ادھارچکانے کاانتظار

سمیع اللہ ملک
بھارت اورچین کے درمیان سرحدپرگزشتہ سال خاصاہنگامہ خیزرہاجس میں چاردہائیوں کی سب سے خونی جھڑپ ہوئی،رواں برس کے آغازمیں دونوں ممالک نے لداخ کے علاقے سے فوجیں پیچھے ہٹانے پراتفاق کیا۔اس معاہدے سے مسلح تصاد م کافوری خطرہ توکم ہوگیا، لیکن تناؤبرقرارہے اورکسی بھی وقت تنازع پھرسراٹھاسکتاہے،جیساکہ بھارتی وزیرخارجہ سبرامنیم جے شنکرنے2020میں چین اور بھارت کے تعلقات کوانتہائی پریشان کن قراردیا۔2015میں ہنگامی منصوبہ بندی میمورنڈم(سی پی ایم)نے امریکی سیکورٹی مفادات کے حوالے سے چین اوربھارت کے درمیان فوجی تصادم کے خطرے کواجاگرکیاتھا۔یہ خطرہ ابھی تک باقی ہے اوراس پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔2015میں سی پی ایم نے اندازہ لگایاکہ چین اوربھارت کے تعلقات کافی حدتک مستحکم ہیں اوردونوں کے درمیان بظاہرفوجی تصادم کاامکان نہیں ہے۔ دونوں فریقوں نے تجارت اورسرمایہ کاری کے بڑھتے تعلقات پرسرحدی تنازع کاکوئی اثرپڑنے نہیں دیااورسرحدی معاملات کوبروقت بہتراندازمیں حل کر لیا۔اس کے باوجود غیرحل شدہ تنازعات بیجنگ اورنئی دہلی کے درمیان قائم امن کیلئے چیلنج بن سکتے ہیں۔کسی بھی ایک جگہ تنازع کے نتیجے میں دونوں ممالک کے سیاسی اوراسٹریٹجک مفادات داؤپرلگیں گے اورپھربحران کے دوران انٹیلی جنس اکٹھا کرنا،فیصلہ سازی کرنااور تشدد سے بچنے کیلئے اقدامات کرنا انتہائی پیچیدہ ہوجائے گا۔گزشتہ18برس سے دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں پرغیرمسلح جھڑپیں،جارحانہ گشت اوراشتعال انگیزفوجی تعمیرات کاسلسلہ جاری تھا،جس کے نتیجے میں2020میں چین اور بھارت میں خونی تصادم کی فضامکمل طورپرسازگارہوچکی تھی۔2019کے ابتدامیں بھارت اورپاکستان تعلقات میں کشیدگی کااثربھی بیجنگ اورنئی دہلی تعلقات پرپڑاکیونکہ پاکستان چین کا قریب ترین شراکت دارہے۔
اگست2019میں بھارت کی جانب سے جموں وکشمیرکی آئینی حیثیت کی اچانک تبدیلی نے چین اورپاکستان کے ساتھ علاقائی تناؤکوبڑھاوا دیاہے۔2020سے کوروناوائرس کی وبائی بیماری نے بھی بھارتی معیشت کوسخت نقصان پہنچایا۔گزشتہ برس باہمی تصادم کے بعدچین بھارت تجارتی اورسفارتی تعلقات کے مستقبل پرسوالات اٹھنے لگے ہیں اور مستقبل میں چین اوربھارت کے درمیان تناؤبرقراررہنے بلکہ تنازع مزیدبڑھنے کاامکان زیادہ ہے۔ اپنی زمینی سرحدوں پردونوں ممالک فوجی حکمت عملی کے تحت ایک دوسرے پربرتری حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے اورپچھلے ناکام معاہدے اورکشیدگی کم کرنے کے موجودہ معاہدے پرعمل پیرارہیں گے۔چین اوربھارت کے فوجی عزائم میں کمی آنے کاکوئی امکان نہیں، جودونوں ملکوں کی مسلح افواج کوتصادم کے قریب لے جائے گا۔ 2020 میں شدیدکشیدگی کے دوران شمالی بھارت کی سرحدپردونوں جانب سے ہزاروں فوجیوں کوتعینات کیاگیاتھا۔بھارت نے رواں برس کے آغازمیں چینی خطرے کے پیش نظرپاکستانی سرحدپرتعینات اسٹرائیک کورکی تنظیم نوکے منصوبے کااعلان کیاہے۔اس سے چین کے حوالے سے بھارت کے مستقبل کے روّیے کاپتاچلتاہے۔رواں برس کے آغاز میں پاکستان اوربھارت نے ایل اوسی پرجنگ بندی کااعلان بھی کیالیکن اس کے باوجود نئی دہلی چین اورپاکستان کے درمیان اسٹریٹجک شراکت کے پیش نظرمحتاط رہے گا۔گزشتہ برس پاکستان اوربھارت کے درمیان2002کے بعدایل اوسی پرشدیدترین شیلنگ کا تبادلہ ہوا۔دونوں جانب سے اعلیٰ فوجی افسران کے مفاہمتی بیانات کے بعدجنگ بندی عمل میں آئی لیکن مستقبل میں پاکستان اوربھارت کے درمیان کسی تنازع کے نتیجے میں اس میں چین کے ملوث ہونے کابہت زیادہ امکان موجودہے۔
2019میں دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پرفضائی حملے کیے گئے۔ بھارت کی جانب سے1971 کے بعدپہلی بارسرحدپار حملے کیے گئے۔پاکستان کی جانب سے جوابی فضائی حملے اوربھارتی پائلٹ کی گرفتاری پراعلی بھارتی اہلکارنے ایٹمی صلاحیت کے حامل میزائل استعمال کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی لیکن اس کے باوجودپاکستان نے اعلانیہ جوابی فضائی حملے سے اپنی دھاک بٹھاکر کشیدگی پرقابوپانے کیلئے بھارتی پائلٹ کورہاکرکے اقوام عالم پراپنی امن پسندی کااظہارکیالیکن اس واقعہ سے واضح ہوگیاکہ مستقبل میں کسی تنازع کے نتیجے میں دونوں جانب سے اپنے مقاصدکے حصول کیلئے مزیدطاقت کے استعمال کاخطرہ بڑھاہے۔
حالیہ برسوں میں چین اورپاکستان کے بڑھتے اسٹریٹجک تعلقات کے پیش نظرمستقبل میں دہلی اوراسلام آبادکے تنازع میں بیجنگ کی شمولیت کاامکان ہے۔سی پیک پرچین کی جانب سے اربوں ڈالرسرمایہ کاری کی گئی ہے۔بیجنگ نے2019کے بحران میں پاکستان اور بھارت کواشتعال انگیزی سے روکنے کی بجائے اسلام آبادکاجائزموقف تسلیم کرلیاکہ بھارت کومستقبل کی جارحیت سے روکنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات کی ضرورت ہے۔مزید یہ کہ پاکستان کی طرح چین بھی اگست2019میں کشمیرکے خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام پرکڑی تنقید کرچکاہے۔اگربھارت اورپاکستان کے درمیان تعلقات بہترکرنے کی کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں،جیسے ماضی میں ہوتی رہی ہیں توایک اوربحران چین اورپاکستان کوبیک وقت بھارت کے خلاف کھڑاکرسکتاہے۔بحران کی پیچیدگی میں مزیداضافہ کرتے ہوئے چین اوربھارت نے2020میں سرحدی کشیدگی کودوطرفہ تعلقات کے دیگرشعبوں تک بڑھادیا۔اس اقدام کامقصداپنے عزائم کااظہار تھا۔
بھارت نے جون2020میں جنوبی بحیرہ چین میں جنگی جہازتعینات کیے،جس پرچین کی جانب سے فوری اعتراض کیاگیا،اس کے ساتھ بھارت نے وی چیٹ اورٹک ٹاک جیسی چینی ایپلی کیشنزپرپابندی لگائی اورچینی کمپنیوں کی بھارت میں حساس منصوبوں میں شرکت کو محدودکردیاجس کے جواب میں چینی ہیکروں نے اکتوبر2020میں ممبئی کے الیکٹرسٹی نظام پرسائبرحملہ کرکے شہرمیں بلیک آؤٹ کر کے واضح پیغام دیدیا۔اگرچہ دونوں جانب سے اس طرح کے اقدام کامقصد سرحدپرمزیدفوجی تصادم سے بچناتھالیکن اس سے پتالگتا ہے کہ مستقبل کے بحران کے دوران دونوں ممالک کے درمیان دیگرشعبوں میں بھی کشیدگی میں اضافہ ہوسکتاہے یعنی دونوں جانب سے تحمل کے مظاہرے کا امکان کم ہے۔مثال کے طور پرمستقبل میں بھارت کی حساس تنصیبات پرچینی سائبرحملہ بھارتی رہنماں پرشدیدعوامی دبا ؤڈالے گالیکن یہ اندازہ لگانامشکل ہے کہ مستقبل میں دونوں ممالک کشیدگی میں اضافہ کرناچاہتے ہیں یاامن کوترجیح دیں گے۔اسی طرح اگر بھارت چینی تجارت اورسرمایہ کاری میں نئی رکاوٹیں کھڑی کرتاہے توچین بھارتی ادویات کی صنعت کواہم خام مال کی فراہمی روک کر اس کا سخت جواب دے سکتاہے۔2015میں سی پی ایم نے چین اوربھارت کے درمیان دیگرتنازعات کی نشاندہی کی،جوکسی سرحدی تنازع کے ساتھ ہی بیک وقت بھڑک سکتے ہیں اوردوسری طرف کیا پاکستان بھی اپناادھارچکانے کیلئے ایسے ہی وقت کامنتظرہے؟
چین اوربھارت دونوں ممالک کی بحریہ کااگرسامناہوجاتاہے اورساتھ ہی تبت میں دلائی لامہ کے حوالے سے کوئی ڈرامائی پیش رفت جوچین کیلئے ناقابل قبول ہوتواس بحران کی صورتحال میں بھارت اورچین کیلئے اپناردِعمل اپنے سیاسی اورتزویراتی مقاصد کے حصول تک محدودرکھنامشکل ہوجائے گا۔2020کی سرحدی جھڑپ تنازع کے پرامن حل میں ناکامی کے بعدکوئی فریق بھی اعتمادنہیں کرسکتا کہ دوسرافریق تنازع کوکس حدتک بڑھاوادے گا،اسی لیے بھارت اورچین کے تعلقات ایک غیریقینی دورمیں داخل ہوچکے ہیں۔ امریکی انتظامیہ طاقتور چین کامقابلہ کرنے کیلئے مسلسل واشنگٹن اورنئی دہلی کے درمیان اسٹریٹجک شرکت داری کوفروغ دینے کی کوشش کررہی ہے۔بائیڈن نے امریکااورچین کے درمیان تعلقات کوانتہائی مسابقانہ قراردیاہے۔اس پس منظرمیں امریکااوربھارت کے قریبی تعلقات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے لیکن خطرہ بھی مزیدبڑھ جاتاہے،خاص کرچین اور بھارت کے درمیان مسلح تصادم کی صورت میں صورتحال انتہائی خراب ہوسکتی ہے۔چین اوربھارت کے درمیان تصادم کے نتیجے میں امریکاصرف بھارت کی پیٹھ تھپکاکرہی حصہ بن سکتاہے جس کے نتیجے میں عالمی معیشت درہم برہم ہوجائے گی اورعلاقائی ترقی کونقصان پہنچے گا،اس کے ساتھ ہی انسانیت پراس کے شدید اثرات مرتب ہوں گے ۔
اگرتصادم کے بعد بھارت عسکری اور معاشی طورپرکمزورہوجائے گاتوجہاں نئی دہلی کی چین کامقابلہ کرنے صلاحیت پرفرق پڑے گا وہاں بھارت کی تقسیم کوئی بچانہیں سکے گااورخاص کرچین کوروکنے کے امریکی وسیع ترمقصدکاحصول انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ان وجوہات کی بناپرواشنگٹن کی بھارت سے اسٹریٹجک تعلقات قائم کرنے کابے چینی کے نتیجے میں پیداہونے والے خطرے کادرست اندازہ لگاناہوگاکہ کس طرح امریکی روّیہ بھارت اورچین کے تعلقات پراثراندازہورہاہے۔امریکا کے اسٹریٹجک وعدوں اوربھارت کے ساتھ تعاون کے معاملات کواحتیاط سے اس اندازمیں جانچناچاہیے جس سے دولازمی تقاضوں کوپوراکیاجاسکے۔
مودی سرکارایک توواشنگٹن کی جانب سے نئی دہلی کوکرائی جانے والی یقین دہانی اورمدد کا ایک ایساتحریری معاہدہ یقینی بناناچاہتی ہے جس میں چینی جارحیت کے مقابلے میں حالات کیسے بھی ہوں،امریکابھارت کے ساتھ اپنے وعدے پورے کرے گاچاہے چین سے براہ راست تصادم کاخطرہ بھی موجودہوکیونکہ وعدے پورے نہ کرنے کے نتیجے میں بھارت کی بقا اورسلامتی کوناقابل تلافی دھچکا لگے گا۔
دوسری جانب بھارت فی الحال امریکی حمایت کواپنے اسٹریٹجک مقاصدکوپوراکرنے اورامریکی مفادات کونقصان پہنچانے کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہتا۔یہ تشویش کوئی فرضی بات نہیں۔مودی کی کشمیرپالیسی اورچین اورپاکستان کے ساتھ فوجی کشیدگی میں اضافہ خطرات سے کھیلنے کی غیرمعمولی کوشش ہے۔بھارت کے جارحانہ روّیہ کی حمایت کے نتیجے میں چین زمینی سرحد کے ساتھ فوج کی تعیناتی میں اضافہ کرتاجائے گا۔اس طرح کی صورتحال چین اوربھارت کی سرحدپرتنازع کے خطرے کوبڑھادے گی۔ جس کے نتیجے میں بھارت اپنے زیادہ وسائل بحریہ کی بجائے زمینی سرحدکے دفاع پرخرچ کرنے پرمجبورہوگاجبکہ بھارت امریکی مددسے بحرہندمیں جغرافیائی برتری اورچینی جارحیت کے خلاف آزادانہ دفاع کی صلاحیت میں برتری چاہتاہے تاکہ مستقبل میں بھارت زیادہ مضبوط انداز میں چین کاسامناکرسکے۔اس کیلئے وہ متنازع زمینی علاقوں میں بیجنگ کی فوجی برتری کوکم کرنے اورچینی سابئرحملے اورمعاشی دباؤ کے مقابلے کیلئے بھارت کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کیلئے امریکاکے علاوہ مغرب کی طرف بھی دیکھ رہاہے۔ جس کیلئے مودی امریکی سفارتکاروں کو تنازعات کے دوران تحمل کے فروغ اورعدم تشدد کی حوصلہ افزائی کے بھارتی سیاسی ڈرامہ کی پشت پناہی کابھی خواہاں ہے۔
ادھربھارتی اوریہودی لابی مسلسل وائٹ ہاس کومشورہ دے رہے ہیں کہ امریکاکوکسی بھی بحران کے دوران بروقت اورکارآمدردِعمل دینے کی پالیسی کی صلاحیت پیداکرنی ہوگی تاکہ چین اوربھارت کے درمیان ایک بارپھرانتہائی خطرناک صورتحال سے بچاجاسکے۔ امریکی حکمت عملی امریکی ترجیحات کادرست امتزاج ہونی چاہیے جس کے ذریعے ناصرف بھارت اورامریکاکی شراکت داری میں بہتری آئے بلکہ بھارت اورچین کے درمیان تعلقات بھی خراب نہیں ہوں۔سب سے پہلے توامریکاکوبھارت کی جارحانہ صلاحیت کے بجائے دفاعی صلاحیت کوبہتربناناہوگاتاکہ چینی فوجی اقدام کابروقت اندازہ کرکے ردِعمل دیاجاسکے۔بھارت کوچین کے ساتھ ایک لمبی اورمشکل سرحدپرانٹیلی جنس جمع کرنے اور معلومات کابروقت تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے فائدہ ہوگا۔امریکاپہلے ہی اس حوالے سے اقدامات کرتارہاہے۔مثال کے طورپر2020کے موسم سرمامیں بھارت کودوایم کیو9 بی ڈرون فراہم کیے،مزیدڈرون بھی فراہم کیے جانے چاہییں۔تاہم بعض اطلاعات کے مطابق امریکااوربھارت کے درمیان مزید30ڈرون کی فروخت پرکام ہورہاہے،لیکن اب تک حتمی معاہدہ ہو نہیں پایا۔سرحدپرچین کی جانب سے کسی تجاوزکی بروقت اطلاع کیلئے بھارت کوامریکاکے بغیرپائلٹ نگرانی کے طیارے اوردیگرحساس ٹیکنالوجی فراہم کی جانی چاہیے۔چین اوربھارت کی سرحدپرمشکل پہاڑی علاقوں پرنظررکھنے کیلئے خصوصی سنسرکی تیاری میں امریکااوربھارت کے فوجی انجینئروں کوآپس میں تعاون کرناچاہیے۔امریکااور بھارت کے درمیان انٹیلی جنس کے تبادلے کے حوالے سے بنیادی معاہدے پرپہلے ہی بات چیت ہوچکی ہے لیکن معلومات جمع کرنے والے امریکی پلیٹ فارم تک بھارت کی محفوظ رسائی حساس معلومات کی بروقت فراہمی کوبہتربناسکتی ہے۔واشنگٹن کواس حوالے سے کام کوآسان بنانے کیلئیاقدامات کرنے چاہییں۔امریکاکوبھارت کے ساتھ سائبر بات چیت کے دوران چینی سائبرحملے سے نمٹنے کیلئے بھارت کی مددکرنی چاہیے۔چین کی جانب سے اکتوبر2020میں ممبئی کے الیکٹرک گرڈپرحملہ محض ایک انتباہ تھا۔جس سے اندازہ ہوتاہے کہ چینی ہیکرزپہلے ہی بھارت کی حساس تنصیبات کے اندر سرایت کرچکے ہیں۔جوبھارت کیلئے بڑے خطرے کی علامت ہے۔اس یقینی خطرے کے خلاف بھارتی صلاحیتوں کوبڑھایاجاسکتاہے،اس حوالے سے امریکاکوتکنیکی مہارت فراہم کرنی چاہیے،خاص کردونوں ممالک کی داخلی سلامتی کے ذمہ داراداروں کواشتراک کرنا چاہیے۔چین کی جانب سے ممکنہ معاشی دباؤکامقابلہ کرنے کے حوالے سے بھی بھارتی صلاحیت کوبڑھاناہوگا۔اس لیے امریکاکوبھارت اوردیگرہم خیال ریاستوں خاص کرکواڈکے شراکت دار آسٹریلیااورجاپان کے ساتھ مل کرکثیرالجہتی حکمت عملی بنانی ہوگی۔جاپان اور آسٹریلیادونوں ہی چینی پالیسیوں کانقصان اٹھاچکے ہیں،جس نے ان کی مخصوص صنعتوں کونشانہ بنایا۔ چین نے جاپان کونایاب خام مال کی فراہمی روک دی جبکہ آسٹریلیاسے درآمدہونے والی شراب پربھاری ٹیکس عائدکردیالہذاوہ بیجنگ کی جانب سے نئی دہلی کودرپیش معاشی خطرے سے زیادہ واقف ہیں۔دونوں ممالک کومل کرٹیکنالوجی،تجارت،منڈیوں تک رسائی اورپابندیوں کے حوالے سے چین کی مخصوص کمزوریوں کی نشاندہی کرنی چاہیے۔انہیں مل کر اس طرح منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ کسی بھی ایک ریاست کے خلاف اقدام کی قیمت چین کومعاشی طورپربھاری پڑے لیکن چین کے خلاف قدم تاخیرسے اٹھاناچاہیے،تاکہ بیجنگ کویکطرفہ اقدام کے ردِعمل سے متنبہ کیاجاسکے اورکشیدگی میں اضافے سے بچاسکے۔جہاں تک ممکن ہوسکے کواڈممالک کوچین کے معاشی دباؤکامقابلہ کرنے کیلئے بھارت کی صلاحیت کوبہتربنانے کامتبادل منصوبہ بھی بناناچاہیے۔مثال کے طورپراہم صنعتوں کیلئے حساس خام مال کی مختصر مدت میں فراہمی کاانتظام کیاجاسکے۔
امریکاکوچین،بھارت اورپاکستان کے درمیان تحمل کے فروغ اورتنازعات کے پرامن حل میں رکاوٹ کودورکرنے کیلئے سفارت کاری کا استعمال کرناچاہیے۔امریکااورچین کے سردتعلقات کی وجہ سے مستقبل میں امریکا،بھارت اورچین کے درمیان سہ فریقی بات چیت کا امکان نہیں ہے،پھربھی واشنگٹن کوبیجنگ کے سامنے چین اوربھارت کے درمیان بحران کی صورت میں پیداخطرات کے حوالے سے اپنے خدشات کاکھل کراظہارکرناچاہیے اورواضح کردیناچاہیے کہ نئی دہلی کیلئے امریکی مدددفاع مضبوط کرنے کیلئے ہوگی ۔ سفارتی بات چیت اورجنوبی ایشیا کے حوالے سے امریکی اورچینی ماہرین کے درمیان گفتگوکے ذریعے واشنگٹن کوجنوبی ایشیا کے حوالے سے مخصوص چینی مقاصداورتحفظات کوسمجھناہو گاتاکہ نئی دہلی کی پالیسی پرچین کے ردِعمل اورپاک بھارت تعلقات میں پیش رفت کابہتر اندازہ لگایاجاسکے۔
گزشتہ15برس کے دوران پاکستان کیلئے امریکی امدادمیں کمی کے نتیجے میں اسلام آبادپرواشنگٹن کااثرورسوخ کم ہوچکاہے لیکن پھر بھی پاکستان کی کمزورمعیشت اوراس کی مغرب سے بہترتعلقات کی خواہش کافائدہ اٹھایاجاسکتاہے۔امریکاپاکستان کوحالیہ جنگ بندی پر قائم رہنے اوراپنے ملک میں موجوددہشتگردوں پرکڑی پابندی عائدرکھنے کی ترغیب دے سکتاہے۔اس کیلئے بائیڈن انتظامیہ کوایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان کوبلیک لسٹ کرنے کاخطرہ برقراررکھناہوگا،جس کے ذریعے پاکستان پرمالی پابندیاں عائدکی جاسکیں ۔ اس کے ساتھ ہی واشنگٹن کوشراکت داری کومضبوط بنانے کیلئے باہمی تجارت اورسرمایہ کاری کیلئے نئے اقدامات پربات چیت کی اسلام آبادکی پیشکش کوقبول کرلیناچاہیے۔ بھارت کے ساتھ دوطرفہ بات چیت میں امریکاکوقریبی اسٹریٹجک تعلقات قائم کرنے پرزوردیناچاہیے،تاہم یہ بھی واضح کردیناچاہیے کہ چین اوربھارت کے فوجی تصادم کے نتیجے میں واشنگٹن کے نئی دہلی سے تعلقات کے مقاصدکوشدیدنقصان پہنچے گا۔امریکاکوچین کے خلاف بھارت کی دفاعی مددکرنے کے حوالے سے عوامی سطح پربیانات دینے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ جبکہ بندکمرے میں مذاکرات میں امریکی سفارتکاروں کوبھارت کی پالیسیوں پرخدشات کااظہارکرتے ہوئے اگست2019جیسے کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کرنے کے حیران کن اقدامات سے بازرہنے کاپیغام دیناچاہیے،جس کے نتیجے میں خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا۔امریکاکواپنے پالیسی سازوں کواگلے موسم بہاریاموسم گرما میں چین اوربھارت کے درمیان نئے بحران کیلئے بھی تیاررکھنا ہوگا۔بائیڈن انتظامیہ کوسینئرافسران کوانٹیلی جنس بریفنگ کے ذریعے بھارت چین سرحدپرنظررکھنے اوربھارت اور اسلام آبادکے درمیان کشیدگی کی نگرانی کرنے کاعادی بناناہوگا،اس حوالے سے سمندری کشیدگی،معاشی اورسفارتی جنگ اورسابئرحملے پربھی نظررکھنی ہوگی۔بھارتی ہم منصبوں سے بات چیت کے ساتھ ہی بائیڈن انتظامیہ کوٹرمپ انتظامیہ کے اہم افرادسے بھی قریبی مشاورت کرنی چاہیے، تاکہ2020میں چین اوربھارت کے درمیان جھڑپ اور2019ء
میں بھارت اورپاکستان کے درمیان تصادم کی صورتحال کادرست اندازہ لگایاجاسکے۔اس مشاورت کے نتیجے میں ایسی حکمت عملی تیارکی جانی چاہیے،جومستقبل کے بھارت اورچین بحران میں کارآمد ہو سکے۔جس میں امریکاکی جانب سے فوجی اورانٹیلی جنس اقدامات کے ساتھ بھارت کی سفارتی مددبھی شامل ہو،تاکہ چینی دباؤکامقابلہ کیا جاسکے اورتحمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بروقت کشیدگی میں کمی کاراستہ کھولاجاسکے۔
یہودوہنودلابی کی کوششوں کے بعدہمیں یادرکھناچاہئے کہ امریکاایک حکمت عملی کے تحت چین کے پاکستان کے ساتھ بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات اورسی پیک منصوبے کوچند سالوں سے پیچھے دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ان کوششوں کی بنیادی وجہ امریکاکے عالمی اورعلاقائی سلامتی کے مسائل ہیں۔سوویت یونین کے خاتمے کے بعدامریکاواحد سپرپاورکے طورپرسامنے آیا۔اس وقت امریکی پالیسی سازوں نے فیصلہ کیاکہ اب کبھی بھی سوویت یونین جیسی حریف طاقت کوابھرنے کاموقع نہیں دیاجائے گا۔چین نے 1979کے بعدحیرت انگیزمعاشی ترقی کی،جس میں اس کی معیشت میں1978اور1998کے درمیان پانچ گنااضافہ ہوا۔امریکااس ترقی کواپنی عالمی برتری کیلئے ایک بڑا خطرہ سمجھتاہے۔اکیسویں صدی کے آغازسے امریکانے چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اوردفاعی طاقت کامقابلہ کرنے کیلئے حکمت عملی بنانی شروع کی۔
اپنی سردجنگ کی پالیسی کی طرح امریکانے جاپان،جنوبی کوریااورآسٹریلیاکے ساتھ دفاعی اتحادوں کیلئے کام شروع کیا۔اس کے ساتھ امریکانے بھارت کوبھی اس حکمت عملی میں شراکت داربنانے پرآمادہ کرنے کی کوشش کی۔بھارت کوچین کے علاقے میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے علاقے میں اپنااستبدانہ منصوبہ خطرے میں نظرآیا،اس لیے فوری امریکاکی گودمیں جابیٹھا۔پچھلی چارامریکی انتظامیہ،جن میں دونوں رپبلکن اورڈیموکریٹ شامل ہیں،بھارت کے ساتھ مل کراس امیدپراس کثیرالجہتی منصوبے پر کام کرتے رہے کہ بھارت چین کے بحرہنداورجنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے آگے ایک فصیل بن کرکھڑاہوگا۔اس لیے امریکی خیال میں اگرپاکستان بھارت کی برتری کوقبول کر لے تو یہ اس امریکی حکمت عملی کو،جس میں بھارت کوایک بڑی ایشیائی طاقت بناناہے،آگے بڑھانے میں مددملے گی۔
ٹرمپ کے بھارتی دورے نے واشنگٹن اورنئی دہلی کے درمیان گہرے تعاون کومزیدمضبوط کیا۔یہ امریکی علاقائی پالیسی اورپاکستان پر معاشی،سیاسی اورفوجی دباؤاسلام آبادکو بیجنگ کے مزیدقریب لے آیاہے۔سی پیک منصوبہ اسی بڑھتے ہوئے معاشی،سیاسی اورسلامتی کے مسائل پرہم آہنگی کانتیجہ ہے۔سی پیک منصوبے کے تحت چین نے2015اور 2030کے درمیان پاکستان میں مختلف شعبوں میں62ارب ڈالرزکی سرمایہ کاری کرنی ہے جس میں پاکستان کے فرسودہ بنیادی ڈھانچے کوبہتربنانے کے علاوہ اس منصوبے کے تحت سڑکوں کے جال بچھانے،ریلوے میں انقلابی تبدیلی لانا،شمالی اورجنوبی معاشی کوریڈور قائم کرنااوربیجنگ کوگوادرکی بندرگاہ سے ملانے کاکام تیزی سے جاری ہے۔اس کے علاوہ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں توانائی کی کمی کوپوراکرنے کے پراجیکٹ بھی تکمیل کے قریب ہیں اورمختلف صعنتی زون کی تعمیرکاکام بھی جاری ہے۔اس منصوبے کے تحت2015سے2018تک تقریبا20ارب ڈالرزاور2018سے2020کے درمیان5ارب ڈالرزکی اضافی سرمایہ کاری بھی کی گئی ہے۔
ادھرافغانستان سے امریکی انخلاکاعمل شروع ہوچکاہے جس سے خطے میں افغان صورتحال پر مکمل غیرجانبدارہوکرکڑی نگاہ رکھنے کی اشدضرورت ہے کہ کہیں افغانستان میں آپس کی خانہ جنگی اس خطے کوایک مرتبہ پھرغیرمستحکم نہ کردے جس سے یقینا دشمن قوتیں بھرپورفائدہ اٹھاکرہماری قومی سلامتی کونقصان پہنچانے کی کوشش کریں گی۔

 

Comments are closed.