Baseerat Online News Portal

قربانی کی حقیقت اور فضیلت

محمد قاسم اوجھاری

نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
عشق ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر

قربانی ایک چھ بے جان حروف کا مجموعہ ہے مگر اس مجموعہ پر جب غور کیا جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں کتنی مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے یہ بظاہر بہت دشوار گزار گھاٹی ہے مگر حیاتِ جاودانی کا پیغام اپنے اندر رکھتی ہے یہ عبادات مالیہ میں سے ایک عظیم عبادت ہے جو صاحب استطاعت افراد پر ہر سال مخصوص ایام اور اوقات میں واجب ہے یہ در حقیقت رب کریم کے پیارے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس عظیم قربانی کی یادگار ہے جب آپ نے عالم خواب میں قربانی کا حکم پاکر اپنے جان سے عزیز لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پھول کی پتی سے نازک اور ریشم سے زیادہ نرم گلے پر اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں چھری رکھ دی تھی اور اس قربانی کے سبب رضائے الٰہی کے ساتھ ملائکہ کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا اور یہ واضح کر دیا تھا کہ ابراہیم کا دل اپنے رب کے سوا کسی کا مسکن نہیں، وہ محبتِ الٰہی سے معمور ہے کسی اور کی محبت اس پر غالب نہیں اس کے تمام تر جذبات محبت خداوندی کے تابع ہیں، ہوا یہ تھا کہ جب ابراہیم علیہ السلام ملک شام جا پہنچے تو آپ نے بارگاہ ایزدی میں دعا کی کہ اے میرے رب مجھے ایک نیک صالح لڑکا عطا فرما، بارگاہ رب العالمین میں یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک حلیم المزاج لڑکا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں عطا فرمایا، پھر جب ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو اپنا مسکن بنالیا اور اسماعیل علیہ السلام بھی چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے تو ایک دن آپ نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے اس لخت جگر کو اللہ کے حکم سے ذبح کررہا ہوں، انبیاء علیہم السلام کا خواب چونکہ وحی ہوتا ہے اس لئے آپ اس حکم کی تعمیل پر آمادہ ہوگئے، اور اپنے لخت جگر سے اس خواب کا تذکرہ کیا، بیٹے نے کہا ابا جان آپ کو جو حکم ہوا ہے آپ اس کو پورا کیجئے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے، الغرض جب دونوں نے خدا کے حکم کو تسلیم کرلیا اور باپ نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے کروٹ پر لٹا دیا اور چاہتے تھے کہ ذبح کرڈالیں فوراً حکم خداوندی نازل ہوا کہ اے ابراہیم تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا، اب اس لخت جگر کو چھوڑ دو، رب کریم کو یہ ادا بہت پسند آئی اور اپنے پیارے خلیل کی اس عظیم قربانی کو اپنی بارگاہ عالیہ میں شرف قبولیت عطا فرماکر جبرئیل امین کو جنت سے دنبہ لے جانے کا حکم دیا اور اسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ذبح کرایا، پھر رب کریم نے اس سنت ابراہیمی کو ہمیشہ کے لئے باقی رکھا

ہر دور میں قربانی کا یہ سلسلہ چلتا رہا حتی کہ زمانہ جاہلیت میں بھی قربانی کا رواج رہا مگر ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ جانوروں کو بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے اور ذبح کرنے کے بعد خون کعبہ معظمہ کی دیواروں سے لگا دیتے تھے اور گوشت بتوں کے سامنے اکھٹا کر دیتے تھے ، بعد ازاں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم المرسلین کا تاج سجائے ہوئے مبعوث ہوئے تو رب کریم نے قربانی کا حکم باقی رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا ” فصل لربک وانحر ” کہ آپ اپنے رب کے نام سے ذبح کیجئے ، حافظ ابن کثیر و امام رازی رحمہما ﷲ تعالیٰ نے حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما، حضرت عطاء، حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت حسن بصری، حضرت قتادہ، حضرت محمد بن کعب قرظی، حضرت ضحاک رحمہم ﷲ تعالیٰ وغیرہم کا قول نقل کیا ہے کہ مشرکین عرب غیر ﷲ کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے، اس لیے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رب کے نام پر جانور ذبح کریں۔ (تفسیر ابن کثیر: ص۷۲۴، ج۴)

ساتھ ہی زمانہ جاہلیت کی مذکورہ رسم کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے لیے ارشاد فرمایا : لن ینال اللہ لحومہا ولا دمائھا ولکن ینالہ التقویٰ منکم (سورہ حج آیت ٣٧) کہ نہیں پہنچتا ہے اللہ کو جانوروں کا گوشت اور ان کا خون البتہ پہنچتا ہے اس کے حضور میں تمہارا تقوی ، یعنی رب کریم کو ان جانوروں کے گوشت اور خون کی قطعاً ضرورت نہیں وہ تو صرف یہ دیکھتا ہے کہ تمہارے دلوں میں کس قدر خوف الٰہی اور تقویٰ موجود ہے، اطاعت و فرماں برداری کے کتنے جذبات موجزن ہیں ، قربانی کی اصل روح اور اس کی حقیقت یہی ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام تر نفسانی خواہشات کو قربان کردے ، جانور ذبح کرکے قربانی دینے کے حکم میں یہی حکمت پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تمام خواہشات نفسانیہ کو ایک ایک کرکے ذبح کردیا جائے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیاتِ طیبہ میں مسلسل قربانی فرماتے رہے اور صحابہ کرام کو بھی اس کی عظمت اور اہمیت سے آگاہ فرماتے رہے

ایک حدیث میں ہے ، عن زید بن ارقم رضی اللہ عنہ قال: قال أصحاب رسول اللّٰہ: یا رسول اللّٰہ! ما ہذہ الأضاحی؟ قال: سنة أبیکم إبراہیم علیہ السلام، قالوا: فما لنا فیہا یا رسول اللّٰہ؟ قال: بکل شعرة حسنة، قالوا: فالصوف؟ یا رسول اللّٰہ! قال: بکل شعرة من الصوف حسنة“ (ابن ماجہ ۳۱۱۸ )
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرات صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم کی سنت ہے صحابہ نے عرض کیا کہ اس میں ہم کو کیا ملے گا ؟ فرمایا کہ ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ، عرض کیا کہ اون کے بدلہ میں کیا ملے گا ؟ فرمایا کہ ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ملے گی،

عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما عمل ابن آدم من عمل یوم النحر احب الی اللّٰہ من اہراق الدم وانہ اتی یوم القیامة بقرونہا واشعارہا وظلافہا وان الدم لیقع من اللّٰہ بمکان قبل ان یقع بالارض فطیبوا بہا نفسا“ (ترمذی ۱۴۱۳)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایام قربانی میں انسان کا کوئی عمل اللہ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور وہ آدمی قیامت کے دن اس جانور کی سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہو جاتا ہے پس اللہ کے بندوں خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو

حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اس طرح قربانی کرے کہ اُس کا دل خوش ہو اور وہ اپنی قربانی میں ثواب کی نیت رکھتا ہو تو وہ قربانی اس شخص کے لئے دوزخ سے آڑ ہو جائے گی (المعجم الکبیر للطبرانی)

احادیث میں قربانی نہ کرنے والوں کے لئے بھی سخت وعید وارد ہوئی ہے، ایک حدیث میں ہے:
عن ابی ہریرۃ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم قال: من وجد سعۃ فلم یضح فلا یقربن مصلانا (ابن ماجہ ۳۱۱۴ ، الترغیب والترہیب ۱۰۳/۲)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس قربانی کی وسعت ہو (یعنی صاحب نصاب ہو) اور پھر وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے

دیکھئے ! پیغمبر علیہ السلام نے کس قدر ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے، عید گاہ میں نہ آنا تو دور کی بات عید گاہ کے قریب بھی نہ آنے کی بات کہی جارہی ہے، اور یہ اسی شخص کے لیے ہے جو قربانی کی استطاعت رکھتا ہو اور پھر قربانی نہ کرے،

Comments are closed.