فسادکے ماحول میں امن کی کاشت

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی
مہدپور،اُجین (ایم پی)
ہیملٹن کاخیال ہے:
” عام طور پرجو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ امن کے ایام میں اخلاقی قدریں پھیلتی ہیں، ایک غلط مفروضہ ہے، میں نے دیکھا ہے کہ ایامِ امن میں برائیاں ہی بڑھتی ہیں، ہم امن اورتعلیم، امن اور افراط اور امن اور تہذیب کا ذکرکیا کرتے ہیں۔ البتہ تاریخ کے حکیم کے لبوں پر یہ الفاظ ہرگز نہیں تھے، اس کے لبوں پر یہ الفاظ تھے۔ امن اور جنسیت کی ترقی، امن اور خودغرضی اورامن اورموت۔ مختصراً یہ کہنا درست ہوگا کہ میں نے محسوس کیا ہےکہ تمام بڑی قوتوں نے الفاظ کی صداقت اورخیال کی عظمت کوجنگ میں حاصل کیا ہے، وہ جنگ میں مضبوط ہوگئے، اور امن کے ایام میں ضائع ہوگئے۔ انھیں جنگ نے کچھ سکھایا، اورامن نے انھیں دھوکا دیا، جنگ نے انھیں تربیت دی اور امن نے ان سے غداری کی۔ یوں کہئے کہ جنگ میں وہ وجود میں آئے اور امن میں ان کی موت واقع ہوئی۔”
(غزواتِ رسول ﷺ، بریگیڈیرگلزاراحمد،ص 126،مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دلی، 2002ء بحوالہ ہیملٹن، کپتان،شمال مغربی سرحد پر مہمیں،[انگریزی] ص 362[اقتباس])
ہیملٹن کے اس خیال کی تشریح کرتے ہوئے گلزاراحمد
لکھتے ہیں:
"ملت اسلامیہ کاآغاز بھی جنگ کے سائے میں ہوا، مگر اللہ کے آخری پیغامبرصلی اللہ علیہ وسلم نے ملت کے افراد کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کچھ ایسے خطوط پر کی تھی کہ جنگ سے حاصل شدہ خوبیاں تو وہ قبول کر لیتے تھے، البتہ جنگ کی بربریت اورخونخواری کا جذبہ ان میں سے کسی ایک فردکے قلب و ذہن پرمسلط نہ ہوسکا۔”
(غزوات رسول ﷺ، بریگیڈیئر گلزاراحمد ص 126، مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دلی، 2002ء)
کتاب کے اقتباس کو ابتدا ہی میں پیش کردیا گیا ہے،تاکہ اہل علم پہلی نظر میں ہی کتاب کے مذکورہ اقتباس کی متانت واصابت پرکچھ غور وفکرکرسکیں۔
میں کئی دنوں سے چمڑوں وکھالوں کی افادیت اورانھیں دستی ہنر کے ذریعہ کارآمد ومفید بنانے کی ترغیب پر ایک مضمون لکھنے کے لیے ایک روایت کی تلاش میں تھا، جس میں یہ آتا ہے کہ:
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو ملکِ شام وغیرہ کی طرف بھیجا تھا تاکہ وہ وہاں سے دبابہ( ٹینک) بنانا سیکھ کر آئیں۔ وہاں دبابہ ،اونٹ یا فوجیوں کی حفاظت کے لیے تہہ بہ تہہ کھالوں کی چادریں بنائی جاتی تھیں۔”
یہ روایت کسی کی نظر میں ہوتو بندہ کی ضرورمدد فرمائیں۔
اس روایت کی تلاش میں دیگر کتب سے مراجعت کے علاوہ قومی یکجہتی لائبریری مہدپور سے کل دوکتابیں "غزوات رسول ﷺ”، بریگیڈیئر گلزاراحمد، (مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دلی، 2002ء) اور "غزواتِ اسلام”، محمد شریف گلزار، (انوربکڈپودلی) نکال کر لایا اور آج شب میں ان سے استفادہ کیا۔ اول الذکرکتاب سے محولہ بالا اقتباس نقل کیا گیا ہے۔
ہربات سے تمام لوگوں کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔ لیکن موجودہ حالات ( بظاہر مایوس کن حالات) میں ایسی تحریریں ہمیں مایوسی کے حصار سے نکالنے کا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہیں، اسی لیے یہاں کتاب مذکورسے ہیملٹن کے خیال کونقل کیا گیا ہے۔
ملک میں ایک طبقہ دن کے اجالے میں ہماری عبادت گاہ کو منہدم کرتا ہے، اورثبوت وشواہد کو نظرانداز کرتے ہوئےعدالتیں اسی طبقے کے حق میں فیصلہ صادرکرتی ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں ہمارے خلاف فسادات ہوتے ہیں جن میں ہمارا ہی جانی ومالی نقصان ہوتا ہے اور پھر ہم مظلوموں کے خلاف ہی مقدمات قائم کیے جاتے ہیں۔جگہ جگہ ہماری موب لنچنگ ہورہی ہے، لیکن قاتلوں کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہے۔ یعنی جان، مال،معاش،آبرو اور دین ہمارے سب کچھ ہروقت خطرے رہتے ہیں۔ جب کہ ہماری طرف سے کسی بھی طبقے کے خلاف کسی جارحانہ کارروائی کی ایک بھی سچی مثال نہیں پیش کہ جاسکتی ہے۔
یہ سب اس لیے ہورہاہے کہ ملک کی ایک آبادی نے اپنے اداروں، تنظیموں اور تحریکوں کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں باشندگانِ وطن کا فرضی دشمن بنا کرہماری کی خوب تشہیر کی ہے۔
اس کے بالمقابل اہلِ اسلام مسلسل خطرات، دنگا وفساد، فرضی مقدمات، معاشی مشکلات وغیرہ میں گرفتار ہوکر بھی سب کو اپنا سمجھتے ہیں،اور (حقیقی دشمنوں وخطرات کی موجودگی کے باوجود ) "ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے۔” کاخیال عرصہ سے اپنے دلوں میں پال رکھا ہے۔ جب کوئی دشمن نہیں ہے، تودفاع وحفاظت کی تدبیروں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہی نہیں باقی رہتی ہے۔۔۔۔؟
لیکن نہیں! حالات نے مسلسل اپنے کچوکوں کے ذریعہ ہمیں خوابِ خرگوش سے بیدار ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ اور اب ہمیں سوچنا پڑ رہا ہے کہ جب دوسرے طبقے نے ہمیں اپنا فرضی دشمن بنا کرفتوحات کی منزلیں طے کی ہیں تو حقیقی دشمنوں کے وجود کااحساس کرکے آئندہ کے لیے ہمیں بھی راہ عمل طے کرنا ہوگا۔
ہیملٹن کی تحریر بتاتی ہے کہ ہمیں کسی بھی صورت میں مایوس نہیں ہونا چاہئے، بلکہ فتنہ وفساد کے دور میں تو بہت ہی زیادہ تیقظ، بیدارمغزی اورحوصلہ مندی کے ساتھ منصوبہ بند انداز یں حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔ یاد رکھیں : موجود حالات ہمارے لیے ایسا موڑ ہیں جہاں ایک طرف عروج واقبال اور فتوحات ہمارے استقبال کے لیے کھڑی ہیں تو دوسری طرف زوال وادبار، نکبت وپستی اورغلامی و رسوائی کی ظلمتیں کیل و کانٹوں کے ساتھ ہمارا انتظار کررہی ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موجودہ حالات سے کہیں زیادہ مایوس کن حالات میں جومنصوبہ ، پلان اورحکمت عملی اختیار فرمائی تھی وہی ہماری فتوحات کی کلید ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بنیادی طور چار کام مسلسل کرتے رہے ، ہمیں بھی لازمی طور پر آج ہی سے وہ چاروں کام شروع کردینا چاہئے۔
1. دوسری قوموں کو اسلام کی دعوت۔
2.تعلیم۔تعلیم میں ہندی،مراٹھی اور سنسکرت وغیرہ علاقائی وعلمی زبانوں، آرٹس،طب اور انجینئرنگ کے علاوہ ملک کے سسٹم کے چاروں پلرس(لیجسلیٹیو،جوڈیشری،ایڈمنسٹریشن ،میڈیا) میں داخل ہونے کی ہرممکن کوشش کرنا مسلمانوں پر فرض کفایہ کے درجہ میں ضروری ہے۔ ان اداروں میں اہل ایمان کی نمائندگی کے لیے جن علوم کی ضرورت ہے، ان کی تحصیل ہرہرخطے میں مسلمانوں پرفرض کفایہ ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ عدالتوں میں اہل ایمان وکلاء نظر نہیں آتے ہیں،اورجو ہیں ان میں بہت قلیل تعداد ایسی ہے جو دینی وملی جذبے سے بے قصوروں اور مظلوموں کے مقدمات کی پیروی کرتی ہے۔
میڈیا میں فضلاء مدارس بہت بہترخدمات انجام دے سکتے ہیں، لیکن وہ ہندی، گجراتی، مراٹھی، کنڑ، وغیرہ علاقائی علمی زبانوں پر عبور نہ رکھنے کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ جوکہ افسوسناک بات ہے۔
3.سوشل ورکس، جیسے ہاسپٹلس قائم کرنا، ناگہانی موقعوں پرحاجتمندوں کی کی مددکرنا، ریلوے اسٹیشن،ہاسپٹل، بس اسٹینڈ، لیبرچوراہوں، کورٹ و کچہری،جیل وغیرہ مقامات پرکھانا، پانی اور ادویہ وغیرہ پہونچانا۔ اور ان کاموں کی خوب تشہیر کرنا۔
4.مختلف قوموں سے الگ الگ مرافقت قائم کرکے ظلم وناانصافی کہ روک و تھام،امن وانصاف کے قیام کے ساتھ ہی دعوتی فائدہ حاصل کرنا اور لیجسلیٹیو سسٹم میں داخل ہونے کے لیے راستے کھولنا۔
نقل کردہ تحریر اگر کسی کی سمجھ میں آجائے تو جہاں ہم کھڑے وہیں سے سنت نبوی کے مطابق چاروں کام بیک وقت شروع کردیں ، یہ چاروں کام ہمیں مجدھارسے ساحل تک پہنچادیں گے ۔اور اس طرح موجودہ حالات ہماری اٹھان و رویدگی اور عروج وترقی کے لیے بارش کا پانی ثابت ہوں گے۔ ان شاء اللہ۔
کتبہ:محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء:شہرمہدپور، اُجین (ایم پی)
11ذی قعدہ 1442ھ مطابق 22جون 2021ء
[email protected]
Comments are closed.