آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی صاحب مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا۔بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد
دنیا سے رُخصت ہوتے وقت کلمہ طیبہ
سوال :- اکثر علماء اور احادیث کی کتب میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ جو کوئی بھی دنیا سے رُخصت ہوتے وقت ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ پڑھے گا ، وہ جنت میں جائے گا ؛ لیکن اس کے بعد ( محمد رسول اللہ ) کا نام نہیں جوڑا جاتا ، کیا آپ کے آخری رسول ہونے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہونے کی شہادت کی حاجت نہیں ہے ؟ جب کہ قبر کے سوالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت سوال ہوگا کہ کون ہیں ؟ چوںکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خاص دُعا کی خواہش کی تھی تو آپ کو ’’ لا الٰہ الا اللہ ‘‘ پڑھنے کی تاکید کی گئی تھی ، وہ خود چوںکہ رسول تھے ، ان کو اپنی گواہی کے لئے نہ کہا گیا ہو گا؛لیکن ہم تو عام آدمی ہیں اور کیا ایسی صورت میں ہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی گواہی کی ضرورت نہیں ہوتی ؛ کیوںکہ معاملہ جنت میں جانے کا ہے ؛ اس لئے آپ سے خواہش ہے کہ آپ بتائیں ہم کو کیا پڑھنا چاہئے ؟ (عدنان فاروقی، مہدی پٹنم)
جواب :- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص لا الٰہ الا اللہ کہے ، وہ جنت میں داخل ہوگا ، ’’ من قال لا الٰہ الا اﷲ … دخل الجنۃ‘‘ ( بخاری ، باب الثیاب البیض ، حدیث نمبر : ۵۴۸۹) لیکن یہاں لا الٰہ الا اللہ ’ محمد رسول اللہ ‘ کو بھی شامل ہے اور پورا کلمہ طیبہ پڑھنا مراد ہے ، لاالٰہ الا اللہ کا فقرہ بطور عنوان کے ہے ، جیسے کہا جاتا ہے نماز میں بحالت قیام ’’الحمد‘‘ پڑھنا ہے ، یا قعدہ میں’ ’ التحیات ‘‘ پڑھنا ہے ، تو اس کا مقصد صرف الحمد یا التحیات پڑھنا نہیں ہے ؛ بلکہ پوری سورہ فاتحہ اور پورا تشہد پڑھنا مراد ہے ، اسی طرح اس حدیث میں لا الٰہ الا اللہ سے پورا کلمہ طیبہ پڑھنا مراد ہے ، مشہور محدث علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ نے شرح بخاری میں اس پر تفصیل سے بحث فرمائی ہے ۔ ( دیکھئے : فیض الباری ، باب الحیاء من الایمان : ۱؍۷۸)
گستاخانہ باتیں
سوال:- میرے ایک دوست ہیں ( ۶۲ سالہ ، بفضل اللہ تعالیٰ ان کی اہلیہ اور اولاد بھی ہیں ) کچھ ایسی باتیں کرتے ہیں ، جو میری سمجھ کے مطابق کفریہ کلمات ہیں ، منع کرنے پر وہ کہتے ہیں : ہم کو اللہ پر ناز ہے ، ہم ناز میں بولتے ہیں :
(۱) اللہ کو ماں باپ کی قدر ، محبت ، کیا معلوم ؟ اس کو ماں ہے نہ باپ ، ماں باپ ہوتے تو معلوم ہوتا ، ماں باپ کیا ہوتے ہیں ؟
(۲) یہ عورت ذات ہے کہ میں تو بولتا ہوں کہ عورت ذات کو زندہ جلا دینا … وغیرہ ۔
حقیقت سے آگاہ فرمائیں اور اس ضمن میں ان کے لئے شرعی حکم کی صراحت فرماکر ممنون فرمائیں ؛ تاکہ بحیثیت دوست میں ان تک حق بات پہنچاکر اللہ تعالیٰ کے پاس پکڑ سے بچوں۔ (شمس الحق، سنتوش نگر )
جواب :- (۱) ان میں سے پہلا فقرہ تو کفریہ ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ گستاخانہ کلمات ہیں ، اللہ تعالیٰ تو دلوں کے حال سے بھی واقف ہیں ، تو کیا وہ ماں باپ اور اولاد کے جذبات سے واقف نہ ہوں گے ، پھر یہ کہ اللہ کی محبت تو حدیث نبوی کے مطابق ستر ماں سے بھی بڑھ کر ہے ، تو کیا اس سے بڑھ کر کسی کو انسان کا لحاظ ہوسکتا ہے ؟ اس لئے آپ کے یہ ساتھی جو گویا عمر کی آخری منزل میں ہیں ، کو حکمت کے ساتھ سمجھائیے اور ان سے توبہ کروائیے ، ایسے مرحلہ میں جب کہ بگڑا ہوا شخص بھی صحیح راستہ پر آجاتا ہے ، ان کا اس طرح کے کلمات کہنا انتہائی افسوس ناک اور آخرت کو برباد کردینے والا عمل ہے ، اللہ پر ناز کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نعوذ باللہ گستاخی کی جائے ، وباللہ التوفیق ۔
(۲) عورت کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کو زندہ جلا دینا چاہئے ، انتہائی ناشائستہ بات اور شریعت کے خلاف نقطۂ نظر کا اظہار ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عورت کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیا ہے : ’’ خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ‘‘ ( مسلم ، کتاب الرضاع ، حدیث نمبر : ۱۴۶۷) آپ کے دوست نے یہ نہیں سوچا کہ آخر ان کو ایک عورت ہی نے تو جنم دیا ہے ؛ اس لئے ان کی یہ بات بالکل غلط اور شریعت کے مزاج کے خلاف ہے ۔
اللہ حافظ یا خدا حافظ ؟
سوال:- اللہ حافظ یا خدا حافظ میں کونسا لفظ قابل ترجیح ہے ؟ قدیم کتابوں میں اور علماء کرام کے مواعظ اور تصانیف میں لفظ خدا حافظ ہی ملتا ہے ، مگر مسلمانوں کی آج کل کی نسل میں اللہ حافظ زیادہ بولا جارہا ہے ، براہ کرم معلوم فرمایئے کہ دونوں میں کونسا لفظ قابل ترجیح ہے ۔ (قطب الدین، مغلپورہ)
جواب :- صحیح و مسنون طریقہ یہ ہے کہ جس کو رخصت کررہا ہو ، اس کو کہے : ’’ استودع اﷲ دینک وامانتک وآخر عملک‘‘ ( سنن ترمذی ، باب مایقول إذا ودع انسانا ، حدیث نمبر : ۳۴۴۲) البتہ خدا حافظ یا اللہ حافظ کہنے میں بھی حرج نہیں ہے ، یہ بھی ایک دُعائیہ لفظ ہے کہ اللہ آپ کو اور ہم کو اپنی حفاظت و امان میں رکھے ، اللہ حافظ کے لفظ کا درست ہونا تو ظاہرہی ہے ؛ لیکن چوںکہ خدا کا لفظ بھی اللہ کے لئے معروف و مروج ہے اور معنی کے اعتبار سے یہ تقریباً ’’ واجب الوجود ‘‘ کے ہم معنی ہے ، جو علماء علم کلام استعمال کرتے رہے ہیں ؛ اس لئے اس کا استعمال بھی درست ہے — دونوں تعبیرات میں ’’ اللہ حافظ ‘‘ کو اس حیثیت سے راجح قرار دیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اصل نام ( عَلَم) اللہ ہی ہے ۔
دانتوں کی کاسمیٹک سرجری
سوال:- دانتوں کی کاسمیٹک سرجری کروانا کیسا ہے ؟ (ڈاکٹر فائزہ، ہمایوں نگر)
جواب:- اگر دانت فطری ساخت کے مطابق ہیں اور مزید خوبصورتی کے لئے سرجری کرائی جائے تو یہ جائز نہیں ، عرب میں دانتوں کے درمیان ہلکے فصل کو خوبصورتی کی علامت سمجھا جاتا تھا؛ اس لئے عورتیں بہ تکلف دانتوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرتی تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے ، ( ابن ماجہ ، باب الواصلۃ والواشمۃ ، حدیث نمبر : ۱۹۸۹) ہاں ، اگر دانتوں کی وضع پیدائشی طورپر معمول کے خلاف ہو ، مثلاً دانت ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہوں ، یا کسی بیماری کی وجہ سے بعد میں بدہیئت ہوگئے ہوں ، تو آپریشن کے ذریعہ ان کو درست کرانا جائز ہے ؛ البتہ علاج کے طورپر ایسے مواد کا استعمال ہونا چاہئے جو پاک اور حلال ہو ۔
سونے چاندی کے دانت
سوال:- بعض حضرات سونے یا چاندی کے دانت لگواتے ہیں ، کیا اس طرح کے دانت لگوانا جائز ہے ؟ (ڈاکٹرفائزہ، ہمایوں نگر)
جواب:- ٹوٹے ہوئے دانت کو لگانا درست ہے ؛ لیکن بجائے سونے چاندی کے سیمنٹ کے دانت لگانا مناسب ہے ، جو دانت کے ہم رنگ ہوتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے لئے سونے کے استعمال کو بالکلیہ منع فرمایا ہے اور چاندی کا استعمال بھی ان کے لئے صرف انگوٹھی کی حد تک جائز ہے ، عورتوں کو سونے اور چاندی دونوں کا استعمال جائز ہے ؛ لیکن صرف زیورات کے طورپر ، دوسرے کاموں میں نہیں ؛اگرچہ فقہاء نے بعض احادیث نبوی کو سامنے رکھتے ہوئے ایک قول کے مطابق سونا چاندی دونوں اور ایک قول کے مطابق چاندی کے تار سے از راہ علاج دانت باندھنے کی اجازت دی ہے :’’ ولا تسد الاسنان بالذہب وتشد بالفضۃ وقال محمد رحمہ اﷲ لا بأس بالذہب أیضاً‘‘۔ ( الجامع الصغیر : ۱؍۴۷۷)
لیکن یہ اجازت اس بنیاد پر ہے کہ اس زمانہ میں سونے اور چاندی کے تار سے باندھنے کے سوا کوئی اور علاج نہیں تھا ، اب موجودہ دور میں ایسا مواد مہیا ہوگیا ہے ، جس کے ذریعہ دانت تیار کیا جاسکتا ہے ؛ اس لئے موجودہ دور میں سونے اور چاندی کے دانت لگوانا درست نہیں ہے ۔
قربانی و ولیمہ کے ساتھ عقیقہ
سوال:- قربانی اور ولیمہ کے جانور جو ذبح کئے جاتے ہیں ، کیا ان میں بچوں کے عقیقہ کی نیت سے حصہ لینا جائز ہے ، اس سے عقیقہ ہوجائے گا ؟ ( محمد شکیب، ملے پلی)
جواب:- بہتر طریقہ یہ ہے کہ قربانی کے جانور میں صرف قربانی کی جائے ، عقیقہ کا جانور صرف عقیقہ کے لئے ہو اور ولیمہ کا جانور صرف ولیمہ کے لئے ؛ لیکن اگر قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ لے لیا جائے تو یہ بھی جائز ہے اور مشہور حنفی فقیہ علامہ کاسانیؒ نے لکھا ہے کہ ولیمہ اگرچہ مہمان نوازی کی ایک صورت ہے ؛ لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کے شکر کے طورپر کیا جاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے؛ اس لئے ولیمہ کے جانور میں بھی عقیقہ کا حصہ لیا جاسکتا ہے ، مثلاً ایک بڑے جانور میں پانچ حصہ ولیمہ کی نیت سے لیا جائے اور دو حصہ عقیقہ کی نیت سے ، تو یہ بھی درست ہے :
وکذلک إن أراد بعضھم العقیقۃ عن ولد ولد لہ من قبل ؛ لأن ذٰلک جھۃ التقرب إلی اﷲ تعالٰی عز شأنہ بالشکر علی ما أنعم علیہ من الولد ، کذا ذکر محمد رحمہ اﷲ ، فی نوادر الضحایا ولم یذکر ما إذا أراد أحدھم الولیمۃ ، وھی ضیافۃ التزویج ، وینبغی أن یجوز ؛ لأنھا إنما تقام شکراً ﷲ تعالٰی عز شأنہ ، علی نعمۃ النکاح وقد وردت السنۃ بذلک عن رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ، أنہ قال ’’ أولم ولو بشاۃ ‘‘ فإذا قصد بھا الشکر أو إقامۃ السنۃ فقد أراد بھا التقرب إلی اﷲ عز شأنہ ، وروی عن أبی حنیفۃ رحمہ اﷲ ، کرہ الاشتراک عند اختلاف الجھۃ ، وروی عنہ أنہ قال : لو کان ھذا من نوع واحد لکان أحب إلَیّ ، وھکذا قال أبویوسف رحمہ اﷲ ۔ ( بدائع الصنائع ، کتاب التضحیۃ ، فصل فی شرائط جواز إقامۃ الواجب فی الأضحیۃ : ۵؍۷۲)
سودی رقم غریبوں کو کیوں دی جائے ؟
سوال:- کیا سود کی رقم ثواب کی نیت کے بغیر غریب رشتہ داروں کو دی جاسکتی ہے ؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سود کی رقم بینک سے نکالنا ہی جائز نہیں ۔ ( سید شاہنواز، حمایت نگر)
جواب:- سود کے بارے میں موجودہ دور کے علماء اور اربابِ افتاء کی رائے یہی ہے کہ اس کو بینک سے نکال لینا چاہئے ، غرباء پر خرچ کردینا چاہئے اور خرچ کرنے میں ثواب کی نیت نہیں کرنی چاہئے ، بینک سے نکالنے کا حکم اس لئے دیا جاتا ہے کہ اگر یہ رقم بینک میں چھوڑ دی جاتی ہے تو اس سے ایک سودی ادارے کو تقویت پہنچے گی اور بعض اوقات ایسی رقم کو فرقہ پرست تنظیمیں اس عنوان سے حاصل کرلیتی ہیں کہ وہ اس کو خدمت ِخلق کے کاموں میں خرچ کریں گی اور عملاً یہ رقم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خرچ کی جاتی ہے ، غریبوں کو دینے کا حکم اس لئے ہے کہ اپنی ذات کے لئے اس کا استعمال کرنا جائز نہیں اور اس لئے کہ غرباء معاشی مجبوری سے دوچار ہیں اور حالت ِمجبوری میں بعض ناجائز اُمور جائز ہوجاتے ہیں ، اور ثواب کی نیت سے اس لئے منع کیا جاتا ہے کہ یہ ناپاک مال ہے اور ناپاک مال میں صدقہ کی نیت کرنا عبادت کی توہین ہے — رہ گیا ایسے مال کو ضائع کرنے کے بجائے ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کی دلیل تو اس کی ایک مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں بھی ملتی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک بھونی ہوئی بکری رکھی گئی ، معلوم ہوا کہ یہ حرام ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے قیدیوں کو کھلا دو : ’’اطعموھا الاساریٰ ‘‘ یہ حدیث مسند احمد کی ہے اور علامہ عراقیؒ کا بیان ہے کہ اس کی سند جید — یعنی معتبر ہے ۔ ( فقہ التاجر المسلم : ۱؍۱۳۹)
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.