Baseerat Online News Portal

مودی اور ٹھاکرے ملاقات کے بعد قیاس آرائیوں کا دور شروع

مشرف شمسی

مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم مودی کی ملاقات کے سیاسی معنی نکالے جا رہے ہیں۔حالانکہ وزیر اعظم مودی سے دلّی میں ہوئی ملاقات میں وزیر اعلی الدھو ٹھاکرے تنہا نہیں موجود تھے بلکہ ان کے ساتھ نائب وزیر اعلی اجیت پوار اور کانگریس کے رہنما اور مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلی اشوک چوہان بھی وزیر اعلی کے ساتھ موجود تھے۔لیکِن اصل چہ میگوئیاں اس بات پر ہو رہی ہے کہ وزیر اعلی اور وزیر اعظم الگ سے دس مِنٹ کی ملاقات کی جس میں راشٹروادی کانگریس کے رہنما اجیت پوار اور کانگریس رہنما اشوک چوہان موجود نہیں تھے۔الدھاؤ ٹھاکرے کا وزیر اعظم سے ملاقات کے کچھ دن پہلے ہی راشٹر وادی کانگریس کے سربراہ شرد پوار نے اپنے گھر پر مہاراشٹر اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما اور سابق وزیر اعلی دیویندر فڈنویس سے ملاقات کی تھی۔پوار اور فدنویس کی ملاقات کو بھی سیاسی حلقوں میں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔لیکِن شرد پوار نے اس ملاقات کو یہ کہہ کر ختم کر دیا تھا کہ بی جے پی رہنما اُن سے اُنکی صحت کے بارے میں جانکاری لینے آئے تھے ساتھ ہی مراٹھا ریزرویشن پر بھی اُنکے ساتھ تبادلہ خیال ہوا۔لیکِن ان سب کے باوجود بی جے پی اعلیٰ کمان کسی بھی طرح مہاراشٹر میں اپنی پارٹی کی سرکار بنانا چاہتے ہیں اور ریاست میں چل رہی ملی جلی سرکار کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔جلد ہی موجودہ ٹھاکرے سرکار کے دو سال پورے ہو جائینگے۔سبھی طرح کی دقّتوں کے باوجود مہاراشٹر کی موجودہ سرکار اپنی بہتر کارکردگی دکھا رہی ہے اور بی جے پی کی ساری کوششوں کے باوجود سرکار کے کسی بھی اتحادی کے اسمبلی رکن کو توڑا نہیں جا سکا ہے۔
سابق ممبئی پولس کمشنر پرم ویر سنگھ کی شکایت پر مہاراشٹر کے وزیر داخلہ کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی اور اُنہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔سابق وزیر داخلہ انیل دیشمکھ کے ذریعے سی بی آئی مہاراشٹر کے بزرگ رہنما شرد پوار اور وزیر اعلی اڈھاؤ ٹھاکرے تک پہونچنا چاہتی ہے۔اس معاملے میں آگے کیا پیش رفت ہوئی ہے یہ جانکاری فی الحال نہیں ہے۔لیکِن میں نے انیل دیشمکھ کے خلاف پرم ویر سنگھ کے بیان کے وقت ہی لکھ دیا تھا کہ یہ معاملہ مہاراشٹر کی موجودہ سرکار کے گرنے کا سبب بن سکتا ہے۔لیکِن شرد پوار آسانی سے شکست تسلیم کریں گے یہ ممکن نہیں لگتا ہے۔انیل دیشمکھ معاملے میں جانچ جہاں تک بھی پہنچی ہو لیکِن اس بات کے قیاس پہلے سے لگائے جا رہے تھے کہ مغربی بنگال کے چناؤ کے بعد بی جے پی کی پوری کوشش ہوگی کہ مہاراشٹر کی سرکار کو گرایا جائے۔مراٹھا ریزرویشن کو سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا ہے۔اب مراٹھا ریزرویشن کو لے کر بی جے پی نے ریاست میں سیاست شروع کر دی ہے۔بی جے پی کی سیاست کو کند کرنے کے لئے مہاراشٹر کی سرکار میں موجود تینوں اہم پارٹیوں کے بڑے رہنما وزیر اعظم سے ملنے دلّی گئے اور مہاراشٹر کے لوگوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی اُنکے دل و دماغ میں مراٹھا کو ریزرویشن دینے کے معاملے میں بالکل صاف ہے اگر مرکز کی سرکار جس کے پاس پارلیمنٹ میں پوری اکثریت ہے چاہے تو ایک قانون بنا کر مراٹھا کو آسانی سے ریزرویشن دیا جا سکتا ہے۔الدہاؤ ٹھاکرے نے وزیر اعظم مودی سے ملاقات کر کے اس مراٹھا ریزرویشن کا معاملہ مرکزی سرکار کے پالے میں ڈال دیا ہے۔
لیکِن مودی اور شاہ ہر حال میں مہاراشٹر کی سرکار کو گرانے کوشش میں ہیں۔مودی سرکار جلد ہی کوآپریٹیو قانون لانے جا رہی ہے جس کا سب سے زیادہ اثر مہاراشٹر پر پڑنے والا ہے۔مہاراشٹر کے زیادہ تر کوآپریٹیو بینکوں اور کوآپریٹیو ادارے پر راشٹروادی کانگریس پارٹی کے رہنما کی اجارہ داری ہے۔مرکز کے کوآپریٹیو قانون لانے سے اس اجارہ داری کا خاتمھ ہو جائیگا جو راشٹر وادی کانگریس کے رہنما نہیں چاہتے ہیں۔
مغربی بنگال میں بی جے پی کی شکست کے بعد مودی اور شاہ کا حزب اختلاف میں اپنا خوف بیٹھا نے کے لئے ضروری ہے کہ مہاراشٹر کی موجودہ سرکار کو کسی بھی طرح گرا دیا جائے۔کیونکہ مہاراشٹر ہی حزب اختلاف کی سرکار میں سب سے کمزور کڑی ہے کیونکہ اس سرکار کے تین اتحادی ہے جسے کمزور کر کے گرانا آسان سمجھا جا رہا ہے۔لیکِن بزرگ رہنما شرد پوار کے رہتے ایسا ہوگا ممکن نہیں لگتا ہے۔لیکِن سیاست میں کچھ بھی کہا نہیں جاسکتا ہے۔
بی جے پی کے لئے مہاراشٹر کی سرکار کو گرانا اسلئے بھی ضروری ہے کہ اس ریاست میں اُتر پردیش کے بعد سب سے زیادہ لوک سبھا کی سیٹیں آتی ہیں۔اگر کانگریس،راشٹر وادی کانگریس اور شیوسینا کا اتحاد 2024 تک چلتا رہا تو بی جے پی کے لئے مہاراشٹر کی نصف لوک سبھا سیٹیں جیتنا بھی مشکل ہو جائے گا۔
مہاراشٹر کی ٹھاکرے سرکار کے لئے ضروری ہے کہ وہ مودی اور شاہ کے حملے کا اب تک جس جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے ہیں اسی طرح کرتے رہیں۔کیونکہ ڈکٹیٹر کی ایک عام خصلت ہوتی ہے کہ وہ ڈرپوک ہوتا ہے۔مودی سرکار 2024 میں وداعِ ہو اس کے لیئے ضروری ہے مہاراشٹر کی ٹھاکرے سرکار پوری مضبوطی کے ساتھ مرکز کے سامنے کھڑا رہے ۔چاہے اُنہیں یا اُنکے قریبی کو جیل ہی جانا کیوں نہ پڑے۔خدا نہ خواستہ مہاراشٹر سرکار کا کوئی بھی اتحادی مودی جی کے چنگل میں پھنس کر ریاست کی سرکار کو گرانے کا کام کرتا ہے تو پھر 2024 میں بھی مودی سرکار کا مرکز میں آنا یقینی مانیے۔لیکِن اتنا تو کہا جا سکتا ہے مہاراشٹر کی سرکار اور بی جے پی کے اعلیٰ کمان کے درمیان اندر خانے میں بہت کچھ چل رہا ہے جس کا اندازہ الگ الگ پارٹی کے رہنما کے بیان میں جھلکتا ہے۔لیکِن ٹھاکرے سرکار کے چلنے اور نہ چلنے کا دارو مدار اس بات پر منحصر ہے کہ اتحادیوں میں کون پارٹی بی جے پی کے دباؤ میں جھکتی ہے۔کون وقتی فائدہ دیکھتا ہے اور کون دور کا۔

Comments are closed.