مکان بنانے کے لیے لون لینا، شرعی حل

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی

دارالافتاء:مہدپور،اُجین(ایم پی)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:زید اپنے اہل وعیال کے ساتھ ممبئی میں رہائش پذیر ہے،اس کی دکان ملاڈ مشرق میں اورخودکاروم نل بازار ممبئی میں ہے،کاروبارملاڈ میں ہونے کی وجہ سے ملاڈ ہی میں کرایہ کے گھر میں اہل وعیال کے ساتھ رہتا ہے،زید کو فکرہے کہ لڑکوں (زید کوتین لڑکے اوردولڑکیاں ہیں )کی تعلیم پوری ہونے کے بعد شادی بیاہ کرکے سب کی رہائش کا ابھی سے کوئی بندوبست کرے تاکہ بروقت دقتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے،ظاہرسی بات ہے کہ ممبئی جیسے گھنی آبادی والے مہنگے شہرمیں ابھی سے تیاری نھیں کرے گا تو دوچارسال بعدبہو کو لاکر رکھنا مشکل ہوگا،اورکرایہ کے گھرمیں یکے بعددیگرے تین شادی شدہ بیٹوں کی گنجائش نہیں اوردوسرے مکانات کرایہ پرلینے سے آمدنی کا ایک بھاری حصہ کرایہ ہی پرخرچ ہوجائے گا۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید لون پرفلیٹ (رہائش کے لیے بلڈنگ میں گھر) لے سکتا ہے کہ نھیں؟
فلیٹ کی قیمت عام طور پرایک کروڑ ،ڈیڑھ کروڑ ہوتی ہے، اتنی رقم یکمُشت تو مدتوں میں بھی اکٹھا کرنا مشکل ہے،بینک سے لون ہی کاراستہ بچتا ہے، ممبئی جیسے مہنگے شہر میں کیا ہوم لون کی ازروے شرع گنجائش ہے؟ بینواتوجروا
والسلام
المستفتی :ابو فارس
ملاڈ مشرق ، ممبئی97
15،6،2021

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب: حامدا ومصلیا ومسلما امابعد!

1. حکومت یاکسی مالیاتی ادارے کی طرف سے سبسڈی(Subsidy)والی لون لے کرگھروفلیٹ خریدنا ،بنانایاکاروبارکرناجائز ہے،شرط یہ ہے کہ:
"لون کی واپس کی جانے والی کل مقداراس کی ملنے والی مقدار کے برابر یا اس سے کم ہے، تو اس کا لینا درست ہے، ورنہ سودہے جو کہ جائزنہیں ہے۔”(1)

2. اسی طرح زیروانٹرسٹ پربھی لون لے کرگھر بنوانایا کاروبار کرنادرست ہے۔کیوں کہ اس صورت میں ربا
یاسودنہیں پائی جارہی ہے۔ (2)

3. اگر سبسڈی یا زیرو انٹرسٹ کے بجائے سودپر لون ملتا ہے، توگھر، فلیٹ خریدنے یا بنوانے کے لیے اُسے لینا جائز نہیں ہے۔کیوں کہ عام حالات میں سودی قرض لینا سخت منع ہے۔(3)

4. اگرغیرسودی لون نہیں مل رہا ہے، تو یہ ضروری نہیں ہے کہ پُرتعیش زندگی گذارنے کے لیے اسی گھنی اورمہنگی آبادی والے علاقے میں گھر بنوائیں،بلکہ اگر وُسعت نہیں ہے وہاں سے باہر کسی کم دام والے علاقے میں گھربنوانے کی کوشش کریں۔ زیادہ بہتر سہولیات کے لیے مہنگے علاقے میں گھربنوانے کی فکرکرنا شرعی طور پر ایساعذرنہیں ہے کہ اس کے لیے سودی قرض لینے کی اجازت یاگنجائش ہو۔(4)

5. اگرزمین،مکان یافلیٹ کی خریداری یا مکان کی تعمیرکے سلسلے میں حاصل کئےجانے والے قرض کی ادائیگی کے لیے آئندہ انتظام ہوجانے کا یقین ہو،اور سہولیات، آرام وآسائش کے خیال سے اُسی علاقے میں ہی مکان ،فلیٹ خریدنے یا بنانے کی خواہش ہے۔تو مکان، فلیٹ کی تعمیر یاخریداری کے لیے لون کی شکل میں جتنے روپے کی ضرورت ہے ،اُتنے روپے کے حصول کی جائزصورت یہ ہے کہ بینک کے بجائے کسی صاحبِ خیر مسلمان یا سوسائٹی، مسلم پنچائت،یا کنسٹرکٹر یا بلڈرسے اتنے روپے کا اس طرح معاہدہ کریں کہ:
"میرے مکان کے لیے خریدی گئی زمین و اس پر تعمیرمکان، فلیٹ میں جتنا روپیہ خرچ ہوگا، وہ(صاحبِ خیر، سوسائٹی یا مسلم پنچائت ، کنسٹرکٹر، بلڈر) اُتنا روپیہ مجھے دے دے یااتنے روپے میں مقررہ جگہ پرمیرا مکان تعمیر کرادے،یا فلیٹ خرید کردے دے، مکان تیارہونے،یا فلیٹ کی خریداری کے بعد اس مکان کا مالک میں نہیں بلکہ وہی (صاحبِ خیر، سوسائٹی یا مسلم پنچائت،کنسٹرکٹر، بلڈر) ہوگا، اورمیں کرایہ سے اس مکان میں اُس وقت (چار،پانچ،دس سال)تک رہوں گا، جب تک کہ میں زمین ،مکان یا فلیٹ میں اس کے ذریعہ خرچ کئی گئی مجموعی رقم اُس(صاحبِ خیر، سوسائٹی یا مسلم پنچائت، کنسٹرکٹر، بلڈر) کونہ ادا کردوں۔”
یہ اولاًکرایہ(Rent)(5)اور آخرمیں خرید وفروخت کامعاملہ ہوگاجوکہ بالکل جائزہے۔(6)
یا ایسا کیاجاسکتا ہے کہ
وہ(صاحبِ خیر، سوسائٹی یا مسلم پنچائت، کنسٹرکٹر، بلڈر) مکان، فلیٹ وغیرہ کوخرید کراضافی قیمت (Mark up pricing)
کے ساتھ حاجت مند کو چار، پانچ ،دس سال کے اُدھارمیں دے دے۔(7)

دوکان، مکان،لوڈنگ یا سواری وغیرہ کی روباری گاڑیوں کی خریداری میں کاروباری طریقے
(Professional method)
پراہل ثروت مسلمانوں، سوسائٹیز یامسلم پنچائتوں، کنسٹرکٹرس ، بلڈرس کواجارہ(Rent)،
مشارکت(Partnership) اوربیع مرابحہ (Mark up pricing) کے معاملات کے ذریعہ حاجتمندوں کے تعاون کے لیے آگے آنا چاہئے۔ تاکہ بہ سہولت حاجتمندوں کی ضروریات پوری ہوسکیں، اور مزاجِ شریعت کے مطابق اغنیاء کاروپیہ بازارمیں گردش کرتا رہے۔ (8)
اس طرح قرض دینے کے بعد اس کی وصولیابی میں دشواری اور روپیہ کے ویلو کے گھٹنے سے قرض دہندہ کاجو نقصان ہوتا ہے، ان سب سے وہ محفوظ رہ سکتا ہے۔ (9)
(1)محمود الفتاوی،ج:3،ص59،حضرت اقدس مفتی احمد خان پوری دامت برکاتہم۔واسلامک فقہ اکیڈمی کے فیصلے،ص 232،سن طباعت 2017ءایفا بلیکیشنس دہلی)
(2) لان الرباھو الفضل الخالی عن العوض وحقیقۃ الشروط الفاسدۃ ھی زیادۃ مالایقتضیہ العقد، ولایلائمہ، فیکون فیہ فضل خال عن العوض وھوالربابعینہ، الرد المحتار ج5ص169 زکریا)
(3) وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ (البقرۃ آیت نمبر 275)
عن جابر بن عبد اللہ رضی الله عنہ قال: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربوا مؤکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ھم سواء( مسلم برقم الحدیث 1598، ترمذی برقم الحدیث 1206)
(4) واذاکان لانسان حاجۃ او ضرورۃ ملحۃ اقتضت معطی الفائدة ان یلجأ الی ھذا الامر، فان الاثم فی ھذا الحال یکون علی آخذالربا( الفائدۃ) وحدہ، وھذا بشرط ان تکون ھناک حاجۃ او ضرورۃ حقۃ لا مجرد توسع فی الکمالات او امور یستغنی عنھا، (الحلال والحرام فی الاسلام، للشیخ یوسف القرضاوی،ص219، بیروت)
(5) أماشرط النفاذ فأنواع منھا …۔۔ومنھا الملک والولایۃ فلا تنفذ إجارۃ الفضولی لعدم الملک والولایۃ‘‘(بدائع الصنائع ج4 ص177، کتاب الاجارہ)
أما الأول: فهو ثبوت الملك في المنفعة للمستأجر، وثبوت الملك في الأجرة المسماة للآجر؛ لأنها عقد معاوضة إذ هي بيع المنفعة، والبيع عقد معاوضة، فيقتضي ثبوت الملك في العوضين. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ،ج 4ص201، كتاب الاجارة)
،ومنها أن تكون الأجرة معلومة. (الفتاوى الهندية 411/4 كتاب الإجارة، بيروت)
(6) وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ(البقرۃ آیت نمبر 275)
(7)ویجوز بیع العقارقبل القبض۔(ھدایۃ، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ،ج3 ص74، اشرفی ۔ تاتارخانیۃ زکریاج 8ص266 رقم: 11862)
(8)كَیۡ لَا یَكُونَ دُولَةَۢ بَیۡنَ ٱلۡأَغۡنِیَاۤءِ مِنكُمۡۚ (الحشر،آیت نمبر7)
(9) لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ (البقرة:279)

فقط واللہ اعلم بالصواب

کتبہ:
*محمداشرف قاسمی*
خادم الإفتاء:مہدپور،
ضلع:اُجین (ایم پی)

16ذی قعدہ 1442ء
مطابق27جون2021ء

[email protected]

تصدیق:
مفتی محمد سلمان ناگوری

ناقل:
محمد فیضان خان،
مہدپور، اجین، ایم پی

Comments are closed.