امارت اوراس کے ناظم

محمد رضاء اللہ قاسمی
9471905151
اسلام جس اجتماعی زندگی کا مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے،امارت شرعیہ(بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ)اس نظام کی ایک اچھی تصویر ہے،ہندوستان کے مسلمان حضرت سید احمدشہید بریلوی علیہ الرحمہ کے بعد اسلامی نظام زندگی سے دُورجاپڑے تھے،انگریزوں کے جبرواستبداد نے مسلمانوں کے قابل ذکر طبقہ کو گوشہ نشینی پر مجبور کردیا تھا،کچھ لوگ سیاسی ونیم سیاسی تحریکات میں شریک تھے۔کم وبیش سو سال کے جمود وتعطل کے بعد حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ نے ملت کو بھولا ہوا سبق یاد دلایا اور26جون 1921کو امارت شرعیہ قائم کرکے مسلمانوں کو ان کا ایک دینی فریضہ یاد دلایا ۔ملک کے مشاہیر علماء اورمشائخ نے اس دینی تنظیم کو خوش آئندقراردیا۔آج امارت شرعیہ کو سو سال ہوگئے اورترقی کی جانب گامژن ہے،امارت شرعیہ کی ترقی واستحکام میں جہاں بانی امارت شرعیہ اورامراء شریعت کی قربانیاں شامل ہے،وہیں امارت شرعیہ کے نظماء کرام کی بیش قیمتی خدمات آب زر سے لکھے جانے کے قابل ۔ذیل میں امارت شرعیہ کے نظماء کا مختصر تعارف اوران کے زمانے میں امارت شرعیہ کے ذریعہ انجام پائے خدمات کی مختصر جھلکیاں پیش خدمت ہے۔
(1)حضرت مولانا محمدعثمان غنی یکم جنوری1896کوایک خوشحال زمیندارخاندان میں پیدا ہوئے،ابتدائی تعلیم گھر میں مکمل کرنے کے بعد1328ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے،بالآخر1335میں فراغت حاصل کی۔حضرت مولانا کے چھوٹے چچا مولانا شاہ ولایت حسین فاضل دیوبند کے مولانا عبیداللہ سندھی سے نہایت گہرے مراسم تھے،اس وجہ سے مولانا سندھی آپ پر خاص توجہ اورشفقت فرماتے تھے۔آپ نے مولانا علامہ انورشاہ کشمیری سے شرف تلمذ حاصل کیا،صاحب نسبت اورشیخ طریقت بزرگ حضرت شاہ فدا حسین دیورہ ضلع گیا سے علوم طریقت حاصل کیا اوران کی طرف سے بیعت وارشاد کے مجاز بھی تھے؛مگر عملاً اس کو اختیار نہیں کیا۔مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ ہندوستان کی آزادی کی عملی جدوجہد سے وابستگی کے ساتھ ملت اسلامیہ کے استحکام اوربقا کے لیے ایک ایسی تنظیم کے لیے فکر مند تھے،جو کتاب وسنت سے ماخوذ ہو اورجو مسلم معاشرہ میں اسلامی قوانین کے اجزاونفاذ کے لیے پوری طرح ذمہ دار ہو۔اس مقصد کے لیے19شوال1339 مطابق26جون1921کو مولاناآزاد کی صدارت میں پٹنہ میں انجمن علماء بہار کا ایک غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا اوراس اجلاس میں امارت شرعیہ بہارکا قیام عمل میں آیا۔خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین صاحب علیہ الرحمہ امیر شریعت اول اورمولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ نائب امیر شریعت اول منتخب ہوئے اورنوارکان پر مشتمل مجلس شوریٰ تشکیل ہوئی،جن میں حضرت مولانا سید شاہ محمد محی الدین قادری امیر شریعت ثانی،حضرت مولانا عبدالوہاب دربھنگہ،حضرت مولانا سید سلیمان ندوی،حضرت مولانا قاضی شاہ محمد نورالحسن ،حضرت مولانا عبدالاحد جالے دربھنگہ،حضرت مولانا فرخند علی سہسرامی،حضرت مولانا کفایت حسین،حضرت مولانا زین العابدین اورحضرت مولانا محمد عثمان غنی کے نام قابل ذکر ہیں۔مجلس شوریٰ نے حضرت مولانا محمد عثمان غنی کو امارت شرعیہ کا پہلا ناظم مقررکیا،جس وقت آپ ناظم مقرر ہوئے،آپ کی عمر26سال تھی۔بانی امارت شرعیہ نے مولانا محمدعثمان غنی کے والد محترم کو’دیورہ‘ خط لکھا کہ’’عثمان غنی کو میں نے امارت شرعیہ کی نظامت کے لیے بلایا ہے،آپ ان کو اجازت دے دیجئے گا،روکئے گا نہیں‘‘۔آپ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد اورشاہ محمد قاسم علیہم الرحمہ کے ساتھ9ذی قعدہ1339کو پھلواری شریف پہنچے اورخانقاہ مجیبیہ کے ایک کمرے کو جو جنوب کی طرف بڑے دروازے کی دوسری منزل پر ہے،دفتر کے لیے پسند کیا،اس طرح9ذی قعدہ1339کو خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف میں امارت شرعیہ کا تاریخی دفتر قائم ہوا۔1924میں امارت شرعیہ نے ایک پندرہ روزہ اخبار نکالنا طے کیا اوراس کا نام’’امارت‘‘رکھا،جس کا پہلا شمارہ یکم محرم 1343ھ کو مولانا محمد عثمان غنی کی ادارت میں منظر عام پر آیا،اس اخبار کی ادارت اورامارت شرعیہ کی نظامت کے علاوہ مولانا شاہ عباس پھلواروی کے انتقال کے بعد دارالافتاء امارت شرعیہ کے آپ ہی مفتی مقرر ہوئے ۔امارت کے پہلے شمارے سے مولانا کے بلند مرتبہ اورصاحب طرز صحافی ہونے کے ساتھ ادب وصحافت کے میدان میں آپ کی حق گوئی اوربے باکی کے اوصاف نمایاں ہونے لگے،انگریزی حکومت میں اعلان حق وصداقت دارورسن کی آزمائش کو دعوت دینے کے مترادف تھا؛لیکن مولانا کبھی مرعوب نہیں ہوئے،حکومت برطانیہ کی فراگزشتوں پر نہایت جارحانہ انداز میں گرفت کرنے کے نتیجے میں حکومت نے آپ کی تحریروں پر باربار مقدمے چلائے اوربالآخر جرید’’امارت‘‘کوغیر قانونی قراردے کر بند کردیا۔اس کے بعد اخبار’’نقیب‘‘کا اجرا عمل میں آیا،اس کے قانونی ایڈیٹر اس کے منیجر مولوی صغیرالحسن ناصری مرحوم تھے؛لیکن عملاً اس کے مدیر بھی مولانا ہی تھے۔ہندوستان کی آزادی کے بعد1949کے شمارہ سے ایڈیٹر کی حیثیت سے پھر آپ کا نام آنے لگا۔حضرت مولانا محمد عثمان غنی بیک وقت امارت شرعیہ ناظم،مفتی،ایڈیٹرغرض سب کچھ تھے،26ذی الحجہ1397ھ مطابق8دسمبر1977کو پھلواری شریف میںانتقال ہوا اورقبرستان خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف میں مدفون ہوئے۔
(2)جناب قاضی سید احمد حسین امارت شرعیہ بہارکے ناظم،ممبرپارلیمنٹ،خلافت تحریک کے بانیوں،انڈیپنڈنٹ پارٹی بہار کے رکن،ملت کے بے لوث خادم اور رہنما تھے۔14سال کی عمرمیںقرآن مجید حفظ کر لیا تھا اور اردو فارسی کی کتابیں پڑھی تھیں، اس کے بعد انہوں نے کہیں با قاعدہ تعلیم نہیں حاصل کی؛ لیکن مسلسل مطالعہ اور جدید وقدیم علماء کی صحبت نے ان کے علم میں جلا پیدا کردی تھی،جونپور کے معروف صوفی بزرگ عبد العلیم آسی کی خدمت میں رہ کر تصوف کی تعلیم حاصل کی،اپنے وطن گیا سے تعلیم بالغان کے ساتھ ملی وسماجی کاموں سے منسلک ہوگئے، وقت گزرنے کے ساتھ ان کے ہندوستان کی سیاسی تحریکات اور سیاسی شخصیتوں سے روابط پیدا ہوگئے اورقاضی صاحب ہی حضرت مولانا ابوالمحاسن محمدسجاد اورمولانا ابوالکلام آزادکی فکری یکجائی کاسبب بنے۔قاضی صاحب کی دینی اور ملی خدمات میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے حضرت مولاناابوالمحاسن محمد سجادعلیہ الرحمہ کا بھرپور ساتھ دیا، جمعیۃ علماء، امارت شرعیہ اور مدرسہ انوار العلوم کے قیام میں ان کی پوری مدد کی اورتمام اخراجات کی ذمہ داری کو بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔حضرت مولانا محمدسجاد اورقاضی احمد حسین کی محنتوں سے اکتوبر1917ء میں گیا شہر میں انجمن علماء بہار کی بنیاد پڑی،اس کا پہلا اجلاس بہار شریف کے مدرسہ عزیزیہ میں5شوال1336ھ کومنعقد ہوا،اس میں پچاس (50)علماء ومشائخ نے شرکت کی تھی،اس انجمن علمائے بہارنے مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کی قیادت میں جمعیۃ علماء ہند کی راہ ہموار کی اور1919ء میں جمعیۃ علماء ہند قائم ہوگئی۔قاضی احمد حسین صاحب قدم قدم پر مولانا ابو المحاسن محمدسجادکے رفیق رہے ،امارت شرعیہ اور جمعیۃ علماء دونوں کی سر گرمیوں میں انہوں نے حصہ لیا اور پھر وہ وقت آیا کہ انہوں نے خلافت تحریک اور کانگریس میں بھی شمولیت اختیار کی اور خلافت تحریک کی پہلی شاخ گیا شہر میں قائم ہوئی اوریہ شاخ قاضی احمد حسین صاحب کی بدولت سب سے زیادہ سر گرم اور متحرک تھی اور پھر وہ وقت بھی آیا،جب 1921ء کی ایک رات خلافت کانفرنس گیا کے دفتر پر پولس کاچھاپاپڑا، قاضی صاحب گرفتار کر لیے گئے اور انہیں بغاوت کے الزام میں چھ ماہ کی قید بامشقت کی سزا دے دی گئی، احتجاجاً شہر گیا کی تمام دکانیں بند ہوگئیں اور سرکاری دفاتر میں بھی بہت سے لوگ نہیں گئے۔قاضی صاحب کی شخصیت ملکی اور ملی خدمات کے اعتبار سے سب سے زیادہ مقبول ومتعارف تھی، ملک عبد العزیز بن سعود کے حجاز پر قبضہ کرلینے کے بعدعالم اسلام کی ایک وفد1926 ء میں مکہ معظمہ بلائی گئی، جس میں عالم اسلام کے ساٹھ اعیان ومشاہر شریک ہوئے، جس میں ہندوستان سے 13 علماء وقائدین تھے ،اس وفد میں مولانا محمد علی جوہر اور علامہ سید سلیمان ندوی کے ساتھ قاضی صاحب بھی شامل تھے۔بہارمیں مجلس قانون ساز بننے کے بعدانتخابی سیاست میںحصہ لینے کے لیے انڈیپنڈنٹ پارٹی اور نیشنلسٹ مسلم پارلمنٹیری بورڈ کا قیام عمل آیا تو قاضی صاحب اس میں ایک سر گرم اور فعال رکن کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور الیکشن میں کامیاب بھی ہوئے؛ لیکن وہ کونسل کی ممبری کو ملی اور قومی مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔ قاضی صاحب نے ہندستان کی تاریخ میں اوقاف کے مسئلہ میں بھی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا اور ان تمام کاموں کے ساتھ ساتھ امارت شرعیہ کے تمام کاموں میں ذوق وشوق کے ساتھ حصہ لیتے تھے اور امارت کی مجلس شوری نے ایک سب کمیٹی مجلس انتخابات کے نام سے بنائی تو اس کے سکریٹری قاضی صاحب تھے اور جوائنٹ سکریٹری امیر شریعت رابع مولاناسید شاہ منت اللہ رحمانی تھے، انڈیپنڈنٹ پارٹی کی تمام میٹنگس میں مولانا ابو المحاسن محمد سجاد صاحب کے ساتھ وہ بھی ایک رکن کی حیثیت سے شریک رہتے تھے۔بانی امارت شرعیہ کے انتقال کے بعد قاضی صاحب انڈیپنڈینٹ پارٹی کے صدر منتخب ہوئے اور جب بہار میں مسلم پارلمنٹری بورڈ کا قیام عمل میں آیا تو مولانا حفظ الرحمن صاحب کی تجویز پر قاضی صاحب بہار کی شاخ کے صدر بنائے گئے،اسی دوران کانگریس کو بہار اسمبلی میںکچھ ممبر کونسل کا انتخاب کرنا تھا تو ڈاکٹر راجندر پرشاد کی خواہش پر ایک ممبر قاضی صاحب کو بنائے گئے؛ کیوں کہ اس سے جمعیۃ علماء اور امارت شرعیہ دونوں کی نمائندگی ہوجاتی تھی، اس کے بعد وہ وقت بھی آیا کہ قاضی احمد حسین صاحب پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔قاضی صاحب امارت شرعیہ، جمعیۃ علماء بہا ر اور انڈپینڈنٹ کے سارے کاموں میں مولانا ابو المحاسن مولانامحمد سجاد صاحب کے دست راست تھے،گھر کے زمیندار ہونے کے ناطے اکثرمالی تعاون بھی کیا کرتے تھے ۔حضرت امیر شریعت دوم مولانا محی الدین قادری کے اصرار پر انہوں نے با ضابطہ ناظم امارت شرعیہ اور ناظم بیت المال کا عہدہ قبول کرلیا تھا اور پھر مسلسل دو مرتبہ پارلیمنٹ کے ممبر نامزد ہونے کی وجہ سے پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات اور مسائل سے ان کی بہت گہری دلچسپی تھی۔
(3)حضرت مولانا عبدالصمد رحمانی علیہ الرحمہ ایک متبحر عالم دین،بے مثال فقیہ،بلند پایہ محقق،کثیر الصفات مصنف اورروحانی کمالات کے حامل تھے،وہ اپنے علم وفضل،ہدوتقویٰ،سادگی وبے نفسی اورعاجزی وخاکساری میں علمائے سلف کی زندہ یادکار تھے،وہ قطب عالم حضرت مولانا سید شاہ محمد علی مونگیری کے ساختہ وفیض یافتہ اورمفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد بانی امارت شرعیہ کے شاگرد رشید اورسچے جانشیں تھے۔مولانا مونگیری کی روحانی اورمولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کی تربیت ورفاقت نے ان کی ذات کو کندن بنادیا تھا۔ان کی زندگی علم اورسیاست کا شاندار مرقع تھی،ان کا سینہ علوم ومعارف کا خزینہ اورقومی وملی تحریکات کے رازہائے سربستہ کا امین تھا۔سیاسی زندگی کے شوروہنگامہ کے باوجود انہوں نے ہمیشہ اپنی علمی وتحقیقی مشغلہ جاری رکھا،وہ جنگ آزادی کے بطل جلیل اورملک وملت کے مسائل پر گہری نظر رکھنے والے تھے۔مولانا سید شاہ محمد علی مونگیری کے وصال کے بعداپنے شفیق استاذ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ کی دعوت پر خانقاہ رحمانی مونگیر سے پھلواری شریف منتقل ہوگئے اورامارت شرعیہ کے مرکزی دفتر کے نگراں اعلیٰ مقرر ہوئے،امارت شرعیہ کے تعارف اوراس کے پیغام سے مسلمانوں کو روشناس کرانے کے لیے مقالات،مضامین،پمفلٹ اورکتابیں لکھیں۔تنظیم امارت قائم کی،نقباء کا انتخاب کیا،ہر مسلم آبادی کو مرکزسے جوڑنے اورتمام مقامی مسائل ومشکلات کو شریعت کی روشنی میں حل کرنے کا نظام بانی امارت شرعیہ کی ہدایات کی روشنی میں بنایا اورنقباکو اس تنظیم کا مقصد اورطریقہ کار سمجھایا اورامارت شرعیہ کو بام عروج تک پہنچایا۔بانی امارت شرعیہ کے انتقال کے بعد نائب امیر شریعت نامزد ہوئے،امیر شریعت رابع نے قاضی احمد حسین صاحب کے انتقال کے بعدنائب امیر شریعت کے ساتھ نظامت کی اضافی ذمہ داری سونپ دی۔حضرت مولانا عبدالصمد رحمانی نے اپنے استاذ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کے ساتھ جہاں علم وتحقیق اورتعلیم وتربیت کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیئے،وہیں دینی وملی تحریکات کے ذریعہ ملت اسلامیہ کی بے لوث خدمت بھی انجام دیں۔وہ مدرس اورمعلم بھی رہے اورامارت شرعیہ کے ناظم اورمفتی بھی اورازہرالہند دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے معزز رکن بھی اورپوری زندگی علمی اورقومی وملی خدمات میں گزاری۔
(4)حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی علیہ الرحمہ ممتاز عالم دین،مفکر، دانشور اور فقیہ تھے۔ 1951ء سے لے کر 1955ء تک چار سال مستقل دار العلوم دیوبند میں زیر تعلیم رہے اور امتیازی نمبرات سے سند فراغت حاصل کی۔تحصیل علم کے بعدقاضی صاحب جامعہ رحمانی مونگیر میں درس و تدریس سے منسلک ہو گئے۔حضرت مولانا عبدالصمد رحمانی نائب امیر شریعت کے ساتھ امارت شرعیہ کے ناظم بھی تھے،مولانا رحمانی کی عمر زیادہ تھی اوروہ ضعیف ہوچکے تھے؛اس لیے امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی علیہ الرحمہ نے قاضی مجاہدالاسلام قاسمی علیہ الرحمہ سے پوچھا کہ آپ امارت شرعیہ جاسکتے ہیں؟قاضی صاحب نے آمادگی ظاہر کردی اور1962میں حضرت امیر شریعت نے قاضی صاحب کوناظم اورقاضی کی دوہری ذمہ داری کے ساتھ امارت شرعیہ بھیجا۔قاضی مجاہدالاسلام قاسمی نے امارت شرعیہ میں داخل ہوتے ہی اپنی خداداد صلاحیت سے دونوں ذمہ داریوں کو سنبھالا اورامارت شرعیہ کے جسم ناتواں میں تازہ روح پھونکنے کی کوشش کی اور امارت شرعیہ کی تعمیر وترقی میں ایسے منہمک ہو گئے کہ امارت شرعیہ ان کی زندگی کا حصہ بن گیا اور اپنی زندگی کے تقریبا 35 سال امارت شرعیہ میں گزار دیا۔1963میں چترا میں دارالقضاء کا افتتاح تھا،حضرت امیر شریعت رابع،حضرت مولانا عبدالصمد رحمانی اورقاضی صاحب اس تقریب میں شریک تھے،اس وقت مولانا سید نظام الدین صاحب امیر شریعت سادس مدرسہ رشید العلوم چترا میں صدرمدرس کی خدمت انجام دے رہے تھے،قاضی صاحب نے مولانا سید نظام الدین صاحب سے اصرار کیاکہ آپ امارت شرعیہ آکر نظامت کے عہدہ کو سنبھالیں،ہم دونوں مل کر امارت کے اصل مقصد پر کام کریں گے۔آخرکار قاضی صاحب کے اصرارپر مولاناسید نظام الدین صاحب 1964کے آخر میں امارت شرعیہ آگئے،حضرت امیر شریعت رابع نے قضا کے عہدہ پر قاضی صاحب کو باقی رکھا اورنظامت کا عہدہ مولانا نظام الدین کے سپرد کردیا۔ اس درمیان وہ منصب قضا پر فائز ہوکر ہزاروں مشکل اور پیچیدہ مسائل کے فیصلے کئے، اللہ تعا لی نے فیصلہ سازی کا بہترین ملکہ ان کو عطا کیا تھا، پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ کو بھی آپ منٹوں میں حل کر دیتے۔ امارت شر عیہ کے نظام قضا و افتاء کو ملک و بیرون ملک پہنچایا اور ملک کے مختلف علاقوں میں دارالقضاء قائم کروائے، یہاں تک کہ قاضی ان کے نام کی شناخت بن گئی۔ انہوں نے اپنی مسلسل اور مخلصانہ جدوجہد سے امارت شر عیہ کو ایک معتبر اور با وقار ادارہ بنانے میں پورا ساتھ د،یا امارت شرعیہ کے پیغام کو عام کرنے اور اس کی خدمات کے دائرہ کو وسیع کرنے میں ان کا اہم رول ہے، یوں تو حضرت قاضی صاحب ؒ متنوع خصوصیات کے حامل تھے، وہ بیک وقت ایک بے مثال فقیہ، نامور عالم دین، کامیاب مدرس، با بصیرت قاضی، شعلہ بیاں مقرر، مایہ ناز مفکر اور مدبر تھے تو وہیں ایک بہترین انشا پرداز، صاحب طرز ادیب اور بلند پایہ نثر نگار بھی تھے۔24جون1999ء کو حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب امیر شریعت سادس نے آپ کو نائب امیر شریعت نامزد کیا۔4اپریل2002ء میں آپ کا انتقال ہوگیا،مہدولی دربھنگہ میں مدفون ہیں۔
(5)حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب علیہ الرحمہ کی شخصیت ہندوستان کی معروف ترین شخصیات میں سے تھی، دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ کے مؤقر رکن، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری اور امارتِ شرعیہ پٹنہ ناظم اور چھٹے امیر شریعت تھے۔ علم وعمل، امانت ودیانت، ذہانت وفطانت، تقویٰ وطہارت، نرم گوئی، گرم جوشی، علمی، دینی، ملی، قومی اور ادبی خدمات کی وجہ سے ہر حلقے میں مقبول اور قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔آپ کی خلوت عبادت وریاضت سے سرشار اور جلوت خوش خلقی اور خوش مزاجی سے لبریز تھی۔امارتِ شرعیہ سے آپ نے اس کی بنیاد سے اپنے دم واپسیں تک تعلق رکھا، دیکھا بھالا اور پروان چڑھایا، آپ کے زمانے میں امارت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے خوب خوب ترقی کی۔1964سے 1998تک نظامت کے فرائض انجام دیئے۔امیر شریعت خامس حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب کے انتقال کے بعد آپ امیر شریعت سادس منتخب ہوئے۔آپ کے دور نظامت میں امارت کے بنیادی شعبوں میں نئی جان آگئی،بیت المال میں استحکام پیدا ہوا،ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل میں بروقت فیصلے ہوئے،آپ کی نظامت کا دور34سالوں پرمحیط ہے،بحیثیت ناظم آپ نے امارت شرعیہ کے تمام شعبہ جات کی ترقی،استحکام اوراس کو وسعت دینے میں اہم کردار اداکیا،امارت شرعیہ کی شہرت،مقبولیت اوروقار میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔17اکتوبر2015کوآپ نے دنیا کو الودواع کہا اورپھلواری شریف میں واقع حرمین کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔
(6)حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی ایک عالم باکمال ، تجربہ کار مربی، بیدا ر مغز مدبر ومنتظم، نرم وگرم چیدہ رہبر ، ماہر فقہ وقضا، سیاسی بصیرت کے مالک ، صاحب فکر ونظر ، مؤلف ومصنف ، پیکر سادگی ، کم گواور بہت سارے اداروں کے سر پرست ہیں۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں ہوئی،اس کے بعدمدرسہ ریاض العلوم ساٹھی میں داخل ہوئے اورمتوسطات تک تعلیم حاصل کی،اس کے بعد تحصیل علم کے لیے ۱۹۷۳ء میں دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے،وہاںچھ سال تک ما ہر فن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا ۔حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمد طیبؒ،حضرت مولانا شریف الحسن صاحبؒ،شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر احمد خاںؒ،مولانا معراج الحق دیوبندی ( 2008ء)فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ(1996ء)حضرت مفتی ظفیر الدین مفتاحیؒ، مولانا محمدسالم قاسمی صاحبؒ جیسے اکابر علما ومشایخ سے علمی تشنگی بجھائی ۔1978ء میں دورئہ حدیث کی تکمیل کی اور سند فضیلت حاصل کی ۔ امتیازی نمبرات پانے کی وجہ سے شعبہ افتا میں داخل ہوئے،چناںچہ 1979ء میں دارالعلوم دیوبندہی افتاکیا، فراغت کے بعد ایک سال مزید رہ کر تحقیق وتصنیف کا کام کیا۔حضرت امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی علیہ الرحمہ دارالعلوم دیوبند کے مجلس شوریٰ کے ممبرتھے،مولانا انیس الرحمن قاسمی کے قیام دارالعلوم دیوبندکے دوران مجلس شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ الرحمہ حضرت امیر شریعت رابع علیہ الرحمہ کے ساتھ تشریف لاتے تھے،مولانا انیس الرحمن قاسمی کے مراسم اورتعلقات خانقاہ رحمانی کے بزرگوں سے اسی زمانہ سے تھے۔مولانا سید محمد ولی صاحب نے مولانا کی کتاب’’جوانان چمن‘‘اور’’مصنفین زنداں‘‘کو پسند کیا تھا اورامام ابن تیمیہ پر آپ کی تحقیق میں تعاون فرماتے ہوئے امام ابوزہرہ کی کتاب’’ابن تیمیہ‘‘لاکر دیا تھااورفرمایاتھا کہ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد جامعہ رحمانی مونگیر آجائیں،چنانچہ فراغت کے بعد1980کے اواخر سے آپ کے حکم سے جامعہ رحمانی مونگیر میں بحیثیت استاذاپنی خدمات انجام دی۔اسی دوران حضرت مولانا سید نظام الدین امیر شریعت سادسؒ اورحضرت مولاناقاضی مجاہد الاسلام قاسمی نوراللہ مرقدہ سے مولانا انیس الرحمن قاسمی کی ملاقات ہوئی،ان دونں بزرگوں نے حضرت امیر شریعت رابع علیہ الرحمہ سے بات کی اوران کی اجازت کے بعد جامعہ رحمانی مونگیر سے منتقل ہوکر آپ امارت شرعیہ آگئے،جہاں آپ کوحضرت امیر شریعت رابع علیہ الرحمہ نے امارت شرعیہ کے ’’شعبہ دار القضاء‘‘ میں خدمت پر مامور کردیا،پہلے ’’معاون قاضی‘‘ کی حیثیت سے متعین ہوئے،پھر اپنی فرض شناسی اور قابلیت کی بہ دولت ترقی کی منزلیں طے کیں۔ چند سالوں کے بعد ’’نائب قاضی ‘‘کے منصب پر فائز کئے گئے اور عرصہ تک حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی علیہ الرحمہ کی نگرانی میں قضا کی خدمت انجام دی، یہاں تک کہ آپ کا شمار یہاں کے قابل ترین قاضیوں میں ہونے لگا۔حضرت امیر شریعت رابع علیہ الرحمہ نے آپ کو ابتدامیں مسلم پرسنل لابورڈ کی میٹنگوں میں بحیثیت مدعوشرکت کرنے کا حکم دیا،کچھ سالوں کے بعد آپ کو بورڈ کا ممبر نامزد کیا اورکچھ ہی عرصہ کے بعد رکن تاسیسی بنادیا۔حضرت امیر شریعت رابع کا اعتماد واعتبار ہی تھا کہ آپ کئی کمیٹیوں میں شامل رہے۔حضرت امیر شریعت خامس مولانا عبدالرحمن صاحب نے 29ستمبر1998کو داعی اجل کو لبیک کہا۔یکم نومبر1998حضرت امیر شریعت سادس مولاناسیدنظام الدین صاحب امیر شریعت منتخب ہوئے۔جس کی وجہ سے نظامت کا عہدہ خالی ہوگیا،حضرت امیر شریعت سادس علیہ الرحمہ اورحضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی علیہ الرحمہ نے مولاناانیس الرحمن قاسمی کوامارت شرعیہ کی نظامت سپرد کی۔حضرت مولانا نے امارت شرعیہ کی نظامت کو پوری ہوش مندی اور بیدار مغزی کے ساتھ اس کی حفاظت اور ترقی میں لگ گئے،بے شمار ملی و فلاحی کام انجام پائے،ذیلی دار القضاء کی مختلف شاخیں بہار، اڈیشہ وجھار کھنڈ میں قائم ہوئیں،حضرت امیر شریعت سادس کے زمانہ تک 55دارالقضاء مرکزی دارالقضاء کی نگرانی میں قائم ہوئے،جن میں سے35دارالقضاء نئے تھے،نیزدارالقضاء کی بلڈنگ کی تعمیرکا کام بھی انجام پایا۔مفکراسلام امیر شریعت سابع مولانا سید محمد ولی رحمانی کے زمانہ امارت میں دارالقضاء کے کاموں میں مزید وسعت ملی اورتیرہ(13)نئے دارالقضاء قائم ہوئے۔بیت المال کے استحکام کی صورت حال یہ تھی کہ1964میں حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب کے امارت شرعیہ کے ناظم بننے کے بعدسے1998تک میں امارت شرعیہ کا بجٹ62لاکھ تھا،1998میں مولانا انیس الرحمن قاسمی ناظم بنائے گئے اورایک سال کی محنت میں امارت شرعیہ کا بجٹ ایک کروڑچونتیس لاکھ پر پہونچ گیا اور2019میں یہ بجٹ سات کروڑتک چلا گیا،جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کارکنان سے کام لینے کا ہنر ہوتوکچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔اس کے علاوہ بہت سے ٹکنیکل ادارے قائم ہوئے،1992میں مولانا منت اللہ رحمانی ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح ہوا،1993میں امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفئرٹرسٹ قائم ہوا،قاضی مجاہدالاسلام قاسمی علیہ الرحمہ کے انتقال کے بعد اس کے آپ جنرل سکریٹری بنائے گئے۔1995میں امارت مجیبیہ ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ دربھنگہ میں ،1997میں امارت ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ پورنیہ میں،2000میں ریاض آئی ٹی آئی ساٹھی میں،2002میں امارت عمر ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ راورکیلا میںقائم ہوئے،ٹرسٹ کے ماتحت لڑکوں کے لیے امارت انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹر اورلڑکیوں کے لیے ڈاکٹر عثمان غنی کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ قائم ہوئے۔امارت شرعیہ میں تحفیظ القرآن کی بلڈنگ کی تعمیر کا کام انجام پایا۔FCIروڈ پھلواری شریف پٹنہ میں18کٹھہ زمین کی خریداری گئی،پھر اس میں ہاسٹل اورلائبریری کی تعمیر ہوئی۔پورنیہ،ارریہ،بہارشریف،سہرسہ،کشن گنج،کٹیہار،دملہ مدھوبنی،چترپور اورسیوان میں دارالقضاء اوردفتر کے لیے بلڈنگ کی تعمیر ہوئی۔راورکیلا میں شفاخانہ کی تعمیر بحسن وخوبی تعمیر ہوئی۔دارالعلوم الاسلامیہ کی مسجد اوردرسگاہ کی عمارت وغیرہ کی تعمیر کے علاوہ بے شمار کام ہوئے جو مستقبل ایک روشن باب ہے۔جمشید پور میں اسپتال کی تعمیر،مہدولی دربھنگہ میں دفتر دارالقضاء کی تعمیرکاکام مکمل ہوا۔اسلامک ڈولپمنٹ بینک جدہ کے ممبر ہونے کی وجہ سے بڑا فائدہ ہوا،گریڈیہہ،رانچی،راورکیلا اورپٹنہ میں ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ کی بلڈنگ تعمیرمیں اسلامک دولپمنٹ بینک سے مالی تعاون حاصل کیاگیا۔مولانا سجاد میموریل اسپتال میں اضافے کے لیے زمین کی خریداری ہوئی اورممبرپارلیمنٹ رام کرپال یادو کے ذریعہ تعمیر کے مراحل کو مکمل کروایا گیا۔ مرکزی دفتر کی تیسری منزل اور جدید مہمان خانہ کی تعمیرہوئی۔گریڈیہہ اوررانچی[جہاں میں بھی مولانا کا ہم سفر رہا] اور مختلف اضلاع میں دفاتر اور اسکول کے لیے اراضی کی خریداری ہوئی۔تعلیم اور خدمتِ خلق کے میدانوںمیںوسعت ہوئی،حکومت بہار اورحکومت ہند کی اسکیم سروشکچھا ابھیان اورہنروپروگرام سے بیس ہزار سے زائد بچے اوربچیوں کونئے سرے سے تعلیم سے جوڑا گیا۔امارت شرعیہ کے وفود کے دوروں میں نئی قوت وتوانائی پیدا ہوئی ۔ شعبہ دعوت وتبلیغ،شعبہ تصنیف وتالیف سمیت کئی شعبہ جات مزید قائم کئے گئے۔ اُن کی اِن خدمات کے باعث امارت شرعیہ کا وقار واعتبار بلند ہوا۔حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی کی خدمات کا دائرہ چالیس سالوں پر محیط ہے۔
زبان وقلم اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے،قلم کے ذریعہ اللہ پاک نے بے علم انسانوں کو علم کے زیور سے آراستہ کیااورانسان کو وہ سب کچھ سکھایا، جس سے وہ نا آشناتھا،افکاروخیالات اورفکر ونظرکی ترسیل کازبان ایک اہم ذریعہ ہے،لیکن خطابت و تقریروقتی ہوتی ہے،جب کہ فکرونظرکے ذریعہ وہی ہوتی نوک قلم سے صفحہ قرطاس پر بکھرنے کے بعد حیات جاودانی حاصل کرلیتے ہیں،بہت سارے بے نظیر صلاحیتوںکے مالک ،خطابت کے شہ سوار،فکرونظرکے بادشاہوں کی باشاہت ان کی وفات کے ساتھ ختم ہوتی ہے،وہ علم کے موتی جو ان کے خطابت کا جوہر ہواکرتے تھے ،وہ فضامیں تحلیل ہو کر ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے،لیکن جو بات قلم کی گرفت میں آجاتی ہے ،اسے قدرت حیات ابدی کانوید خود ہی سنا دیتی ہے،مولاناانیس الرحمن قاسمی صاحب کو بخشنے والے رب نے قلم کی دولت سے بیش بہا سرمایہ عطا کیا ہے،ان کی کتابیں شوق کے آنکھوں سے پڑھی جاتی ہیںاوردل کے ہاتھوں سے لی جاتی ہیں۔اب تک حضرت مولاناکے گہر بار قلم سے چھوٹی بڑی تقریباًبیسیوں کتابیں چھپ چکی ہیں ،جن میں :(1) طہارت کے احکام ومسائل(2) لباس کے احکام ومسائل(3)کھانے،پینے،سونے کے احکام ومسائل(4) خلع کا اسلامی طریقہ (5)تعمیرات کے احکام ومسائل(6) مصنفین زندان(7)اسلامی حقوق (8)مکارم اخلاق(9)مولانا سجاد : حیات وخدمات (مجموعہ مقالات ومضامین از اصحاب قلم)(10) حیات سجاد (مجموعہ مضامین ومقالات)(11) خطبات جمعہ (اردو )(12)مقالات انیس (مرتبہ : نیر اسلام قاسمی)(13)تعلیم کی اہمیت (14)اصلاح ِ معاشرہ اورسماج کی ذمہ داریاں(15)معاشرتی اصلاح(16)ہمارا خاندان کیساہو؟(17) الشیخ ابن تیمیہ وافکارہ (عربی)(غیر مطبوعہ)(18)اخلاقیات الحرب فی السیرۃ النبویۃ (عربی)(غیر مطبوعہ)قابل ذکر ہیں۔
Comments are closed.