹ فارم سے حضرت والا نے ہراہم موقع پرمسلمانوں کی مددکی ہے۔ میں نے بارباردیکھا اور محسوس کیا ہےکہ بعض افراد اپنی بدمعاملگی یا
جاہ پسندی کی وجہ سے جمعیۃ العلماء کے خلاف اپنی الگ ڈُگڈُگی بجا رہے ہیں، لیکن جب حالات ان کے قابو سے باہرہو جاتے ہیں توآخرمیں وہ جمعیۃ العلماء اورخاص کرحضرت مفتی عبدالرزاق خانصاحب سے رجوع کرتے رہے ہیں۔
اب بھی اگر تنظیمی ٹکراؤ کوترک کرکے باہم معاونت کاسلسلہ نہیں قائم کیا گیا توپھر مخالفت کے باوجود اپنا کام چلانے کے لیے انھیں ایسی شخصیت بمشکل ملے گی۔ع

مِلت کے سفینے کی یوں پتوارسنبھالی
مِلت کے سفینے کو طوفانوں سے بچایا

*مہدپورمیں جمعیۃ العلماءکاقیام*

حضرت والا سے بندہ بہت زیادہ مستفید نہیں ہوسکا، لیکن مختلف مواقع پر آپ کی خدمت میں حاضری اور آپ کی زیارت کاشرف حاصل کرتارہاہے۔ع
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھےاس خاک سے ہے

ایک مرتبہ( دس سال قبل)قصبہ پنواڑی ضلع شاجاپور(ایم پی) میں مدرسہ کے جلسہ میں جہاں بندہ خصوصی مقرر کے طور پرمدعو تھا،منتظمین نے مجھے بتایا تھا کہ آپ تقریبا دوگھنٹہ بیان کریں گے اور پھرحضرت مفتی صاحب کے تبریکی کلمات اوردعا پرجلسے کا اختتام ہوگا۔
اس کے بعد مختلف پروگراموں کے سلسلے میں بھوپال حاضری ہوتی تو حضرت والا کی زیارت و ملاقات سے باریاب ہوتا۔ دو مرتبہ ملاقاتوں پرحضرت والا نے بندہ کو اپنی متعدد تصانیف عنایت فرمائیں۔ بندہ نے بھی اپنی کچھ تالیفات حضرت کی خدمت میں پیش کیں، جس پر حضرت والا نے کافی حوصلہ افزاء کلمات ودعائیہ جملوں سے ہمت افزائی فرمائی۔
2015ء میں مہدپورمیں جمعیۃ العلماء کی یونٹ قائم کرنے کے لیے ایک وفد کے ساتھ عشاء کے بعدجامعہ اسلامیہ ترجمہ والی مسجد میں حضرت والا کی خدمت میں حاضر ہوکر ملاقات کا موقع ملا۔جمعیت کے مختلف عہدوں کے لیے مختلف افرادکے ناموں کی فہرست تیار کرنے کے لیے رفقاء سفر اورحضرت کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد احمدصاحب زید فضلہ نے اصرار کیا،خواہی نہ خواہی میں نےشرکاء سفر سے پوچھ پوچھ کرمختلف عہدوں کے ساتھ کچھ افرادکے اسماء کو لکھا۔ تمام رفقاءکااصرار تھا کہ میں اپنا نام صدرجمعیۃ العلماء کے طورپرلکھوں،لیکن میں نے سختی سے منع کردیا کہ: "ایڈمنسٹریشن اورودیگر اداروں کے افراد سے ملاقات وہمکلامی میرے لیے بہت مشکل ہے۔ میں صدارت یاکسی بھی عہدے کے لائق نہیں ہوں، اس لیے میں کسی بھی حال میں کوئی عہدہ نہیں قبول کرسکتاہوں.”
اورمیں نے اپنانام کسی بھی عہدے کے لیے نہیں لکھا۔
یہ فہرست جب حضرت مفتی عبدالرزاق خانصاحب کی خدمت میں پیش ہوئی تو وہاں پھرحضرت مولانا محمد احمدخان صاحب نے میرا نام بطورنائب صدر پیش کردیا اورحضرت والا نے اپنے دست مبارک سے میرا نام اورنام کے ساتھ نائب صدرلکھ دیا۔ بااصرار انکار کرنے کے باوجودجب حضرت والانے میرا نام جمعیۃ العلماء تحصیل مہدپوریونٹ کے نائب صدر کے طور پر لکھ دیا تو اُسے اپنی سعادت اورنجات کاذریعہ یقین کرکے یہی نہیں کہ قبول کرلیا بلکہ میں نے طے کیا کہ جب تک حضرت والا میرا نام نہیں حذف فرمائیں گےاُس وقت تک میں اپنے کو تحصیل مہدپورجمعیۃ العلماء یونٹ کے نائب صدرکے طور پر لکھتا رہوں گا،پھراپنی تین، چارکتابوں اورکچھ مضامین وتحریروں میں میں نے اپنے نام کےساتھ نائب صدرجمعۃ العلماء مہدپور لکھا اور یہ بھی یقین کرلیا کہ اس عہدہ سے اگر میں قوم کی خدمت نہ بھی کرسکوں گا تو کم از کم گروہ علماء کی اس مقدس جماعت میں میرے نام کی شمولیت میری نجات کاذریعہ ضرور ثابت ہوگا۔ ان شاءاللہ
جمعیۃ العلماء مہدپور کی یونٹ قائم ہونے کے بعد وہی نامسعود سُگبُگاہٹ دیکھنے کوملی کہ کس طرح جمعیۃ کوختم کیاجائے؟جمعیۃ العلماء کوختم کرنے کے لیے مختلف ناموں سے کئی بار تنظیمیں بنائی گئیں۔یاللاسف۔

*حق گوئی وبے باکی*

جمعیۃ العلماء نےکانگریس کودودھ پلاکرجوان کیا،ہمارے اسلاف نے وقتی فیصلے کے تحت کانگریس کو دودھ پلانے کام کام کیا تھا، لیکن بعد میں جس طرح کانگریس کے بندھوابن کرمسلمانوں نے اپنی پولیٹکل پارٹی بنانے سے احتراز کیا وہ صریح تسامح ہے۔ اگر اپنی پارٹی کھڑی کرنے میں دشواری تھی تو ایک داعی قوم ہونے کے ناتے کسی ایک پارٹی کی جھنڈا برداری کے بجائے تمام پارٹیوں میں مسلمانوں کو شامل ہوناچاہئے۔ لیکن مسلمانوں نے یہی نہیں کہ اپنی الگ پارٹی نہیں بنائی بلکہ اسی کے ساتھ خوش فہمی بلکہ خود فریبی میں گرفتار ہوکر مسلمان مسلسل کانگریس کی جھنڈا برداری کرتے رہے۔
اپنے اقتدارکودوام دینے کے لیےمسلمانوں کوخوف میں مبتلاءکرکے کانگریس ہی کے بعض افرادنے سنگھ پارٹی کی بنیاد رکھی،جو بعد میں BJP (بھارتیہ جنتا پارٹی)کے نام سے موسوم ہوئی اور کانگریس کے منصوبے کے مطابق مسلم مخالفت میں پیش پیش رہی، اس کی مسلم مخالفت کی وجہ سے مسلمان خواہی نہ خواہی کانگریس سے جڑے رہنے پر مجبورہوگئے۔
مسلمانوں کو خوف میں مبتلاء کرکے ووٹ بینک کے طورپر استعمال کرنے کے باوجود کانگریس کاسُپڑاصاف ہوگیا۔ اور مسلم مخالفت عنوان کے تحت مدھیہ پردیش میں بلکہ پورے ملک میں BJP کامیاب ہوئی، مسٹرشیوراج سنگھ چوہان مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی بنائے گئے۔ وزارت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعدمسٹرشیوراج سنگھ چوہان حضرت مفتی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے، توطلباء وحاضرین کے سامنے ہی حضرت مفتی صاحب نے شیوراج سنگھ چوہان کو سخت تاکیدی لہجہ میں فرمایا کہ:
"شیوراج تم جیت تو گئے ہو لیکن یادرکھو کہ غیرجانبدارانہ اورمنصفانہ اندازمیں حکومت کی ذمہ داری انجام دینا.”
بھوپال میں کسی سڑک کی توسیع کے لیے ایک مسجد راستے میں آرہی تھی،وہاں کلکٹر بضد تھاکہ یہ مسجد شہیدکی جائے۔ حضرت مفتی صاحب نے اس کلکٹر سے رابطہ کیا تو اس نے مسجد کے انہدام پر اصرار کااظہارکیا، فوراوزیر اعلی مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان کوبتایا کہ:
"تمہارایہ کلکٹر ٹھیک نہیں ہے۔”
بعدمیں روڈ کا ڈیزائن بدلا گیا۔ اورمسجد محفوظ رہی۔
اس قسم کے بےشمار واقعات ہیں جو حضرت والا کی جرأت وبیباکی اورملی خدمات پرگواہ ہیں۔
مسٹرشیوراج سنگھ چوہان سے قبل مدھیہ پردیش کے مختلف وزراء اعلی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے، اوران وزراء کو آپ برابر نصیحتیں فرماتے، سونیا گاندھی اور ملائم سنگھ یادوبھی آپ کے دربار میں حاضرہوچکے ہیں۔آپ نے اندراگاندھی اورملکی سطح کے دوسرے ذمہ داروں کی بھی میزبانی فرمائی۔

یہ گُلستانِ دین جو تھا اُجڑا ہوا
اسکو اپنا وہ خونِ جگر دے گئے
ظلم اورجبر میں,خوف اور خطر میں
جُرأتوں کا سبق وہ نڈر دے گئے
دل شکستہ تھی جب قوم مایوس تھی
ولولوں کا اُسے وہ اثر دے گئے
خاک سے وہ تھے چمٹے جو شاہین جواں
اُن جوانوں کووہ بال و پَر دے گئے

ان کے تابندہ ودرخشندہ علمی،تربیتی ، ثقافتی، ملی اورسماجی خدمات ہمیشہ یا رکھی جائیں گی۔
اللہ تعالی حضرت والا کے درجات کو بلند فرمائے اور اعلی علیین میں جگہ عنایت فرمائے اور ملت اسلامیہ ہندیہ کو آپ کاخلف صالح عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

آسماں تیری لحَد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نَورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

کتبہ:محمداشرف قاسمی،
خادم الافتاء شہر مہدپور،
ونائب صدرجمعیۃ العلماء، تحصیل مہدپور،ضلع:اجین، ایم پی۔
مورخہ 27مئی 2021ء
[email protected]

Comments are closed.