Baseerat Online News Portal

ڈرامہ۴: بے یارومددگار چوتھا ستون 

 

ڈرامہ نویس: محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر

پہلا منظر: (ایک ہوٹل ہے جس میں کچھ نوجوان اور ادھیڑ عمر کے افراد منہ پر ماسک لگائے ہوئے بیٹھے ہیں، اورآپس میں چائے خوری کے ساتھ ساتھ گفتگو جاری ہے)

ایک ادھیڑ عمر فرد: میاں!ہم صحافیوں کوکون پوچھتاہے؟ غریب کا دکھ درد سب کوپتہ ہے، مستحقین کی دہائی بھی جاری ہے اوراس کی مددبھی ہورہی ہے۔ یہاں تک کہ زنخوں کی مجبوری سے بھی معاشرہ واقف ہے اور ان کی مدد کے لئے واویلہ مچایا جارہا ہے، ایک ہم صحافی ہیں جنہیں کوئی نہیں پوچھتا۔

پرجوش نوجوان: مندروں کے پنڈت اورمساجد کے امام ومؤذن جن کاتعلق کہاجاتاہے کہ اوپر والے سے راست ہے۔ ایسے لوگوں کی اس لاک ڈاؤن میں مالی مدد کی جارہی ہے۔ جن کاخدا ہے ان کی انسانی مدد کیلئے چیخ وپکار کی کیا ضرورت ہوگی لیکن واٹس ایپ، فیس بک، اخبارات، چینل جدھر دیکھو ان لوگوں کومجبوربناکر پیش کیاجارہاہے بالکل ایسے جیسا ان کاخدا ہی نہیں ہے۔ یا توحکومت ان کی خدا ہے یاپھر اہل خیراور معاشرہ آج حکومت نے ان کے لیے لاک ڈاؤن رقم جاری کردی ہے۔

دوسرا ادھیڑ عمر فرد: بھائی ہم صحافی ہیں، ہمیں بات سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے۔ خصوصاً مذہبی افراد اور مذہبی معاملات کو نظر انداز کرکے ہم چلتے ر ہیں تو ٹھیک رہے گا۔

پرجوش نوجوان: یہ تو کچھ لوگوں کوخصوصی اہمیت دینے جیسا ہوا۔ جمہوریت میں ایسا کب چلتاہے؟ انصاف کی نظر میں سب برابر ہیں، سب پر تنقید کی جاسکتی ہے۔

ایک بردبار نوجوان: ہر جگہ انصاف کا ترازو درمیان میں نہ لایاکرو۔ جہاں روحانیت کا معاملہ آجائے وہاں کے پیمانے دوسرے ہوتے ہیں، تنقید ہولیکن شمشیر براں لے کر نہیں ۔

کونے سے ایک آواز: یار یہ سب چھوڑو، صحافیوں کی پریشانی پر بات کرو(سب کونے کی جانب دیکھنے لگتے ہیں لیکن وہاں اندھیراہے، وہاں بیٹھے افراد کے چہرے صاف نظر نہیں آتے، اتنے میں ایک صحافی جس کے گلے میں کارڈ ہے وہ کہتاہے)

کارڈوالا صحافی: صحیح بات ہے، ہم موضوع کی طرف آئیں، گفتگو میں وقت زیادہ لیں گے توپولیس کے تشریف لانے کاخدشہ بڑھ جائے گا۔ جو بھی کہناہے To the Point کہو اور جلدی سے نکلو یہاں سے

(سبھی سر جوڑ کر اپنے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے سرگوشیوں میں لگ جاتے ہیں، گاہکوں کا شور بڑھنے لگتاہے۔صحافیوں کی آوازیں مدھم ہوتی جارہی ہیں، یہاں تک کہ سنائی نہیں دیتیں)۔

دوسر امنظر (وزیرخورا ک کا مکان ہے اور کچھ صحافی ان کے انتظارمیں ویٹنگ روم میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اتنے میں وزیر موصوف کے آنے کا شور بلند ہوتاہے۔ تمام صحافی ویٹنگ روم سے نکل کر وزیر تک پہنچتے ہیں)

صحافیوں کاصدر: سر! ہم صحافیوں کی تنظیم کی جانب سے آج حکومت کو میمورنڈم دیاجارہا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ صحافیوں کوکوروناوارئیر قرار دیاجائے۔ دوسری طرف لاک ڈاؤن کے سبب بھک مری کی کیفیت ہے، کئی ایک اخبار و چینل بند ہوچکے ہیں۔ بے روزگارصحافیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں فی کس 10ہزار روپئے معاوضہ دینے کاحکومت اعلان کرے۔

وزیر خوراک: آ پ لوگ تو ”حکومت گر“ ہیں۔ آپ کے سبب حکومتیں بنتی ہیں اور بگڑتی ہیں۔ آپ کاحکومت سے مانگنا تانگنا اچھا نہیں لگتا۔

صحافیوں کی تنظیم کاسکریٹری: وہی تو ہمارا کہنا ہے کہ ہمارامانگنا اچھا نہیں لگتااور آپ کا ہمارے مانگے بغیروباکے دوران حکومتی خزانے کامنہ نہ کھولنااور بھی اچھا نہیں لگ رہاہے۔بلکہ یہ ایک غیراخلاقی اور غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے۔

تنظیم کاخازن: اگر صحافت حکومت کی گاڈ فادر ہے،اورمشکل وقت میں اپنے ہی گاڈ فادر کو حکومت بھول جائے تو دنیا کو حیرت ہوگی،ایسا کیسے ہوسکتاہے؟ اور کیوں ہورہاہے؟آپ کی امداد تو ہمارے مکانوں تک پہنچ جانی چاہیے تھی لیکن گاڈ فادر کو حکومت کے وزیروں اورمشیروں کے دروازوں تک پہنچنا پڑرہاہے۔کیا حال بناکر رکھ دیاگیاہے ہمارا۔

وزیرخوراک: تم صحافی سے اچھے اچھوں کاپتہ پانی ہوجاتاہے۔ پھر تمہارا پانی کیسے نکل گیا؟

ایک پرجوش صحافی: سر! آپ اپنے حدود کو پھلانگ رہے ہیں۔ اگر مدد نہیں کرنی ہے ہماری تو میمورنڈم لے لیں اور اپنی ڈیوٹی کی طرف نکل جائیں۔ سوالات کرنے کاکوئی فائدہ نہیں۔

تنظیم کا صدر(جلدی سے): سر! اس میمورنڈم کے ساتھ ایک تصویر بنانی ہے پلیزہماراساتھ دیں (تصویر لی جاتی ہے، لیکن اس درمیان وزیر پرجوش صحافی کو باربار دیکھنے لگتاہے)

تیسرا منظر (وزیر موصوف کے مکان کے سامنے صحافی دھرنے پر بیٹھے ہیں،ہماری مانگیں پوری کروورنہ کرسی خالی کرو، انقلاب زندہ باد، چور ہے بھئی چور ہے وزیر ہماراچور ہے جیسے نعرے لگائے جارہے ہیں)

آوازلگانے والا : چورہے بھئی چور ہے

ایک ساتھ کئی آوازیں: وزیرہمار اچور ہے (پھر دھرنے پر بیٹھے ہوئے 100سے زائد صحافیوں میں سے کچھ تقریر شروع کردیتے ہیں، اورچند ایک صحافی دھرنے کی تصاویر لینے لگتے ہیں اور ایک آدھ صحافی ویڈیوبنانے لگتاہے)

تقاریر کے نکات : حکومت لاک ڈاؤن میں صحافیوں کی مدد کرنے کے بجائے انھیں ذلیل کررہی ہے۔ ہم نے میمورنڈم پیش کیا لیکن اس پر کسی طرح کاردعمل سامنے نہیں آیا۔ لگتاہے میمورنڈم کوڑادان کی نذر ہوگیا۔ ہم نے کورونا وارئیر قرار دینے اور فی صحافی 10ہزار روپئے مالی مدد کامطالبہ کیاتھا۔ بلدیہ کاایک سویپر یہاں کورونا وارئیر کے مماثل ہے لیکن صحافی حضرات جو رات دن اپنی زندگی داؤ پر لگاکر خبریں فراہم کرتے ہیں وہ حکومت کی نظر میں نہ کورونا وارئیر ہیں اور نہ ہی مالی مدد کے مستحق ہیں۔ حکومت ہماری مالی مد دنہ کرکے ہمیں امبانی، اڈانی اور عظیم پریم جی سمجھنے کی غلطی کررہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ کبھی صحافی کے گھر بھی جھانک لیاکرے۔ آج ہر صحافی کھانے پینے کی مشکلات سے دوچار ہے اور حکومت شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن ڈالی ہوئی ہے۔ ہم اس عمل کی مذمت کرتے ہیں۔ آج جمہوریت کاچوتھا ستون صحافت بے یارومددگار ہے، فاقوں کی زد میں ہے۔کوئی اس کا فریاد رس نہیں ہے

(اتنے میں پولیس کے وائر لیس پر کوئی حکم آتاہے، اور وہاں متعین پولیس افسران اور کانسٹیبل فوری حرکت میں آتے ہیں۔ دھرنے پربیٹھے صحافیوں کو پولیس دھردبوچ کر اپنی وہان میں بٹھانے لگتی ہے)

پولیس کی گرفت میں آئے صحافی: انقلاب زندہ باد، ہم اپناحق لے کر رہیں گے، حکومت مردہ باد، صحافیوں پر ظلم= نہیں چلے نہیں چلے گا

(سبھی صحافیوں کو پولیس نے ویان میں بٹھادیاہے۔ ویان آگے بڑھتی ہے، صحافیوں کے احتجاجی نعرے جاری ہیں۔پھروہان نظر نہیں آتی)

پردہ گرتاہے۔

Comments are closed.