Baseerat Online News Portal

نیشنل میڈیا کی فرقہ وارانہ روش اور انتہاپسندانہ کردار! مفتی محمد شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی امام و خطیب مسجد انوار گوونڈی ممبئی

کسی بھی ملک اور معاشرے کی امن وسلامتی اور فساد وتخریب میں موجودہ عہد میں خاص طورسے الیکٹرانک میڈیا کا جو کردار ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے، اس محکمے اور ڈپارٹمنٹ کا دائرہ اس قدر وسیع اور اتنا مؤثر ہے کہ پورے ملک کی رائے عامہ کی مہاراور فکرونظر اسی ایک ڈپارٹمنٹ کے قبضے اور اختیار میں جا چکی ہے،اسی وجہ سے اسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہا گیا ہے، کہ جمہوری اقدار وروایات کے فروغ میں اس کا بڑا اہم کردار ہے، مگر یہی شعبہ جب اپنے راستے سے منحرف ہوتا ہے
انتہاپسندانہ ذہنیت کا شکار ہوکر فرقہ پرستی کی راہ اختیار کرتا ہے تو پھر اپنے نصب العین، اپنے ہدف اور احساس ذمہ داری کو ٹھوکر مار کر قدم قدم پر انصاف وعدالت کا خون کرتا چلا جاتا ہے، صحافت کے نام پر معاشرے میں بدامنی پیدا کرتا ہے، معصوموں کی لاشوں پر نفرتوں اور تعصبات کی عمارت کھڑی کرتا ہے،

بھارت کی میڈیا اس وقت اپنے صحافیانہ فرائض کو ترک کرکے اس وقت یہی نفرتوں کی تجارت اور فرقہ پرستی کی سوداگری کر رہی ہے، اس کا ہدف اور مقصد صداقت اور سچائی کی حفاظت اور ملک کی تعمیر وترقی نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقے کے خلاف نفرتوں کو ہوا دینا ہے ،اقلیت کے خلاف ظلم وتشدد کی راہیں ہموار کرنا ہے، نفرت وتعصب اور تخریب وانتشار کا یہ کام بڑے پیمانے پر پوری طاقت سے اس معزز ڈپارٹمنٹ کے ذریعے ہورہا ہے اور انتہائی دھڑلے سے ہورہا ہے، اس کی تازہ ترین مثال کیرلا کے رہنے والے ہندو مت کے پیروکار کرشنن کا وہ واقعہ ہے جو 9/جون کو ابوظہبی عرب امارات میں پیش آیا۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ پیکس کرشنن جو ابوظہبی میں ڈرائیو تھا اس کی کار سے ایک سوڈانی کا چھ سالہ بچہ ٹکرا کر ہلاک ہوگیا،مقدمہ قائم ہوا اور 2013میں ڈرائیونگ میں لاپرواہی کے باعث کرشنن کی سزائے موت کا فیصلہ ہوگیا،وکلا کی تمام کوششوں کے باوجود سزائے موت میں تبدیلی نہ ہوسکی بالاآخر کرشنن کے گھر والے ہر طرف سے مایوس ہوکر مشہور بزنس مین لولو شاپنگ کے مالک یوسف علی سے مدد مانگی، انھوں نے اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کیا مگر مقتول بچے کے اہل خانہ سوڈان جاچکے تھے جس کی وجہ سے یہ کام ناممکن سا ہوگیا، سوڈان میں ان لوگوں سے رابطہ بجائے خود بہت مشکل تھا مگر یہ مشکل حل ہوئی تو بچے کی ماں کسی بھی رقم اور متاع کے عوض میں قاتل کی جان بخشی کے لئے تیار نہیں تھی، وہ اسے ہرحال میں تختہ دار پر ہی دیکھنا چاہتی تھی یوسف صاحب نے ہمت نہیں ہاری اور انھوں نے ایک ہندو شخص کی جان بچانے کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کردی،مشہور صحافی ایم ودود ساجد لکھتے ہیں،، یوسف علی کی ٹیم نے اس کام کے لئے سوڈان کی مؤقر شخصیات اور معاشرہ پر اثر رکھنے والے افراد کو اعتماد میں لیا انھوں نے ماں کو مذہبی اور انسانی پہلوؤں کا حوالہ دے کر سمجھایا آخر کار مقتول لڑکے کی ماں بھی مان گئی2013سے 2019/تک کا عرصہ اسی کوشش میں گذر گیا،اب جبکہ مقتول کے اہل خانہ مان گئے تو یہ مشکل سامنے آگئی کہ وہ متحدہ عرب امارات آنے کو تیار نہیں تھے یوسف علی کی ٹیم نے تمام سفری اخراجات کے علاوہ انہیں ایک خطیر رقم کے عوض متحدہ عرب امارات آنے کو تیار کرلیا،اب کورونا کی وبا سامنے آگئی سوڈانی فریق سفر کرنے کو تیار ہواتو اب سفر پر پابندی لگ گئی آخر کار جنوری 2021میں انہیں ابوظہبی لانے میں کامیابی مل گئی،ایک بیان میں یوسف علی نے کہا کہ مقتول کے اہل خانہ کے قاتل کو معاف کرنے کے لئے تیار کرنا سب سے مشکل مرحلہ تھا،گذشتہ تیرہ جنوری کو مقتول کے اہل خانہ نے عدالت میں آکر بیان دے دیا کہ انھوں نے قاتل کو معاف کر دیا ہے،اس کے ساتھ ہی یوسف علی کے گروپ کو پانچ لاکھ درہم یا ایک کروڑ ہندوستانی روپے عدالت میں جمع کرنے پڑے،عدالت نے قصاص کا یہ صلح نامہ منظور کر لیا اور گذشتہ 9/جون کو کرشنن کیرالہ واپس پہونچ گیا (واٹس ایپ میڈیا مرکز البحوث الاسلامیہ)

کئی سال کی جد وجہد کے بعد اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد کرشنن کو نئی زندگی مل گئی،اور جیل سے رہائی حاصل ہوئی اس سے پوچھا گیا کہ رہاہونے کے بعد آپ کا پہلا کام کیا ہوگا تو اس نے کہا کہ سب سے پہلے میں اس مسیحا کے پاؤں چھونے کے لئے اس کے گھر جاؤں گا جس نے مجھے موت کے منھ سے نکال کر نئی زندگی دی ہے، 9/جون کو جب کرشنن ابوظہبی سے تھیرو اننتا پورم کیرالا پہونچا تو صحافیوں اور الیکٹرانک میڈیا رپورٹوں کی بھیڑ تھی جس نے کرشنن سے نئی زندگی کی پوری تفصیل لی، اور لولو کمپنی کی قربانیوں کے بارے میں معلومات حاصل کی، مگر 10/جون کو پورے ملک کی میڈیا نے کرشنن کی زندگی تو کوریج کی مگر بھولے سے بھی لولو کمپنی کے مالک یوسف علی کا نام نہیں لیا،جس نے مذہب کو کنارے کرکے صرف وطنیت اور انسانیت کی بنیاد پر ایک ہندوستانی کی جان بچانے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کردئیے، اگر ذرا بھی اس ڈپارٹمنٹ کے اندر انصاف انسانیت ، صداقت اور خود اپنے فرض کا احساس ہوتا تو سچائی سے کام لیکر پہلے اس ہمدرد ملت اور انسانیت کے مسیحا کا ذکر کرتا، اور اس کے بلند کردار واخوت وبھائی چارگی پر خراج تحسین پیش کرتا،جس نے نفرت کے ماحول میں ایک ہندو کی جان بچانے کے لیے دبئی اور سوڈان ایک کرڈالا تھا مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا، اس لیے کہ وہ مسیحا ئے قوم مسلمان تھا اور اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتا ہے،

اس کا واضح مطلب ہے کہ میڈیا کی نظروں میں سب سے بڑا جرم مسلم ہونا ہے، اگرچہ وہ انسانیت کا علمبردار ہو اس کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بازی بھی لگا چکا ہو مگر باوجود اس کے وہ تعریف کا مستحق نہیں ہے،دوسری قوم کا جرائم پیشہ فرد بھی قابل توجہ ہے اس لیے کہ اس کی ذات پر مسلم کا لیبل نہیں لگا ہے، حالانکہ فرض کے پیش نظر اگر صداقت اور انصاف کے ساتھ کرشنن کے جرم کے ساتھ یوسف کے برادرانہ کردار تاریخ ساز قربانی کا ہلکا سا ذکر میڈیا کردیتا تو نفرت کے شعلوں پر رواداری کی شبنم برس جاتی، انتہاپسندی کے انگارے بے جان ہوکر رہ جاتے، ماب لینچنگ کے حادثوں کی شدت میں کمی آجاتی، مگر وہ ایسا نہیں کرسکتا کہ اسے ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے کوئی سروکار نہیں ہے، اور ملک کی تباہی کی اسے کوئی پرواہ نہیں ہے،

حقیقت یہ ہے کہ جب تعصب مقصد بن کر دماغ پر مسلط ہوجائے، مسلم دشمنی رگ وریشے میں سرایت کرجائے،تو انصاف وعدالت کی کوئی حیثیت رہتی ہے نہ ہی قانون اور آئین کی پرواہ، نہ انسانیت رواداری کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے پیشے کے فرائض ووقار کا احساس، اس وقت بدقسمتی سے ملک کی میڈیا اسی نفرتوں کے کاروبار میں پوری طاقت وقوت سے مصروف ہے، ایسی صورت حال میں قوم،معاشرہ ،آئین ،جمہوریت اور خود ملک کی سالمیت اور تحفظ کے لئے متبادل راہ کی تلاش اہل دانش پر ناگزیر ہوجاتی ہے۔

Comments are closed.