افغانستان کے پچاسی فیصد علاقے پر طالبان کا قبضہ

عبدالرافع رسول
طالبان افغان تاجک سرحد کے دو تہائی حصے پر قبضہ کر چکے ہیںجبکہ ایران کے ساتھ بارڈر پر ایک اہم سرحدی گزر گاہ کے ساتھ ساتھ افغانستان کی دو انتہائی اہم تجارتی گودیوں پر بھی طالبان نے قبضہ کر لیا ہے۔ ایرانی سرحد کے قریب اسلام قلعہ ملک کی اہم کمرشل پورٹس میں سے ایک ہے۔ صوبائی کونسل کے رکن حبیب ہاشمی کے مطابق وہاں بغیر کسی مزاحمت کے ہی تمام تر انتظام طالبان کے حوالے کر دیا گیا۔ بدعنوانی کے باوجود اس پورٹ سے کسٹم ڈیوٹی کی مد میں حکومت کو یومیہ تقریبا چار ملین ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔ اگرچہ یہاں تمام تجارتی سرگرمیاں روک دی گئی ہیں تاہم دوبارہ بحال ہونے پرکسٹم ڈیوٹی کی مدمیں آنے والے یومیہ چارملین امریکی ڈالرطالبان امارت اسلامی کے پاس جمع ہوجائیں گے۔اسی دوران طالبان نے شمال میں واقع تورغندی پورٹ پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ یہ ترکمانستان کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ہے۔ تورغندی افغانستان کے لیے اہم ترین تجارتی راستوں میں سے ایک ہے۔ ملک میں گیس، ایندھن اور تیل سمیت کئی مصنوعات کا بڑا حصہ اسی راستے سے درآمد کیا جاتا ہے۔ یہ تجارتی گودی افغان مصنوعات یورپ سمیت عالمی منڈیوں کو برآمد کرنے کا بھی ایک اہم راستہ ہے۔جمعہ 9جولائی 2021ماسکو کے دورے پرآئے ہوئے طالبان کے ایک وفد نے کہا کہ افغانستان کے 85 فیصد علاقے اس وقت طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔افغانستان کی بیس سالہ جنگ کے بعدامریکی قیادت والی نیٹوقابض افواج افغانستان سے اپنا انخلا تیز کر چکی ہیں جبکہ طالبان کو پے در پے کامیابیاں مل رہی ہیں اور وہ ملک کے مزید علاقوں پر فتح حاصل کرتے جا رہے ہیں۔گذشتہ دنوں طالبان کے ایک حملے کے بعدخوفزدہ ہوکر سینکڑوں افغان فوجی سرحد عبور کرتے ہوئے تاجکستان فرار ہو گئے تھے۔
اس سے قبل کابل کے چاروں اطراف طالبان کی نقل و حرکت بڑھ رہی ہے کے بیش نظراتوار4اور5جولائی 2021کی شب کی تاریکی میں 20 برس کے جبری قبضے کے بعدقابض امریکی فوجی چپکے سے بگرام کے قلعہ نمافوجی ائیربیس’’افغانوں کاتعذیب خانہ اورمجاہدین کی قتل گاہ‘‘ چھوڑکربھاگ گئے۔ڈاکوئوں کی طرح فراراختیارکرنے اورچوروں کی طرح بھاگ کے 20 منٹ قبل امریکی فوجیوں نے پورے علاقے میں بجلی بند کر دی جس سے ائیربیس کے باہر چاروں اطراف گھپ اندھیرا چھاگیا،اسی اندھیری شب میں طیاروں میں بیٹھ کرانہوںنے گھرکی راہ لی اورائیربیس سے چلے گئے۔امریکی فوج کی چھوڑی ہوئی قیمتی اشیا ء جن میں ایسی سویلین گاڑیاں، جن میں سے اکثر کی چابیاں موجود نہیں اور سینکڑوں بکتربند گاڑیاں بھی شامل ہیں۔ امریکی فوج چھوٹا اسلحہ مع ایمیونیشن بھی چھوڑگئے جبکہ بھاری اسلحے کی ایمیونیشن کو نہوں نے آگ لگا کرتباہ کردیا۔بلاشبہ امریکی فوج کابگرام فوجی ائیربیس سے رات کی تاریکی میں اچانک بھاگ جانا عین لٹیروں کی مانند تھا۔جآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔صدق اللہ العظیم۔
کابل سے50 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود یہ فوجی ائیربیس مجاہدین اورعام افغان شہریوں کاتعذیب خانہ اورانکی قتل گاہ بنی رہی اوریہاں انکے ساتھ دل دہلانے والے مظالم اورسفاکیت کے ناقابل بیان سانحات پیش آئے ۔ اس فوجی اڈے میں پانچ ہزار اسیران کی ایک جیل بھی موجود ہے جس میں اطلاعات کے مطابق اب بھی اکثر طالبان قیدہیں۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی صاحبہ بھی مدت تک یہیں پابندسلاسل اورامریکی فوجیوں کی عتاب کاشکاربنی رہیں۔یہ فوجی ائیربیس ایک وسیع علاقے پر قائم ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہاں ایک چھوٹا سا شہر آباد تھا جو صرف امریکی اور نیٹو فورسز کے زیرِ انتظام تھا۔ اس کی وسعت دیکھنے کے قابل ہے اور یہاں موجود سڑکیں بیرکس سے ہوتی ہوئی عمارتوں تک پہنچ جاتی ہیں۔یہاں دو رن وے موجود ہیں اور طیاروں کے لیے پارکنگ کی100 مقامات بھی موجود ہیں جن کے اردگرد دھماکوں سے محفوظ رکھنے والی دیواریں موجود ہوتی ہیں۔بگرام ائیربیس کا ایک رن وے12 ہزار فٹ لمبا ہے اور اسے 2006 تعمیر کیا گیا تھا۔ یہاں مسافروں کے بیٹھنے کے لیے ایک بڑالاؤنج بھی موجود ہے، 50 بستروں پر مشتمل ہسپتال اور ہینگرز کے حجم کے ٹینٹ بھی موجود ہیں جن میں فرنیچرلگا ہواہے۔
بگرام کی یہ قتل گاہ ،یہ تعذیب خانہ اوریہ فوجی ایئر فیلڈ امریکہ کی جانب سے سرد جنگ کے دوران اپنے افغان اتحادیوں کے لیے1950 میں بنائی گئی تھی۔ تاہم سوویت یونین نے یہاں1979 میں حملہ کرنے کے بعد اسے مزید وسیع کر دیا تھا۔سوویت یونین کے انخلا ء کے بعد اس کا انتظام ماسکو کی حمایت یافتہ حکومت کے پاس تھا اور اس کے بعد اس کا انتظام1990 کے بعدسوویت یونین کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی مشترکہ انتظامیہ کے پاس رہا۔90 کی دہائی کے وسط میںجب طالبان کی امارت اسلامی قائم ہوئی تو بگرام کاسارا علاقہ طالبان کے ہاتھ میں آیاجس کے بعدیہ ائیربیس طالبان کے کنٹرول میں تھا۔تاہم نائن الیون کے واقعے کے بعد جب امریکہ نے نیٹوکے ہمراہ افغانستان پرجارحیت کی توسب سے پہلے اس نے بگرام ائیربیس کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے یہاں سے عصر حاضر کی بڑی اورعظیم تحریکات طالبان اور القائدہ کے خلاف کاروائی شروع ہوئی اورطالبان اور القاعدہ کے عہدیداروں کو پکڑنے کے بعدانہیں اسی ائیربیس پرانسانیت کش تعذیب کاشکاربنایاگیا اوریہیں سے امریکہ اورنیٹوطیارے افغانستان کی آبادیوں پرکار پٹنگ حملوں کے لئے اڑان بھرتے رہے۔
بگرام ائیربیس سے فراراختیارکرنے اوربھاگ جانے کے بعد5جولائی سوموارکی صبح مقامی لوگوں نے ائیربیس کی عمارتوں میں گھس کاامریکہ کے چھوڑے ہوئے سامان پردھاوابول دیا اور جسے جو ہاتھ آیا وہ اٹھاتے چلے گئے۔بگرام ایئربیس سے حاصل کیا گیا سامان اب انہوں نے مارکیٹ میں فروخت کے لیے دستیاب رکھاہے۔ قابض امریکی افواج کے خاموشی سے سے فراراختیارکئے جانے کوطالبان کی جانب سے حال ہی میں حیرت انگیز رفتار کے ساتھ افغانستان کے مختلف اضلاع پر قبضے کانیتجہ قراردیاجارہاہے۔کہاجارہاہے کہ امریکی فوجیوں کی آخری کھیپ ترکی کے ساتھ کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی حفاظت کے معاہدے کی تکمیل تک یہیں رہیں گی۔لیکن لگتاایساہے کہ طالبان کی فتوحات کے پیش نظرلگ یہ رہاہے کہ وہ بھی جلدفراراختیارکریں گے کیونکہ انہوں نے جن غنی انتظامیہ کے فوجیوں کوملٹری ٹریننگ دی ان میں سے سینکڑوں فوجیوں نے طالبان کے خوف سے پسپائی اختیارکرکے سرحد پار تاجکستان میں پناہ لی ہے۔ظاہرہے کہ غنی انتظامیہ کی فورسزطالبان کے سامنے کہاں ٹک پائے گی جبکہ امریکی اورنیٹوفورسزطالبان کے سامنے کان پکڑ رہے ہیں۔واضح رہے کہ بگرام ائیربیس سے متصل دیہی علاقوں میں طالبان کی نقل و حرکت بڑھ رہی ہے اورانکا اگلاپڑائوبگرام ائیربیس ہی ہوگا۔

 

Comments are closed.