صحافت:گھری ہوئی ہے طوائف تماشہ بینوں میں

 

شمیم اکرم رحمانی

معاون قاضی شریعت مرکزی دارالقضاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

 

صحافت عربی زبان کا لفظ ہے، جو مادہ ”ص، ح، ف” سے ماخوذ ہے۔ اسی مادہ سے ”صُحُف”، ”صحیفہ” اور ”صحافت” جیسے الفاظ بھی وجود میں آئے ہیں، جن کے مفہوم میں کتاب، رسالہ اور تحریری صفحہ جیسے معانی شامل ہیں۔انگریزی زبان میں ”جرنلزم” (Journalism) کو ”صحافت” کا مترادف سمجھاجاتا ہے – اگر اصطلاحی تعریف کی بات کی جائے تو صحافت یا جرنلزم دراصل ایسے عمل کا نام ہے جس کے ذریعے قارئین، سامعین یا ناظرین تک خبریں، تجزیے، خیالات اور جذبات پہنچائے جاتے ہیں۔ اسی لیے وہ تمام سرگرمیاں، جو خبر رسانی، تجزیہ نگاری یا نظریات و جذبات کے اظہار میں معاون ہوں، صحافت کے دائرے میں شامل سمجھی جاتی ہیں۔اور جو افراد ان ذمہ داریوں کو طے شدہ اصولوں، پیشہ ورانہ تقاضوں اور اخلاقی حدود کے اندر رہ کر انجام دیتے ہیں، وہ بجا طور پر ”صحافی” کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں۔

صحافت، میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی اصطلاح گرچہ بہت زیادہ قدیم نہیں ہے، لیکن صحافت، میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا تصور بہت قدیم ہے۔ اگر کوئی مؤرخ صحافت کی ابتدائی تاریخ کی تحقیق کرے گا تو اس کی تحقیق اسے انسان کے ابتدائی عہد میں پہنچا دے گی، جہاں حضرت آدم علیہ السلام اللہ کے پیغام سے اپنی قوم کو باخبر کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ در اصل اس سچائی سے انکار ممکن نہیں ہے کہ صحافت کا آغاز الہام سے ہوا ہے۔ وقت کے ساتھ اس نے الہام سے اخبار، اخبار سے ٹیلی ویژن، اور ٹیلی ویژن سے سوشل میڈیا تک کا سفر طے کیاہے، الہام سے سوشل میڈیا تک کے سفر کی روداد بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ تاریخی واقعات شہادت دیتے ہیں کہ اخبارات کے وجود سے قبل لوگ کبھی پرندوں کو استعمال کر کے، کبھی اونچی جگہوں سے آواز لگا کر، کبھی آگ روشن کر کے، کبھی پمفلیٹوں کو دیواروں پر چسپاں کر کے، اور کبھی خطوط بھیج کر پیغام رسانی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ بادشاہوں، نوابوں یا حاکموں کے احکامات اور اعلانات منادی کے ذریعے عام کیے جاتے تھے۔ مصر، یونان، اور چین میں سرکاری فرامین عوام تک پہنچانے کے لیے مخصوص نظام قائم تھے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ چین میں تانگ خاندان کے دور میں (8ویں صدی) Kaiyuan Za Bao نامی سرکاری خبرنامہ جاری ہوتا تھا،اگر سلطنتِ مغلیہ کی بات کی جائے تو عہد مغلیہ میں بھی ”واقعہ نویس” اور ”خبردار” نامی عہدے دار موجود تھے جو روزانہ یا ہفتہ وار بنیاد پر بادشاہوں کو اطلاعات پہنچاتے تھے؛ لیکن سنہ 1450ء کا سال ایجادات کی دنیا میں ایک انقلاب لے کر آیا، اور پرنٹنگ پریس (چھاپہ خانہ) کا وجود ہوا۔ مشہور جرمن موجد یوہانس گوٹن برگ کی اس ایجاد کے نتیجے میں کتابیں عام آدمی کی رسائی میں آنے لگیں۔ اور پھر دنیا نے وہ وقت بھی دیکھا جب 1605ء میں جرمنی کے شہر اسٹریسبرگ سے دنیا کا پہلا باقاعدہ پرنٹ اخبار Relation شائع ہوا۔ گویا کہ چھاپہ خانے کی ایجاد صحافت کی تاریخ کا سب سے اہم موڑ ہے، جہاں سے صحافت نے کافی تیز رفتار ترقی کی، اور معاملہ یہاں تک پہنچا کہ نہ صرف ریڈیو، ٹیلی ویژن بلکہ دنیا نے سوشل میڈیا تک کا دور دیکھا۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ صحافت سوشل میڈیا سے آگے کہاں تک سفر طے کرے گی، لیکن جہاں تک بھی سفر کرے، صحافت کا مقصد وہی رہے گا جو پہلے تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ صحافت کا کیا مقصد ہے؟ ظاہر ہے، اس سوال کے مختلف جوابات دیے گئے ہیں اور دیے جا سکتے ہیں۔ تاہم مختصر الفاظ میں اگر بات کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ صحافت کا مقصد لوگوں کو سچی خبروں سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے واقعات کا تجزیہ کرنا، اس کے پس منظر کو واضح کرنا، اور انصاف کے ساتھ ایک نتیجہ نکال کر عوام کے سامنے رکھنا بھی ہے، تاکہ رائے عامہ کی تشکیل کا صحیح راستہ صاف ہو۔ اس لیے کہ صحافت محض رائے عامہ کی ترجمان نہیں ہوتی ہے بلکہ رائے عامہ کی رہنمائی کا فریضہ بھی سر انجام دیتی ہے۔ جس کے صاف معنی یہ ہوئے کہ عوامی شعور بیداری کے ساتھ ساتھ انصاف کے تقاضوں کے مطابق سماج کی اور حکومت کی پالیسیوں کی نگرانی صحافتی سرگرمیوں کا لازمہ ہے، جس کے بغیر صحافت سانس بھی نہیں لے سکتی ہے۔اسی لیے ایک صحافی کے لیے جہاں ایماندار ہونا، تعلیم یافتہ ہونا، تحقیقی مزاج کا حامل ہونا اور غیرجانبدار ہونا ضروری ہے، وہیں اس کا بے انتہا جرات مند اور باحوصلہ ہونا بھی ضروری ہے۔

اگر صحافت کے اس پورے فلسفے کو ذہن میں رکھا جائے تو اس سوال کا جواب بڑی آسانی سے مل جاتا ہے کہ ایک صحافی معاشرے کی تعمیر اور تخریب میں کتنا بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسی لیے صحافت کی اہمیت پر پوری دنیا کا اتفاق ہے۔ اور نہ صرف اس دنیا کے جمہوری نظام نے اسے چوتھا ستون قرار دیا ہے بلکہ مذہب اسلام نے بھی اسے مختلف انداز سے مرکزِ توجہ بنایا ہے، اور اس کے کئی اہم اور ضروری اصولوں کی نشاندہی کی ہے، جن میں سچ کی تبلیغ، جھوٹ کی حوصلہ شکنی، اخلاقی اقدار کا فروغ، خبروں کی تحقیق، حکومتوں اور امراء کا محاسبہ اسلامی صحافت کے اہم عناصر ہیں۔ جن کے بغیر صحافت کا بھی وجود نہیں ہو سکتا، چہ جائیکہ کہ اسلامی صحافت کا وجود ہو۔یہی وجہ ہے کہ صحافتی اداروں کی کمی تو اس دنیا میں نہیں ہے لیکن صحافت ڈھونڈنے سے خال خال ہی نظر آتی ہے.

شرمناک بات ہے کہ زمانے کے نشیب و فراز نے صحافت کو محض ایک پیشہ بنا دیا ہے، لیکن صحافت کے آغاز، ارتقاء اور مقاصد پر غور کرنے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صحافت محض ایک پیشہ نہیں ہے بلکہ ایک مقدس فکری، اخلاقی اور تمدنی مشن ہے، جس کے بہت سے تقاضے ہیں۔ اگر ان تقاضوں کو پورے نہ کیے جائیں تو صحافت، صحافت نہیں کچھ اور بن جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں فطری طور پر ایک ایسا تخریبی سماج تشکیل پاتا ہے جو فکری، عملی، معاشی اور معاشرتی کمزوریوں سے جھوجتا ہے۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی ہے کہ اپنے ملک بھارت میں بھی صحافت گزشتہ کئی سالوں سے اپنے مقاصد سے مکمل منحرف ہے، اور زعفرانی ذہنیت کے ساتھ ”گودی میڈیا” بن کر کام کر رہی ہے۔ ٹی وی چینلز سے لے کر اخبارات تک کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ زیادہ تر صحافتی ادارے غیر جانب دار رپورٹنگ کے بجائے کسی خاص سیاسی جماعت یا بعض سرمایہ دار طبقے کے ایجنڈے کو فروغ دینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اسی لیے صحافتی ادارے ناخواندگی، بھوک مری، بے روزگاری، مہنگائی، عصمت دری، نشہ خوری اور خودکشی جیسے سینکڑوں سنگین عوامی مسائل کو چھوڑ کر ان بحثوں کو مرکزِ توجہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں جن سے اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات بھڑکیں اور مخصوص سیاسی جماعت کے ناجائز ایجنڈے کو تقویت حاصل ہو۔ ساتھ ہی انہیں نہ حکومت کے جبر کا سامنا کرنا پڑے اور نہ اشتہار کی بندش کا خوف ہو۔چنانچہ ”گھر واپسی”، ”لو جہاد”، ”کورونا وائرس”، ”این پی آر”، ”این آر سی” جیسے تمام مدعے پر یہاں کے صحافتی اداروں اور صحافیوں نے اسی مفاد پرستانہ اور بزدلانہ ذہنیت کے ساتھ صحافت کی ہے، جو صحافت کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ آخر اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ آئینی طور پر تو یہاں صحافت کی آزادی محفوظ ہے؛ لیکن عملی طور پر ہر گزرتے دن کے ساتھ یہاں کی صحافت کا معیار گرتا جا رہا ہے،ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2024 کے سروے کے مطابق ”بھارت صحافت کی آزادی کے لحاظ سے 180 ممالک کی فہرست میں 159ویں نمبر پر ہے”۔ اس دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں صحافت کا گرتا ہوا یہ معیار جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کے لیے بہت پریشان کن ہے۔ مزید پریشان کن بات یہ ہے کہ عوام تماشہ بینوں کی حیثیت سے اس المناک صورتحال کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ اگر شعر میں تحریف کی گنجائش ہوتی تو سیاست کی جگہ صحافت کا لفظ لا کر یہاں کی صحافت پر تبصرہ کرتے ہوئے میں شاد عارفی کا شعر اس طرح کہتا:

ہمارے ہاں کی صحافت کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماشہ بینوں می

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ صحافت کے زوال اور بحران کے اس تشویشناک دور میں بھی کچھ مردانِ حُر نے سوشل میڈیا کے واسطے سے ہی سہی، لیکن صحافت کو زندہ کرنے اور اس کے معیار کو برقرار رکھنے کی قابلِ قدر کوششیں کی ہیں اور کر رہے ہیں۔ تاہم ان کی تعداد اتنی کم ہے کہ اس سے عمومی صورتحال کی تبدیلی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ لیکن سوال یہ ہے: آخر عمومی صورتحال کی تبدیلی ممکن ہے یا نہیں؟ اگر ممکن ہے تو کیسے؟ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں ہے، اس لیے کہ حالات کی ستم ظریفی نے اس معاملے کو بے انتہا حساس اور مستقل غور و خوض کا موضوع بنا دیا ہے۔ کاش کہ ملک کے بااثر اور جمہوریت پسند اشخاص اس موضوع پر غور و خوض کرتے۔ میرا احساس ہے کہ غور و خوض کے نتیجے میں کئی راہیں نکل سکتی ہیں۔ اگر ملک کے بااثر اور جمہوریت پسند اشخاص چاہ لیں تو ایسے فورم بنائے جا سکتے ہیں، جن کے واسطے سے صحافیوں کو نہ صرف اپنی پیشہ ورانہ دیانت داریاں برقرار رکھنے کی تربیت دی جا سکتی ہے بلکہ اس فورم کے واسطے سے عوام میں میڈیا لٹریسی کو بھی عام کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی حکومت پر دباؤ بنایا جا سکتا ہے کہ وہ میڈیا کی آزادی کی ضمانت دے اور صحافیوں کو تحفظ فراہم کرے۔ اس کے علاوہ صحافتی اداروں پر احتسابی نظام نافذ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ کام بھی ملک سے محبت کرنے والے جمہوریت پسند اشخاص سے جان و مال کی قربانی اور بہتر منصوبہ بندی کا مطالبہ کرتا ہے۔البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اگر اس منصوبے پر ایمانداری کے ساتھ عمل ہو جائے تو جستہ جستہ ملک اور باشندگان ملک کا مزاج مثبت ہو سکتا ہے۔ البتہ چونکہ مسلمان اس ملک میں میڈیائی تعصب کا نشانہ زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے انہیں الگ سے بھی اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت، ایسا نہیں ہے اس موضوع پر غوروخوض نہیں ہوا ہے، ہوا ہے۔ منصوبے بھی بنائے گئے ہیں اور بڑے میڈیا ہاؤس تک قائم کرنے کی باتیں بھی ہوئی ہیں۔ لیکن اب تک کوئی نتیجہ ظاہر نہیں ہوسکا ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک سوشل میڈیا کے لیے ڈھنگ کی کوئی منظم اور مضبوط ٹیم بھی نہیں بنائی جا سکی ہے۔حالانکہ جتنی بڑی بڑی مسلمانوں کی تنظیمیں ہیں، اگر ان کی باڈیز پر غور کیا جائے تو یہ سارے کام بہت چھوٹے نظر آتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بعض مسلم نوجوانوں نے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کے واسطے سے صحافت میں اپنی موجودگی درج کرائی ہے، جس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہاں بھی معاملہ ایک دائرے میں رہ کر عمومی بدلاؤ کی فکر کا ہے، جو اسی وقت زمین پر نظر آ سکتا ہے جب ان نوجوانوں کو تنظیمی اور عوامی تعاون حاصل ہو۔میرا خیال ہے کہ اگر مسلمانوں کی اہم تنظیمیں میڈیائی پروپگنڈے کے خلاف متحدہ لائحہ عمل طے کریں، اور اپنی فضول خرچیوں پر قابو پا کر باضابطہ پیشہ ور صحافیوں سے تعاون لیں، تو نہ صرف اچھی صحافت کے لیے ایک اچھا پلیٹ فارم دستیاب ہو سکتا ہے بلکہ سوشل میڈیا کا بھی بہترین استعمال ہو سکتا ہے، جس کے اثرات سے جستہ جستہ ہی سہی لیکن ملک کی فضا سازگار ہو سکتی ہے

تُو رازِ کن فکاں ہے، اپنی انکھوں پر عیاں ہو جا

خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا

(علامہ اقبال)

Comments are closed.