ہندوستان حالات حاضرہ کی روشنی میں قسط نمبر (٢) تحریر محمد صابر مسعود

تحریر: محمد صابر مسعود
اسی ظلم و بربریت، اکثریتی مذہب کی شدت پسندی اور حکومتی تانا شاہی کا نشانہ اتر پردیش میں واقع دادری کے محمد اخلاق کو بنایا گیا۔ 2014 میں محمد اخلاق کو اسکے فریزر میں گائے کا گوشت ہونے کا جھوٹا الزام لگا کر ایک ہجوم نے قتل کردیا تھا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فریزر تو محمد اخلاق کے گھر میں تھا تو ان شرپسند دشمنوں، آر ایس ایس کے چڈھوں اور اکثریتی مذہب سے تعلق رکھنے والے غنڈوں کو اس بات کا کیسے علم ہوا کہ موصوف کے فریزر میں گائے کا گوشت موجود ہے ؟
اس بات کا ان حضرات کے پاس کوئ جواب موجود نہیں ہے کیونکہ یہ ایک بے بنیاد الزام تھا لہذا معلوم ہوا کہ انکی خطا صرف اور صرف مسلمان ہونا تھی؟
اب اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انکو انصاف ملا؟ قاتلوں کو انکے ظلم و قتل کی پاداش میں جیل بند کیا گیا ؟ اگر نہیں تو کیا فقط اس وجہ سے کہ قاتل ہندو تھے ؟ تمام سوالات کے جوابات کا انتظار کریں ۔۔۔
اسی مآب لنچنگ کا نشانہ اخباری رپورٹ کے مطابق سنہ 2020/ ستمبر میں بریلی میں 32 سالہ مسلم نوجوان باسط علی کو انتہا پسندوں، غلیظ و ناپاک سوچ رکھنے والے غنڈوں کے ایک ہجوم نے چوری کے شک میں بری طرح زدو کوب کیا، ان پرلوہا چوری کرنے کا جھوٹا الزام عائد کرکے ہندو شدت پسندوں بالفاظ دیگر بی جے پی و آر ایس ایس کے لیٹرنگ جیسے چڈھے پہننے والے غنڈوں نے کئی گھنٹے تک درخت سے باندھ کر رکھا اور جم کر اس کی پٹائی کی، اس واقعے کی اطلاع جب پولس کو ملی اور پولس موقع واردات پر پہنچی تو ہجوم نے باسط کو پولس کے حوالے کردیا، اس واقعے کا دل کو دہلا دینے و بے چین کردینے والا ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، ویڈیو میں نظر آنے والا شخص باسط علی ہی ہے، ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جاسکتاہے کہ اس کے دونوں ہاتھوں کو درخت سے باندھ دیا گیا ہے، زدو کوب کے درمیان وہ چیختے و چلاتے ہوئے مدد و نصرت کی فریاد کررہا ہے لیکن موقع پر موجود لوگ اسکو سنی ان سنی کرکے اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں بلکہ کئی لوگ تو مسکراتے ہوئے ہونٹوں سے موتیاں بکھیرتے ہوئے بھی نظر آ رہے ہیں اورآپس میں بات چیت کررہے ہیں
اس دوران کچھ لوگ مظلوم و بے قصور باسط علی کے پاس آئے ضرور مگر وہ بھی صرف اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے ویڈیو و تصاویر لیکر واپس لوٹ گئے، ایک رپورٹ کے مطابق پولس نے بتایا کہ پٹائی کرنے کے بعد کچھ لوگ باسط کو تھانہ لیکر آئے، یہاں وہ لوگ بھی پہنچے جن کے سامان چوری ہونے کےالزام میں اس کو زدو کوب کیا گیا تھا، پولس اسٹیشن میں ان لوگوں نے کہا کہ چونکہ ان کا سامان واپس مل گیاہے اور باسط ان کا پڑوسی ہے، لہذا وہ شکایت درج نہیں کرانا چاہتے، پولس اسٹیشن میں مبینہ سمجھوتے کے ایک گھنٹے بعد باسط نے چیختے و چلاتے ہوئے وہیں دم توڑ دیا اور زندگی کی جنگ ہارگیا، مقتول کی ماں نے میڈیا سے کہا تھا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ باسط کو کچھ لوگ پیٹ رہے ہیں، تو میں نے اپنے چھوٹے بیٹے کو اسے بچانے کےلئے کہا لیکن وہ اتنا ڈرگیا تھا کہ اس نے خود کو ایک کمرے میں بند کرلیا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انکو انصاف ملا ؟ اور کیا یہ الزام درست تھا ؟
تمام جوابات کا انتظار کریں
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
@sabirmasood_
Comments are closed.