کھال ایک مفیدمال ہے

 

بقلم:  مفتی محمداشرف قاسمی

دارالافتاء،مہدپور،اُجین،(ایم پی)

کھال ایسا مال ہےجس کی افادیت کوقرآن میں بیان کیا گیا ہے:
وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡۢ بُیُوۡتِکُمۡ سَکَنًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ جُلُوۡدِ الۡاَنۡعَامِ بُیُوۡتًا تَسۡتَخِفُّوۡنَہَا یَوۡمَ ظَعۡنِکُمۡ وَ یَوۡمَ اِقَامَتِکُمۡ ۙ وَ مِنۡ اَصۡوَافِہَا وَ اَوۡبَارِہَا وَ اَشۡعَارِہَاۤ اَثَاثًا وَّ مَتَاعًا اِلٰی حِیۡنٍ ﴿80﴾
النحل
"اوراس نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو سکون کی جگہ بنایا،اورتمہارے لیے مویشیوں کی کھالوں سے ایسے گھربنائے،جوتمہیں سفرپرروانہ ہوتے وقت اور کسی جگہ ٹھہرتے وقت ہلکے پھلکے محسوس ہوتے ہیں،[³³] اوراُن کے اون، اُن کے رُویں اوراُن کے بالوں سے گھریلو سامان اورایسی چیزیں پیدا کیں جو ایک مدت تک تمہیں فائدہ پہنچاتی ہیں.”(80)نحل۔
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کھال سے بننے والے گھروں کے بارے میں لکھتے ہیں:
"[³³]ان گھروں سے مراد وہ خیمے ہیں جوچمڑے سے بنائے جاتے ہیں، اورعرب کے لوگ اُنہیں سفر میں ساتھ لے کرچلتے تھے، تاکہ جہاں چاہیں، انہیں نصب کرکے پڑاؤ ڈال سکیں۔(توضیح القرآن ج2ص838و839، مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم،آصف بک ڈپودیوبند،)
جانوروں کی کھال کے سلسلے میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئےحضرت مفتی محمد شفیع صاحب تحریر فرماتے ہیں:
"جانوروں کی کھال اوربال اوراُون سب کااستعمال انسان کے لیے حلال ہے، اس میں یہ بھی قید نہیں کہ جانورمذبوح ہویامردار، اور نہ یہ قید ہے کہ اس کا گوشت حلال ہے یاحرام، ان سب قسم کے جانوروں کی کھال دباغت دے کر استعمال کرنا حلال ہے، اوربال اور اُون پرتوجانور کی موت کاکوئی اثرہی نہیں ہوتا، وہ بغیر کسی خاص صنعت کے حلال اورجائز ہے، امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کایہی مذہب ہے، البتہ خنزیر کی کھال اور اس کے تمام اجزاء ہر حال میں نجس اور ناقابل انتفاع ہیں۔ "(معارف القرآن،ج 5ص384)

*کھالوں کے مواقع استعمال*

قرآن وسنت کی روشنی
مین کھالوں کے مواقع استعمال میں کم از کم درج ذیل صورتیں معلوم ہوتی ہیں۔

*کیمپوں وخیموں میں کھالوں کااستعمال*

خاص طورحالت مسافرت میں اٹھانے و رکھنے میں سہولت کی وجہ سے رہائش کے لیے بطورشامیانہ اور پردہ کے کھالوں کا استعمال بہترہے۔ اس سلسلے میں خانہ بدوشوں، دشنگروں، مہاجروں، ناگہانی موقعوں پر اینٹ پتھر وغیرہ سے تعمیرہونے والے گھروں سے محروم ہوجانے والوں کے لیے کھالوں سے آشیانہ بنالینے کا مفہوم ظاہر ہے۔
اسی طرح سلم علاقوں میں جہاں شیڈ میں لوگ رہتے ہیں، اوربارش کے دنوں میں ان کے شیڈ ٹپکتے ہیں، وہ بھی کھالوں کی چادر شیڈ کے اوپر ڈال سکتے ہیں، لوہے کے شیڈ گرمی کے دنوں میں مکان کے اندر کافی زیادہ گرمی کاباعث ہوتے ہیں، اگران مکانات کے شیڈ پر کھالوں کی چادر بچھادی جائے توبارش اورگرمی سے مکینوں کی حفاظت رہے گی.

*لوڈنگ گاڑیوں میں کھالوں کااستعمال*

جولوگ ٹرالے، ٹرک اور دیگر لوڈنگ گاڑیوں پرکام کرتے ہیں وہ اپنی گاڑیوں کی چھت پر،ایسے ہی ان کی زمینوں پرکھالوں کی چادر پھیلاکراوربچاکر فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

*کھلہان وغیرہ میں کھالوں کافرش*
کھلہان،غلہ منڈی، سبزی منڈی، فُٹ پاٹھوں ودیگر منڈیوں میں اشیاء کودھول وبارش وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے زمیں پرلوگ چادریں پھیلاتے ،اوراانھیں چادروں سے ڈھکتے ہیں،ان چادروں کی جگہ پرکھالوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
کسان غلہ نکالنے کے بعد سوکھانے، ڈھیرکرنے، غلہ کے ڈھیروں کو محفوظ رکھنے کے لیے تال پتری وغیرہ کااستعمال کرتے ہیں،
ان تال پتریوں کی جگہ پر کھالوں کااستعمال بہترطور پرہوسکتا ہے ۔

*کھالوں کابطورِلباس استعمال*

مکانات، لوڈنگ گاڑیوں، کھلہان اورمنڈیوں کے فروش وشامیانوں کے لیے کھالوں کواستعمال کرنے کی مثالیں اس لیے پیش کی گئی ہیں تاکہ کھالوں کو زیادہ سے استعمال میں لاکر انھیں ضائع کرنے کاخیال دماغ سے نکالاجاسکے۔
ان بڑے مواقعِ استعمال کے علاوہ چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی بکثرت کھالوں کو استعمال کیاجاسکتا ہے۔
جن علاقوں میں شدید سردی پڑتی ہے وہاں لحاف کی شکل میں موٹی موٹی چادریں ، سیوٹر اور دیگرگرم کپڑے عام لوگ بے تکلف پہنتے،اوڑھتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ چادریں دیکھنے میں اچھی نہیں معلوم ہوتی ہیں، پھر بھی سردی سے حفاظت کے لیے لوگ انھیں اوڑھتے اور پہنتے ہیں۔
ان کی جگہ پرکھالوں کے کپڑے، بنیائین وغیرہ بناکر پہنے جاسکتے ہیں۔ بطور بستر ولحاف کے بھی کھالوں کی چادریں بچھائی اور اوڑھی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح سردی کے دنوں میں بیل بھینس بکری ودیگر جانوروں کو سردی سے بچانے کےلیے ٹاٹ وغیرہ کا اوڑھنا سے ان کے جسموں کو ڈھکا جاتا ہے،وہاں جانوروں کے لیے ٹاٹ کے بجائے کھال کے اوڑھنے بنائے جا سکتے ہیں۔ کھالوں کوبطورِلباس استعمال کیاجاسکتا ہے۔

*مشکیزہ یامشک*

مشکیزہ یامشک تو خاص طورکھالوں سے ہی بنائے جاتے ہیں۔موجودہ دور میں عام گھروں میں ان کا استعمال متروک ہوگیا ہے۔ ایم پی، راجستھان، مہاراشٹرا کے بعض علاقوں، کرناٹک وغیرہ کے دیہی آبادیوں میں جہاں میٹھے پانی کی قلت رہتی ہے وہاں پینے کے لیے لوگ پلاسٹک کی کُپیوں میں پانی بھر کر گھروں میں رکھتے ہیں۔ یہ پلاسٹک کی کُپیاں مکانات میں کافی جگہوں کو گھیرے رہتی ہیں۔ اگر ان کُپیوں کے بجائے مشکیزوں میں پانی جمع کیاجائے، تو مشکیزوں کے خالی ہونے کی صورت میں گھروں میں خلا( اسپیس)ملے گا۔ اورپانی سے بھرا ہونے کی صورت میں بھی دیوار وغیرہ کی کھونٹیوں پرمشکیزوں کو لٹکا کرگھروں میں خلاء( اسپیس) بنایا جاسکتا ہے۔

*دیگرکاموں میں کھالوں کا استعمال*

کھالوں کو مشکیزہ، مشک، مصلی، دسترخوان، بیگ، موزہ، ڈول، جوتا،سپڑی وسوپ یا چھلنی،زین اورسیٹ کورکے طورپر استعمال کرنا سنت سے ثابت ہے۔
مزید کن کن کاموں میں کھالوں کواستعمال کیا جاسکتا ہے؟ کھال صنعت کے ماہراہل ایمان صنعت کاروں کو اس پہلو سے غورکرکے عام لوگوں کوواقف کرانا چاہئے۔
غورکرنے سے موجودہ دورمیں کھالوں کے بہت سے مواقع استعمال معلوم ہوتے ہیں۔جن میں بائک ،کار وغیرہ کو ڈھکنے کے غلاف،مختلف اشیاء کے کور،موبائل کور ، لیب ٹاپ بیگ، کمپوٹرکاکور،اسکولی بیگ، اسکولی بچوں کے ٹفن بیگ،شوزبیگ، کھیل کے ساموں کے بیگ، پلمروں اور الیکٹیشینس ، قصاب اورمیکینک وغیرہ کے بیگ، نائیوں کی کسبت، شیونگ بوکس، مختلف طبی بیلٹ، کمریاپینٹ وغیرہ میں باندھے جانے والے بیلٹ، چھوٹے بڑے پرس بنائے جاسکتے ہیں۔
تین سال قبل ایک پروگرام میں حاضری ہوئی تو وہاں مندوبین کو بطورہدیہ چابی کا ایک ایک چھلہ دیا گیا جس میں پان کی شکل میں چمڑے کا ایک چھوٹا ٹکڑا لگا ہوا تھا، جس پرپروگرام کاعنوان، تاریخ اورمیزبانوں کا ایڈریس لکھا ہوا تھا۔
اس طرح کھالوں سے قابلِ استعمال بے شمار اشیاء بنائی جاسکتی ہیں۔ قربانی کی کھالوں سے بنی کوئی بھی چیز امیر، غریب، مسلم وغیرمسلم کسی کوبھی بطورہدیہ دی جاسکتی ہے۔

کتبہ:
محمد اشرف قاسمی،
خادم الافتاء: شہر مہدپور، اُجین،(ایم پی)
13ذی قعدہ 1442ء
مطابق 24جون2021ء

[email protected]

Comments are closed.