محققین کی دریافت و کھوج میں

محمد تعریف سلیم ندوی
جب بھی دہلی کا سفر مقدور و مقدر ہوتا ہے تو شیخی و مرشدی حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب دامت برکاتہم کے در حاضری کا قصد کر لیتا ہوں، لیکن اکثر خانقاہ کے در و دیوار پر عقیدت و محبت بھرا گلدستہ پیش کر واپسی ہو جاتی ہے،
آج ایک صالح نوجوان شکیل نظام پور (میوات) کے اعلیٰ تعلیمی مرحلے کو جاری رکھنے کے لئے دہلی اوکھلا میں واقع مرکز جماعتِ اسلامی کے شعبہ تعلیمات کے جنرل سیکرٹری انعام الرحمٰن صاحب سے ملاقات طے پائی، ہمارے مخلص رہبر و عزیز ڈاکٹر عارف الیاس صاحب ہمارے منتظر تھے،
ہماری ملاقات شکیل بھائی کے خاطر ان کے انگلستان کی راہ میں معاشی رکاوٹ کو کسی ملی ادارہ کے تعاون سے ہموار و استوار کرنا تھا.
انعام الرحمٰن صاحب نے تمام ملی تنظیمات و تحریکات کی کورونا وبا میں معاشی بحران و خستہ حالی کا ذکر کیا نیز مطلوبہ رقم کی زیادتی کا احساس دلایا، لیکن انہیں کے رفیقِ کار محترم کامران صاحب نے کئی سارے دروازوں کا پتہ دیا، جہاں سے امید و رجاء کی کرنیں نظر آنے لگی، حوصلہ افزا و مثبت گفتگو رہی،کامران صاحب علیگ ہیں سو انہوں نے علیگ انٹرنیشنل برادری میں بھی اس معاملہ کو پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی، وہ درد مند و فکر مند لگے اور جذبہ و شوق کو دیکھ کر خوش بھی.
عصر کی نماز سماجی فاصلے سے مرکز کی شاندار مسجد میں ادا کی ، مسجد کا افتتاح ابھی رمضان سے قبل ہی ہوا ہے، مسجد کی خوبصورتی و دلکشی ، لمبائی و چوڑائی سے مسجد کا نقشہ عرب ملک کا سا لگتا ہے، مسجد میں ہی سوشل میڈیا کے معروف قلم کار، جماعت اسلامی شعبہ تصنیفات اکیڈمی کے ذمہ دار ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی سے لگے ہاتھوں ملے.
ڈاکٹر صاحب نے مجھے پہچان لیا چونکہ ان سے دو بار نیاز پیشتر ہو چکا تھا (2017 مدرسہ میل کھیڑلا کے فقہی سیمینار اور 2018 جامعہ کیمپس میوات کے ایک تعلیمی پروگرام میں) تپاک سے ملے، بے حد سادہ پوشیدہ علمی موتی ہیں، ہمیں اپنے آفس لیکر گئے، جماعتِ اسلامی کے مرکز کی عالیشان عمارت کو مختلف شعبہ جات و محکمات میں منقسم کیا ہوا ہے،ان کے مسؤولین و امراء کا نظم و ضبط متاثر کن ہے.
مولانا رضی الاسلام صاحب سے تحقیقی و تصنیفی گُر و طُرق پر استفسار کیا تو ڈاکٹر صاحب نے مفصل سیر حاصل بحث کی، میوات سے اپنے قلبی رجحان و میلان کا اظہار کیا. آخر میں ہمیں اپنا قرآنی آیات پر اعتراض کا جواب نامی کتابچہ عنایت فرمایا.
ڈاکٹر صاحب لہجہ کے وقار، قلم کے سادہ مخصوص طرزِ تحریر کے امین ہیں ، درجنوں تصنیفات منظرِ عام پر مقبولِ انام ہیں، آپ نے تراجم کا بیڑا بھی اٹھایا ہوا ہے.
اس یادگار ملاقات کے بعد ہم نے برِ صغیر کے مشہور محقق و مصنف، مخطوطات کے محافظ ڈاکٹر مفتی مشتاق تجاروی کی قیام گاہ کا رخ کیا، آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ہیں اور جامعہ کے کیمپس میں ہی مقیم ہیں، ملکر خوش ہوئے، خالص میواتی زبان میں گفتگو کرتے اور لبوں پر تبسم برقرار رکھتے….. لمبی نشست ہوئی، وقت کی خبر بھی نہیں ہوئی، آپ کے تحقیقات، مشغولیات، مرغوبات،ترجیحات، تصنیفات، مشمولات، تفکرات و خیالات کو جاننے کا بھرپور موقع میسر آیا، آپ میوات کے قصبہ تجارہ سے تعلق رکھتے ہیں اسی لئے نام کے ساتھ وطنی نسبت لگاتے ہیں، کمال کا تحقیقی ذوق پایا ہے، غالب کے شیدا ہیں، بڑا کام کیا ہے، غالب اور الور کے نام سے ابھی ایک مُحقَّق کتاب وارفتگانِ غالب کے لئے عمدہ توشہ ہے،
میں نے خانزادہ اصطلاح کی تحقیق کی تو فاضلانہ و محققانہ کلام سے انہیں میؤ ہی بتایا، جو بعد میں مغلیہ سلطنت کی کسی پالیسی کے تحت خانزادہ کہلائے،
اسی طرح انہوں نے سچر کمیٹی کی ظاہری تصویر کا جائزہ پیش کیا اور مسلمانوں کی نمو و ترقی کا ذکر کیا.
جیسے بابری مسجد کی شہادت کے بعد دسیوں ملی اداروں کا وجود میں آنا، انہوں نے مثبت نتائج کا ذکر کیا اور وہ مسلمانوں کے مستقبل کو روایتی مظلومانہ حالت سے جدا دیکھتے ہیں.
ڈاکٹر صاحب نے اپنے صوفیانہ مزاج کے مطابق موضوع کا انتخاب کیا ہے، ایک کتاب سید الطائفہ جنید بغدادیؒ کی سوانح حیات پرمفصل لکھی ہے، مجھے بھینٹ کی،گفتگو کا دور رات آٹھ بجے تک جاری رہا، دیگر احباب بھی پورے طور پر ڈاکٹر صاحب کی باتوں میں منہمک و متوجہ تھے، جس کی بنیادی وجہ آپ کا خالص میواتی لہجہ اور دلچسپ علمی و تاريخی معلومات کے خزینہ سے علمی موتی رولنا تھا.
ڈاکٹر صاحب نے انگریزوں کی عیاری و مکاری اور لوٹ پاٹ کا سخت کراہت سے ذکر کیا.
کہا کہ انہوں نے ملک عزیز ہندوستان کو لوٹنے کے سوا کچھ نہیں دیا، ریلوے ٹریک بھی وہیں بچھائی جہاں سے کاروبار کا انسلاک تھا.. وہ لٹیرے تھے بس، سو بات کی ایک بات.
آپ کی درجن بھر سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں، آپ کے علمی ذوق کو سرکاری اردو اداروں نے کافی سراہا ہے اور آپ کی کتابیں چھاپ کر قدر بھی کی ہے. عمدہ ورق نیز بہترین طباعت سے آراستہ و پیراستہ ہو آپ کی کاوشیں مقبولِ عام ہوتی ہیں. آپ نے بتایا کہ مغلیہ دور کے ہزاروں روزنامچے جے پور میں موجود ہیں، جن کا اردو و ہندی میں منتقل ہونا ضروری ہے، لیکن اتنا بڑا کام کرے کون؟؟.
حکومت نے اسے سنجیدگی سے لیا اور پروفیسر و تاریخ دان حبیب کو یہ ذمہ دیا، لیکن درمیان والوں نے روپیہ غبن کیا تو کام ادھورا ہی رہ گیا،اور بھی سی یادیں……. دامن نے سمیٹی.
وداع کے وقت رفیقِ سفر مولانا مبارک آلی میؤ نے میوات سے رشتہ برقرار رکھنے کے لیے اپنی اولاد کا میوات سے رشتہ جوڑنے کی گزارش کی، لیکن حضرت مفتی صاحب نے جہیز کے تلخ تجربہ کا ذکر کر شادی کے معاملہ کو مقدر کے حوالے کر دیا، آپ کی اہلیہ رامپور یوپی سے ہیں، جبکہ بڑی لڑکی جھارکھنڈ کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان سے رشتہء ازدواج میں منسلک ہیں ، باقی آس و اولاد مقدرات پر ہیں،آپ کے ایک صاحب زادہ بھی ہیں وہ بھی عصری تعلیم پا رہے ہیں، اب تو شاید ہمارے پاس حضرت مفتی صاحب ہی ایک یادگار باقی رہیں گے.
عشاء و عشائیہ کا وقت ہو گیا تھا، ہمارے مشفق میزبان ڈاکٹر عارف الیاس صاحب نے زہرہ کینٹین سے بے سواد بریانی اور لاجواب ٹنگڑی کواب کا اعلٰی انتظام کیا، کرم فرماؤں اور سناشاؤں میں ان کی نظیر قلیل ہے. وداع لی….
اب صرف گھر تھا، یادیں تھیں، باتیں تھیں، تذکرے تھے،تاثرات کا اظہار تھا.
امید و رجا اور یاس و ڈبکا تھا.
میوات کی جانب دوڑ رہے تھے اور گھر سے قریب ہوتے جا رہے تھے۔
Comments are closed.