زندگی میں اولادکے درمیان جائیدادکی تقسیم

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی 

مہدپور، اجین، ایم پی۔

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں؟مسئلہ ملاحظہ فرمائیں کہ :
زید کی چاراولاد دو لڑکے دو لڑکیاں ہیں، اورزید کے پانچ بیگھا زمین ہے۔ اب یہ زمین برابر تقسیم ہوگی یا لڑکی کو کم ملے گا؟ وضاحت فرمائیں قرآن وحدیث کے روشنی میں جواب عنایت فرمائیں. عین نوازش ہوگی۔

احقرمحمدسلیم القاسمی، صوبہ:جھارکھنڈ۔

الجواب حامدا ومصلیا ومسلماامابعد
زیداپنی جائیداد کواپنی زندگی میں ہی اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تو یہ تقسیم قانونِ وراثت یعنی للذکرمثل حظ الانثیین کے مطابق ہوگی۔ یعنی لڑکیوں کولڑکوں کے مقابل ایک تہائی ملے گا۔اور لڑکوں کو دوتہائی۔
زندگی میں ہی تقسیمِ جائیداد کے دوطریقے ہیں؛
(1) یہ تقسیم "ہبہ” (Gift) کے اصول سے کی جائے ۔
(2) اوردوسرا یہ کہ یہ تقسیم وراثت کے قانون کے اعتبار سے ہو۔ کچھ بڑے علماء کا کہنا ہے کہ زندگی میں جائیدادتقسیم ہو یا زندگی کے بعد؛ دونوں صورتوں میں قانونِ وراثت کے اعتبار سے ہی تقسیم ہونی چاہیے۔(1)
اگروہ جائیداد(جوعموما زندگی گزارنے کا ذریعہ ہوتے ہیں ان)کے علاوہ روزمرہ کی وقتی ضروریات کی اشیاء کی تقسیم کرنی ہو، تو اس میں ہبہ کے قانون کے اعتبار سے تقسیم ہوگی۔ اس طور پرکہ لڑکی لڑکے میں کمی بیشی اور تفریق کے بغیر برابری ضروری ہوگی، یعنی لڑکاولڑکی ہرایک کو برابر برابرحصے ملیں گے۔(2)
اورزندگی میں جائیداد (یعنی جواشیاء عموما انتقال کے بعد بطورمیراث تقسیم ہوتی ہیں ان)کی تقسیم وراثت کے قانون کے مطابق ہوگی۔ اس لیے قانونِ وراثت کے مطابق دونوں لڑکیوں اور دونوں لڑکوں کے درمیان للذکر مثل حظ الانثیین کے اصول پر تقسیم کے لیے پانچ بیگھاآراضی کو چھ حصوں میں تقسیم کریں گے، دو دو حصے دونوں لڑکوں کواورایک ایک حصے دونوں لڑکیوں کوملیں گے۔ (3)
تقسیم کے بعد زمین پر لڑکوں ولڑکیوں کو قبضہ بھی دلادیا جائے۔ ورنہ زید کے انتقال کے بعد زید کی جملہ متروکہ جائیداد کے ساتھ یہ پانچ بیگھا آراضی بھی نئے سرے سے ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگی۔ (4)

(1)قال العبد الضعیف عفا اللہ عنہ: قد ثبت بماذکرنا ان مذھب الجمھورفی التسویۃ بین الذکر والانثی فی حالۃ الحیاۃ اقوی وارجح من حیث الدلیل ولکن ربما یخطر بالبال ان ھذا فیما قصد فیہ الاب العطیۃ والصلۃ، والا اذا ارادا الرجل ان یقسم املاکہ فیما بین اولادہ فی حیاتہ، لئلا یقع بینھم نزاع بعد موتہ، فانہ وان کان ھبۃ، لکنہ فی الحقیقۃ والمقصود استعجال بما یکون بعد الموت، وحینئذ ینبغی ان یکون سبیلہ سبیل المیراث، (تکملۃ فتح الملھم: ج2/ ص75، المفتی محمد تقی العثمانی)۔
(2) وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية …… قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»”.  (مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)
قال (النبی ﷺ) الک بنون سواہ؟ قال نعم، قال: فکلھم اعطیت مثل ھذا، قال:لا، قال: فلا اشھد علی جور. (صحیح مسلم: ج2؍ ص37، رقم الحدیث: 623)
قال فی الہندیة: لو وھب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ،سوی بینہم وھو المختار۔۔۔ ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، لفلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ۔ (الفتاوی الہندیة: 4/ 391، کتاب الہبة، الباب السادس)
(3)للذكر مثل حظ الأنثيين. (الآية 11سورة النساء)
(4) عن الثوری عن منصور عن ابراھیم قال:الھبۃ لاتجوز حتی تقبض.(مصنف عبدالرزاق: ج9 ص107)۔
وحجتنا فی ذالک ماروی عن النبی ﷺ:لاتجوز الھبۃ، معناہ لایثبت الحکم وھوالملک. (المبسوط لسرخسی: ج 12ص57)
اقول الاثار المذکورۃ تدل علی ان الھبۃ لایصح الا مقبوضۃ، والدلالۃ ظاھرۃ لاتحتاج الی التقریر،(اعلاء السنن: ج16، ص71)
فی الدر المختار: وشرائط صحتھا فی الموھوب:ان یکون مقبوضا غیرمشاع.
وفی الردالمحتار: قولہ مشاع؛ ای فیمایقسم.(الردالمحتار: ج4/ص567)
ومن وھب شقصا مشاعا فالھبۃ فاسدۃ، لما ذکرنا، فان قسمہ وسلمہ جاز، لان تمامہ بالقبض وعندہ لاشیوع۔(ھدایۃ آخرین:ص288)
فقط واللہ اعلم بالصواب

کتبہ:
(مفتی) محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء:شہرمہدپور ضلع:اُجین (ایم۔پی)

یکم ذی القعدہ 1442ء
مطابق 12جون2021ء
[email protected]

تصدیق: مفتی محمد سلمان ناگوری

ناقل: محمد فیضان خان، مہدپور،اُجین۔

Comments are closed.