ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
حضرت الاستاذحافظ محمد عبدالماجد صاحبؒ کی رحلت پر خصوصی تحریر

حافظ محمد وسیم الدین
امام مسجد زم زم کریم نگر
26؍جون 2021ءدوپہر 1 بج کر 27 منٹ پر حافظ محمد عبد الودود صاحب کے ذریعہ یہ اندوہناک خبر ملی کہ خادم القرآن ،مصلح امت،مشق ومربی حضرت الاستاذ حضرت حافظ محمد عبدالماجد صاحبؒ اب ہمارے درمیان نہیں رہے(انا للہ وانا الیہ راجعون)گزشتہ چند دنوں سے حضرت الاستاذ سے متعلق تشویشناک خبریں موصول ہورہی تھیں،لیکن دل و دماغ میں یہ تصور بھی نہ تھا کہ اتنی جلدی آپ ہمیں چھوڑ کر داعئ اجل کو لبیک کہہ دیں گے ،لیکن تقدیر کے سامنے ہر کوئی بے بس ہوتا ہے،موت سے کس کو رستگاری ہے،ہمارے چاہنے سے کہاں موت کا وقت ٹل سکتا ہے ،موت اگر مقدر ہوتو دنیا کا کوئی ڈاکٹر بھی اس کو نہیں ٹال سکتا ،اسی وجہ سے دل کے نہ چاہنے کے باوجود بھی آپ ؒکی وفات کا یقین کرناپڑا۔
دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے دنیا سے رحلت کرجانے بعد بھی لوگ ان کو بھول نہیں سکتے،ان کی یادوں کے نقوش ہمیشہ تازہ رہتے ہیں،لوگ ان کو رہتی دنیا تک یاد کرتے ہیںاور ان کے کمالات کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں،ان ہی عظیم المرتبت شخصیات میں سے ایک میرے استاذ ومربی حضرت حافظ محمد عبدالماجد صاحب ؒ ہیں،اللہ تعالیٰ نے آپ ؒ کو بے پناہ خوبیوں اور کمالات سے نوازا تھا،آپ جہاں ایک جید حافظ قرآن،خادم دین ،مقبول مدرس ،فعال منتظم تھے،وہیں منکسر المزاج ،ملنسار،شریف النفس اور بہت ساری نیک صفات کے حامل تھے۔
عمر کے ابتدائی ایام میں آپؒ دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوگئے،لیکن یہ محرومی آپ ؒ کے عزم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکی،اسی حالت میں آپؒ نے قرآن مجید کے حفظ کی سعادت حاصل کی جو کسی کرامت سے کم نہ تھی،جیسا کہ کہاجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی کو اپنی مصلحت کے تحت کسی نعمت سے محروم رکھتے ہیں تو اس کے لئے دوسری نعمت کو دوگنا کردیتے ہیں،یہی معاملہ حضرت الاستاذ کے ساتھ تھا،آپ صرف حافظ ہی نہیں تھے بلکہ جید حفاظ میں سرفہرست تھے،اللہ تعالیٰ نے بلا کا حافظہ عطا فرمایاتھا،صدیوں پرانی بات بھی آپؒ کے ذہن زرخیز میں محفوظ ہوتی تھی۔
ٓآپ ؒ نےتعلیم کے بعد تدریس کے لئے اپنے مادر علمی فیض العلوم حیدرآباد کا ہی انتخاب فرمایااور پانچ سال تک وہیں بحیثیت مدرس خدمت انجام دی، کامیاب تدریسی زندگی گزارنے کے بعدمتحدہ کریم نگر کا بافیض ،مستند ادارہ جامعہ عربیہ تحفیظ القرآن کا رخ کیا اور اپنی عمر کے تقریبا تیس بہاروں کو اس کی آبیاری کے لئے لگادیا،آپ نے اس ادارے کی ترقی ونیک نامی کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیااور یہاں کے شعبہ حفظ کو اتنا سنوارا کہ اس ادارہ کا ہر طالبعلم ایک جید حافظ قرآن ،قرآن کریم کو پڑھنے کے جو آداب ہیں اس کی مکمل رعایت کرنے والا بن کر فارغ ہوتا۔عمر کے آخری حصہ میں اپنے وطن کورٹلہ میں ایک ادارہ مدرسہ مظاہرالعلوم کی بنیاد رکھی جوآج ترقیوں کی طرف گامزن ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپؒ کوذہانت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ تدریسی میدان کا بھی شہسوار بنایا تھا،آپؒ نابینا تھے لیکن مدرسہ اور درجہ کی ہرہر کیفیت سے واقف ہوتے،طلباء کے ساتھ انتہائی مشفقانہ رویہ اختیار کرتےتھے،تجوید آپ ؒ کا امتیازی موضوع تھا،سبق ،پارہ سبق ،آموختہ پر خصوصی توجہ فرمایا کرتے تھے،اس میں کی جانے والی چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر بھی بروقت تنبیہ فرماتے تھے، رمضان المبارک کے موقع پر جب تک آپؒ تراویح میں سنائے جانے والے پارہ کو ازخود نہ سن لیتے مطمئن نہ ہوتے،طلباء کے بہتر مستقل کے لئے ہر وقت فکر مند نظر آتے تھے۔
حضر ت الاستاذقرآن کریم کے عاشق تھے،رسول اللہﷺ کی سنتوں کے شیدائی تھے،آپؒ کی ؒاستقامت کسی کرامت سے کم نہ تھی،اتنے سالوں تک ایک ہی ادارہ سے منسلک رہنا اور خاموشی کے ساتھ خدمات انجام دینا یہ حضرت ہی کا وصف تھا،کام کو انتہائی سلیقہ مندی سے انجام دیتے تھے،وقت اور اصول کے بہت پابند تھے اور بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے۔
احقر کو حضرت الاستاذ سے بے پناہ عقیدت تھی،ہر معاملہ میں حضرت سے رجوع ہوتا اور حضرت کے مشورہ سے کام کو انجام دیتا،اس تعلق کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ حضرت الاستاذ اپنے شاگردوں سے بے تکلف ہوتے تھے،ان کے ہر مسئلہ کو غور سے سنتے تھےاور اپنی قیمتی ہدایات سے سرفراز فرماتے تھے،احقر آج جو کچھ خدا تعالیٰ کے فضل سے دینی خدمات انجام دے رہا ہے ،اس میں حضرت کی شخصیت اور تربیت کا بڑا دخل ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت الاستاذکی مغفرت فرمائے اور آپؒ کی تمام دینی خدمات کو قبول فرمائے۔آمین
Comments are closed.