خاندانی نظام اور ہم

حافظ ملک جمشید
زندگی میں اگر دیکھا جائے تو ہر مخلوق ایک گروہ ایک کنبے کی صورت میں رہتی ہے کیونکہ ہر شئی کی خوبصورتی کا راز بھی باہمی اتفاق ہے۔ دیکھا جائے تو گھر میں رکھے سامان یا ڈیکوریشن کا بھی سیٹ ہوتا ہے۔جس میں سے اگر کوئی بکھر یا ٹوٹ جائے تو اس کا حسن بھی مانند پڑ جاتا ہے یہ حال مشترکہ خاندانی نظام کا ہے۔ جس علاقے یا جس معاشرے میں خاندانی نظام رائج ہے وہ معاشرہ یقینا سکون کی زندگی بسر کر رہا ہے اور وہاں لڑائی جھگڑے قلیل تعداد میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ ایک نظام ہے کہ جس کے تحت سب رہتے ہیں۔آپس کے مسائل و مشکلات مل جل کر حل کر دی جاتی ہیں اور لوگ ہندی خوشی زندگی بسر کرتے ہیں مگر اب زمانہ بدل گیا ہے۔اس پرانے پیار و محبت کو کیڑا لگ گیا ہے۔موجودہ دور میں مشترکہ خاندانی نظام ایک عذاب کی صورت اختیار کر گیا ہے۔جہاں مشترکہ نظام ہے تو وہاں آئے روز جھگڑوں کا معمول ہے۔کبھی ساس بہو کا جھگڑا تو کبھی ماں بیٹے کی تلخیاں چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر آج ہم زمانہ جاہلیت کے طریقے پر چل پڑے اور روز کی لڑائی و خفگیاں معمول زندگی بن پڑیں۔یہی وجہ ہے کہ آج خاندانی مشترکہ نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔الا یہ کہ جس گھر میں کوئی بزرگ باقی تو اس کی موت تک ماحول بہتر وگرنہ آج ہم بکھر چکے ہیں۔ دوسروں کے غم و خوشی میں جان دینے والے آج مٹی تلے دفن ہو گئے۔ کسی کے گھر شادی کی خوشی میں جان دینے والے آج موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کس طرح بندام کیا جاسکے۔ پرانا رواج محلے خاندان کا اتفاق اب کتابوں میں بھی نہ رہا۔اب تو کتابوں کے ناشرین نے بھی ایسے مضامین چھاپنے چھوڑ دیے کہ جس کو پڑھ کر کچھ اتفاق سے رہنے کا درد ملتا۔اصل میں خاندانی نظام میں خرابی نہیں مشترکہ خاندانی نظام سب سے بہتر نظام ہے مگر اس نظام کے تحت اب وہ لوگ نہ رہے جو رہ سکیں کیونکہ اس دور میں اکیلا رہنا زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے۔شادی ہوتے ہی بیٹا علیحدہ رہنے کے متعلق سوچنے لگ جاتا ہے۔دوسرا بھائی بھی شادی کر لے تو پھر تو سسٹم ہی الگ ہو جاتا ہے۔ ایک پانچ مرلے کے مکان میں تین تین چولہے جلتے ہیں اور اسی میں سکون محسوس کیا جاتا ہے اور یہی خرابی آگے نسل در نسل چلتی آرہی ہے اور خاندانی نظام کا مشترکہ طور پر رہنا ایک دل کی حد تک رہ گیا ہے۔اور آگے یہی صورت حال آگے جا کر تو کچھ اور ہی ترقی یافتہ ہو جائے گی۔نتیجتا ایک گھر میں رہ کر دوسرے بھائی کی خوشی غمی کا احساس مٹ جائے گا۔اس لیے ابھی سے کوشش کر کے اپنے آپ کو ایک کرنے کی ضرورت ہے۔کوشش اور ہمت سے زندگی میں ہر کام ہو سکتا ہے۔آج ہم خاندان کو جوڑنے لگ جائیں تو کل کو ہماری نسل بھی ہمیں یاد رکھے گی۔آج کے دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ آپس کا اتفاق و اتحاد کیا جائے۔اپنے خاندانوں کو مضبوط بنایا جائے اور پرانی یاد تازہ کر کے مشترکہ خاندانی نظام کی چادر تلے جمع ہوں تا کہ آپس میں ہم ایک ہو سکیں۔ایک دوسرے کا دکھ سمجھ سکیںط۔کب ہم اندر سے ایک ہوں گے تو یقینا باہر والے بھی ہمیں میلی آنکھ سے نہ دیکھ پائیں گے اور ہمارا اتفاق و اتحاد دوسروں کے لیے مثال بنے گا۔

Comments are closed.