قربانی کی کھالوں کاخانگی استعمال

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی
مہدپور،اجین،ایم پی۔
گذشتہ سطور میں عام کھالوں کی افادیت بتانے کی کوشش گئی تھی جو کہ قرآن کریم کی نصِ ظاہرسے ثابت ہے۔
لیکن قربانی کی کھال کی اہمیت عام کھالوں سے بھی زیادہ ہے۔ کیوں کہ اس کے ساتھ ایک عظیم عبادت کی نسبت قائم ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اُن روایات سے ہوتا ہے جن میں آتا ہے کہ قربانی کی کھالوں کو مختلف خانگی ضروریات میں ازواج مطہرات اورصحابہؓ کرام استعمال فرماتے تھے:
اخرج احمد فی مسندہ حدیثا طویلا طرفہ ھذا:
ولاتبیعوالحوم الھدی والاضاحی، فکلواوتصدقوا واسمتعوا بجلودھا، ولاتبیعوھا، وان اطعمتم من لحمھا فکلوا ان شئتم ( المسند للامام احمد بن حنبل،ج4 ص15،رقم الحدیث 16312،)
"امام احمدنے ایک طویل روایت نقل فرمائی ہےجس کا ایک حصہ مندرج ذیل ہے:
تم نہ فروخت کرو ہدی اور قربانی کے گوشت کو، بلکہ کھاؤ اوراس کوصدقہ کرو، اوراس کی کھالوں سے فائدہ اٹھاؤ اوراس کو مت فروخت کرو،اوراگر تم قربانی کے گوشت دوسروں کوکھلاؤ تو اگرتم چاہوخود بھی اس میں سے کھاسکتے ہو”مسند احمد
ابنِ حزم نقل فرماتے ہیں:
ونقل ابن حزم عن ابی ظبیان فقلت لابن عباس : کیف نصنع باھاب البدن؟ قال: یتصدق بہ وینتفع بہ، وعن عائشۃ رضی اللہ عنھا ام المومنین ان یجعل من جلد الاضحیۃ سقاء ینبذفیہ، وعن مسروق انہ کان یجعل من جلد اضحیۃ مصلی یصلی فیہ، وصح عن الحسن البصری :انتفعوا بمسوک الاضاحی ولاتبیعوھا، (المحلی لابن حزم، کتاب الاضاحی، ج 6ص52،رقم المسئلة 986)
"ابن حزم نے ابو ظبیان سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ :قربانی کی کھالوں کو دباغت دیکر کیا کریں؟ تو انھوں نے فرمایا کہ: اس کو صدقہ کردیں اور یا اس سے نفع اٹھائیں۔ اورام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی عنھا سے روایت ہے کہ قربانی کی کھالوں کا مشکیزہ ،مشک بنالیاجائے جس میں نبیذ تیار کی جاتی ہے۔ حضرت مسروق سے روایت ہے کہ وہ قربانی کی کھالوں سے مصلی بنالیتے اور اس پر نماز ادا کرتے تھے۔ اورحضرت حسن بصری سے صحیح روایت سے ثابت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ: قربانی کی کھالوں کو مشکیزہ بناکر اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کو فروخت نہ کرو۔”( المحلی لابن حزم)
علامہ کاسانی فرماتے ہیں کہ:
ولہ ان ینتفع بجلد اضحیتہ فی بیتہ بان یجعلہ سقاء، او فروا اودلوا، لماروی عن سیدتنا عائشۃ رضی اللہ عنھا انھا اتخذت من جلداضحیتھا سقاء(بدائع الصنائع ج4 ص225 زکریا)
"اورقربانی کرنے والے کو اختیارہے کہ وہ قربانی کی کھالوں سے اپنےگھر میں فائدہ اٹھائے، اس طورپر کہ اس کا مشک بنالے یا پوستین بنالے یاڈول؛ یہ حکم اس روایت کی وجہ سے جو ہماری سرداراُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ آپ نے قربانی کی کھال کا مشک بنایا تھا” بدائع الصنائع۔
علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
ویتصدق بجلدھا اویعمل منہ نحوغربال وجراب وقربۃ وسفرۃ ودلو اویبدلہ بما ینتفع بہ باقیاکمامر، لا بمستھلک کخل ولحم ونحو،وکدراھم؛ فان بیع اللحم اوالجلد بہ ای بمستھلک اوبالدراھم
تصدق بثمنہ ای بالدراھم فیمالوابدلہ بھا، ولایعطی اجرالجزار منھا؛ لانہ کبیع؛ ( ردالمحتار مع الدرالمختار، ج 9ص 475،زکریا)
"اورقربانی کی کھال کو صدقہ کردے، یااس سے بنا لےچھلنی،جراب یعنی پائتابہ ،میان یعنی تلوار وغیرہ کاکور، دسترخوان، یا بیگ وتھیلایا ڈول بنالے۔ یا قربانی کی کھال کاایسی چیزسے تبادلہ کرلے جو باقی رہنے والی ہواوروہ استعمال سے ختم ہوجانے والی نہ ہو۔ اورنہ تبادلہ کرے ایسی چیز سے جو استعمال کی صورت میں ہلاک(فنا وختم) ہوجانے والی ہو جیسے سرکہ(سالن) اور یا جیسے کہ روپیہ وغیرہ۔ پس اگرقربانی کے گوشت یا جلدکو ہلاک ہونے والی چیز یا روپیہ کےعوض فروخت کردیا تو اس کی قیمت کو صدقہ کرے۔جس کے بدلے میں روپیہ حاصل کیا ہے۔ اور نہ دے قصاب کو مزدوری قربانی کے جانور سے کوئی جزوء، کیوں یہ بھی فروختگی کی طرح ہے۔” رد المحتار
کھال یا کھال کے بدلے کوئی باقی رہنے والی چیز خرید کرگھروں میں استعمال کرنا مستحب ہے، جیسا کہ فتح القدیر کی درج ذیل عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔ :
ولاباس بان یشتری بہ ماینتفع بعینہ فی البیت مع بقائہ استحبابا(فتح القدیر ج8ص 436کوئٹہ)
"اورکوئی حرج نہیں ہے قربانی کی کھال سے ایسی چیزخرید لے جس سے گھر میں فائدہ اٹھائے اوروہ باقی رہنے والی ہو، استعمال سے ختم ہوجانے والی نہ ہو، یہ پسندیدہ (مستحب) ہے” فتح القدیر
قربانی کی کھال کو خانگی استعمال میں لایا جاسکتا ہے، اسی طرح قربانی کی عینِ کھال کسی بھی شخص کودی جاسکتی ہے۔ فتاوی ہندیہ میں صراحت ہے کہ:
ویھب ما یشاء للغنی والفقیر والمسلم والذمی،( فتاوی ھندیۃ ج 6ص301)
” اورقربانی کے جس جزوء کوچاہے ہدیہ کردے کسی مالدار،فقیر،مسلم اورذمی (غیرمسلم)کو۔”ہندیہ
امدادالفتاوی میں ہے:
"جس طرح لحمِ اُضحیہ کا غنی کودیناجائز ہے،اسی طرح جلدبھی غنی کو دینا جائزہے، جب کہ اس کوتبرعاً دیاجائے، اس کو کسی خدمت وعمل کے عوض میں نہ دیاجائے۔”
(امداد الفتاوی ج3ص 560زکریا)
الغرض قربانی کی کھال کوگھریلواستعمال میں لانا، یا اس کے بدلے کوئی باقی رہنےوالا سامان حاصل کرکے استعمال کرناپسندیدہ ہے، قربانی کھال یا اس کھال سے بنی کوئی بھی چیز خود بھی استعمال کرسکتے ہیں اور امیروفقیر،مسلم وغیرمسلم دوسروں کو بلا کسی تفریق کے اسے ہدیہ کے طور پر دیا جاسکتا ہے۔
امید ہے کہ اس تحریر سے کھالوں کے افادی پہلو سامنے آنے کے بعد کھالوں کی صنعت کو فروغ حاصل ہوگا، نیزقربانی کی کھالوں کی اہمیت وافادیت میں اضافہ ہوگا۔ ان شاءاللہ۔
کتبہ:
محمد اشرف قاسمی،
خادم الافتاء: شہر مہدپور، اُجین،(ایم پی)
14ذی قعدہ 1442ء
مطابق 25جون 2021ء
Comments are closed.