پراسرارافغان مقتدرراہداریاں

سمیع اللہ ملک
اشرف غنی اورعبداللہ عبداللہ کے پراسرارحالیہ امریکادورے کی ناکامی کے پرت کھلناشروع ہوگئے ہیں۔وائٹ ہاس میں میڈیاکے سامنے اشرف غنی کاپہلے سے لکھی ہوئی تحریرکا بد دلی سے پڑھنااورجوبائیڈن کے چہرے کی خاموشی،اس چندمنٹ کی چغلی کھارہی تھی کہ امریکی صدرخودپرجبر کرکے بیٹھے ہوئے ہیں اورواپسی پرعبداللہ عبداللہ کایہ بیان بڑامعنی خیز ہے کہ افغانستان تقسیم کے دہانے پر ہیاوریہ دورے کی ناکامی کا منہ بولتاثبوت ہے کہ امریکانے مستقبل کے افغانستان سے مکمل طورپرہاتھ اٹھالیاہے۔ممکن ہے کہ امریکااور اس کے اتحادیوں کی یہ پراسرارخاموشی کسی نئے طوفان کاپیش خیمہ ہولیکن تاحال تمام عالمی میڈیاکے معروف تجزیہ نگاربھی دل تھام کر بیٹھے اس پراسرارخاموشی کی گرہ کھولنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
ادھرپاکستانی سرحدچمن سے متصل اہم تجارتی گزرگاہ افغان علاقے ویش منڈی میں طالبان کے جھنڈے لہرانے شروع ہوگئے ہیں۔ویش منڈی قندھاراورجنوب مغربی صوبوں کوپاکستان سے جوڑتی ہے۔اس نئی پیش رفت کے بعدسرحدی گزرگاہ”بابِ دوستی” کوہرقسم کی آمدو رفت کیلئیبند کرکے سکیورٹی کومزیدسخت کردیاگیاہے اوروہاں کسی کوتصاویر بنانے کی اجازت بھی نہیں دی جارہی ۔افغان طالبان اور عام پاکستانی شہریوں کی چندویڈیوزمیں گاڑیوں اورموٹرسائیکلوں پرسوارطالبان ویش منڈی کے علاقے میں دکھائی دے رہے ہیں۔اس کیعلاوہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہدنے بھی ویش منڈی کاکنٹرول حاصل کرنے کی تصدیق کردی ہے۔طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے عالمی میڈیا کے ذریعے ویش منڈی کے تاجروں اورعوام کویقین دہانی کروائی ہے کہ جلد ہی پاکستان اورافغانستان کے درمیان ہونے والی تجارت اورٹریفک کوبحال کردیاجائے گا۔مقامی صحافیوں کے مطابق طالبان نے13جولائی منگل کی شب ویش منڈی کاکنٹرول حاصل کرلیاتھا۔
ایک ویڈیومیں لوگ آپس میں بات کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ’’کاروان پہنچ گئے۔سفید جھنڈے والے آگئے ہیں‘‘۔ایک ویڈیومیں بچے کسی بڑے سے پوچھ رہے ہیں کہ’’وہ بولدک تحصیل کولے سکتے ہیں یانہیں۔سپین بولدک افغانستان کاچمن کے قریب ایک سٹریٹیجک علاقہ ہے اورجوویش منڈی سے شمال میں قندھارکی جانب 12سے15کلومیٹرکے فیصلے پرواقع ہے۔اس ویڈیومیں ایک طالبان خوشی کااظہار کرتے ہوئے یہ کہہ رہاہے کہ پاکستان کے ساتھ اس سرحدی علاقے کواللہ نے منافقین کے وجود سے پاک کردیاہے جبکہ بلوچستان کے وزیرداخلہ کے مطابق پاکستان کی جانب سے بارڈرکومکمل طورپرہرقسم کی آمدورفت کیلئے بندکردیاگیاہے۔
ادھر13/اور14جولائی کوتاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ سرجوڑکر افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی سے ہونے والی صورتحال پرآئندہ کے لائحہ عمل پرغورکررہے ہیں۔شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کے نمائندوں نے افغان حکومت کے ساتھ ملاقات میں موجودہ صورتحال اورطالبان کی جانب سے مکمل قبضے کے خدشات پربات چیت بھی کی۔ایس سی اومیں افغانستان رابطہ گروپ2018میں تشکیل دیاگیاتھاجس کامقصدافغانستان میں امن،استحکام،اقتصادی ترقی اورباہمی خانہ جنگی کاخاتمہ جیسے اہداف کاحصول ہے۔
چین کاوسائل سے مالامال صوبہ سنکیانگ اورافغانستان کے بیچ آٹھ کلومیٹرطویل سرحدہے۔افغان صورتحال کے پیش نظرخاص مقصدکے تحت یہ پروپیگنڈہ بھی کیاگیاکہ چین کو خدشہ ہے کہ اگرطالبان اقتدارمیں آئے تواس سے سنکیانگ میں علیحدگی پسند ایسٹ ترکستان اسلامی تحریک کوپناہ اورمدد مل سکتی ہے۔یہ ایک چھوٹاعلیحدگی پسندگروہ ہے جومغربی چین کے سنکیانگ صوبے میں آزاد مشرقی ترکستان قائم کرنے کا ارادہ رکھتاہے۔سنکیانگ صوبے میں چین کی ایک نسلی مسلم اقلیت اویغورآباد ہے۔امریکی دفترخارجہ نے 2006 میں اس گروہ کواویغوروں کاایک خطرناک علیحدگی پسند گروہ قراردیکراسے دہشتگردتنظیموں کی فہرست میں شامل کیاتھامگرگذشتہ سال نومبر میں امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیونے یہ پابندی ہٹادی تھی۔چین افغانستان کوبھی اپنے بیلٹ اینڈروڈمنصوبے میں شامل کرناچاہتاہے اور افغانستان میں بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری کے امکانات پرنظررکھے ہوئے ہے اور ایک اطلاع کے مطابق طالبان سے اس سلسلے میں بعض اہم میٹنگزبھی ہوچکی ہیں۔پچھلے دنوں طالبان ترجمان سہیل شاہین نے چین کے سب سے بڑے اخبارکواپنے انٹرویومیں یقین دلایاکہ وہ چین کوافغانستان کادوست مانتے ہیں اورافغانستان کی تعمیر نو کے چینی منصوبوں پرسرمایہ کاری کیلئے نہ صرف چینی سرمایہ بلکہ تمام چینی افرادکی مکمل حفاطت کی ضمانت دینے کوبھی تیارہیں اورسنکیانگ سے علیحدگی پسنداویغورجنگجوؤں کوافغانستان داخل نہیں ہونے دیں گے۔
ادھرطالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے چینی اخبارکے اس انٹرویوپرانڈیاکی پریشانی میں شدیداضافہ ہوگیاہے۔پچھلے دنوں طالبان کے ساتھ دوملاقاتوں کے بعدوہ یہ سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے اپنی مکاری سے طالبان کے دلوں میں دوستی اورہمدردی کاجذبہ پیداکرکے اپناالو سیدھاکرلیاہے۔انہوں نے طالبان کوافغانستان میں اپنی خدمات یاددلاتے ہوئے بتایاکہ ہم نے افغانستان میں انفراسٹرکچراوراداروں کی تعمیرنو کیلئے تین ارب ڈالرسے زیادہ رقم خرچ کی ہے۔انڈیا نے افغان پارلیمانی عمارت اورملک میں ایک بڑاڈیم منصوبہ تعمیرکیاہے۔اس نے یہاں تعلیم اورتکنیکی معاونت کے منصوبے بھی قائم کیے ہیں۔اسی دوران انڈیا نے افغانستان میں قدرتی وسائل پرسرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ ایسے ہی موقع پرانڈیانے طالبان کے اقتدارسنبھالنے کی قانونی حیثیت پربھی سوال اٹھاتے ہوئے اپنی سرمایہ کاری کے متاثرہونے کاخدشہ بھی ظاہرکیاتھا۔ دراصل انڈیاکوخدشہ ہے کہ طالبان کے اقتدارمیں آنے کے بعدوہ پاکستان کے اثرورسوخ بڑھ جانے کے بعدوہ پاکستان پرنفسیاتی اورسٹرٹیجک سبقت کھودے گا۔یہی وجہ ہے سہیل شاہین نے اپنے انٹرویومیں انڈیاکا قطعی کوئی ذکرنہیں کیابلکہ یہ تنبیہ ضرورکی کہ افغانستان کی سرزمین کوکسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
دوسری طرف روس کوخدشہ ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعدافغانستان میں خانہ جنگی کی بنا پرپورے وسطی ایشیامتاثرہوسکتاہے یعنی اگرخون بہے گاتواس کے قطرے ماسکوپربھی پڑیں گے تاہم ممکنہ سکیورٹی وجوہات کے پیش نظرروس طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات بنارہاہے۔روسی اثرورسوخ میں رہنے والے ملک تاجکستان اورازبکستان کی افغانستان کے ساتھ سرحدیں ہیں۔روس کوخدشہ ہے کہ مستقبل میں خانہ جنگی کی بنا پرافغان سرحدوں پرانسانی اورسکیورٹی کابحران پیداہوسکتاہے لیکن طالبان کے ایک وفد نے بروقت روس کے دورے پریقین دہانی کرائی ہے کہ افغانستان میں کسی پیشرفت سے وسطی ایشیاکے علاقوں کوخطرہ نہیں ہوگا۔اورافغان سرزمین کو کسی ہمسایے ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیا جائے گا۔یادرہے کہ افغانستان کی تازہ ترین صورت حال نے سب کوششدرکرکے رکھ دیاہے۔
افغان فوج کاپے درپے طالبان کے سامنے ہتھیارپھینکنے کاعمل بھی شروع ہوچکاہے جس سے طالبان کامورال بلندیوں کوچھورہاہے۔ماضی کی بنیادپرطالبان کی دہشت کااثربھی ہو سکتاہے۔یہی فوج جوگزشتہ دوبرسوں سے امریکی مددکے بغیرطالبان کے ساتھ جنگ میں مصروف تھی اورشہرکے کسی ایک ضلع پربھی طالبان کوقبضہ کرنے نہیں دیاگیا۔اب یہ امر حہاں حیرت انگیزہے وہاں بڑاپراسراربھی ہے کہ درجن طالبان کے سامنے سینکڑوں فوجی کیوں ہتھیارڈال دیتے ہیں ماضی کے برعکس اب طالبان ان کوجیب خرچ اورکلاشنکوف دیکر عزت واحترام سے رخصت کردیتے ہیں اورجس کے عوض یہ فوجی امریکیوں کاچھوڑاہواانتہائی قیمتی بھاری اورجدیداسلحہ طالبان کے حوالے کردیتے ہیں۔یہ عمل صرف جنوبی اور مشرقی صوبوں میں نہیں بلکہ شمالی اورمغربی افغانستان کے تاجک،ازبک اورترکمن صوبوں میں بھی جاری ہے جوحیران کن ہے۔یہاں ایک اورحیران کن پہلویہ بھی ہے کہ طالبان زیادہ تران اضلاع کارخ کررہے ہیں جہاں امریکیوں نے زیادہ جدید،خطرناک اورقیمتی اسلحہ چھوڑاہے۔شمالی افغانستان سے تعلق رکھنے والے بعض رہنما تویہ الزام بھی لگارہے ہیں کہ ان فوجیوں کویاتوکمانڈرکی طرف سے سرنڈرہونے کی ہدایات موصول ہوچکی ہیں یاپھران فوجیوں کارابطہ ہائی کمان سے منقطع ہوچکاہے۔ان حالات کابغورمطالعہ کیاجائے تویہ معاملہ انتہائی پراسرارنظرآتاہے۔
ایک اورپراسرارعمل یہ بھی ہے کہ مشرقی اورجنوبی افغانستان کی نسبت شمالی اورمغربی افغانستان کے اہم اضلاع پرطالبان فتوحات کا جھندالہراتے چلے جارہے ہیں جس کی تصدیق عالمی میڈیابھی کررہاہے۔اگرپاکستان کی سرحدسے متصل پکتیا،پکتیکا،خوست یاجنوبی صوبوں جیسے قندھار،ہلمنداورزابل جیسے صوبوں میں ایساہوتاتوہمیں کچھ زیادہ حیرت نہ ہوتی لیکن ان علاقوں کی بجائے زیادہ اضلاع شمالی اورمغربی افغانستان پرطالبان کی قبضہ جاری ہے۔اسی طرح چین،پاکستان اورتاجکستان کی سرحدوں سے متصل صوبہ بدخشاں کے کئی اضلاع میں افغان فوجیوں نے ہتھیارپھینک کرطالبان کے حوالے کردیئے ہیں حالانکہ گزشتہ دورمیں باوجودبہت کوشش کرنے کے بدخشاں طالبان کی دسترس میں نہیں آسکاتھالیکن اب اب اس تاجک صوبے کے بیشتراضلاع پرطالبان کاقبضہ ہوچکاہے جبکہ گورنراور دیگرحکام صوبائی ہیڈکوارٹرخالی کرکے کابل فرارہوچکے ہیں۔
اسی طرح تاجکستان کی سرحدسے جڑاہواشمالی صوبہ قندوزکے اہم مقام شیرخان پرطالبان کامکمل قبضہ ہوگیاہے۔جوزجان اورفریاب جیسے مغربی ازبک اورترکمن صوبوں میں کئی اہم اضلاع طالبان کے زیرقبضہ آگئے ہیں۔تخارجوطالبان حکومت کے زمانے میں مشرقی اتحادکاہیڈکوارٹرتھا،وہاں کے بھی ایک ضلع پرطالبان نے قبضہ کرلیاہے۔اسی طرح ایرانی بارڈرسے متصل علاقے بھی طالبان کے زیر نگوں ہوچکے ہیں حالانکہ انہوں نے ابھی تک کابل،جنوبی یامشرقی صوبوں پرقبضہ نہیں کیاہے۔یوں جنوب اورمشرق کی بجائے پہلے مغرب اورشمال میں افغان فوج کاسرنڈرہونااورطالبان کی فتوحات پراسراربھی ہیں اورسمجھ سے بھی بالاترہیں۔
افغان وزیردفاع اسداللہ خالدکاپراسراراندازسے منظرسے ہٹ جانابھی حیرت کاباعث بناہے۔اسداللہ خالدقندھاراورغزنی کے گورنررہنے کے بعداین ڈی ایس کا سربراہ تھا۔وہ گزشتہ دوبرس تک ڈٹ کرطالبان اورپاکستان کے خلاف کاروائیوں کیلئے مشہورتھااورخود فوجی یونیفارم پہن کر مختلف محاذوں پرکمانڈبھی کرتارہا۔اب پچھلے کئی دنوں سے وہ اچانک منظرنامے سے غائب ہوگیا۔اس کے علاقوں پرطالبان کاقبضہ ہورہاتھااورموصوف غائب تھا۔کئی دنوں کے بعدپتہ چلاکہ وہ اپنی بیماری کے علاج کے بہانے امریکا میں ہے۔ حیرت کی بات تویہ بھی ہے کہ طالبان اب تک سوسے زائداضلاع پرقبضہ کرچکے ہیں لیکن کسی صوبائی ہیڈکوارٹرپرقبضہ نہیں کررہے حالانکہ اگروہ چاہیں توآسانی کے ساتھ اپنے زیر تصرف لاسکتے ہیں۔شنیدیہ ہے کہ کچھ قوتوں کے ایماء پروہ ایساکررہے ہیں۔یہ معاملہ اس لئے انتہائی پراسرارہے کہ اگرطالبان تیزی کے ساتھ اضلاع پراپنے پرچم لہرارہے ہیں تو انہی قوتوں نے اضلاع پرقبضہ کرنے سے ان کوکیوں نہیں روکا؟اورصوبائی ہیڈکوارٹرپرقبضہ کیوں نہیں کیاجارہا؟
ایک اورپراسرار واقعہ پچھلے دنوں سامنے آیاکہ بگرام ائیربیس کوجب امریکیوں نے خالی کیاتواس کے چندگھنٹوں کے بعدوہاں کی تمام قیمتی تنصیبات اوردیگراشیا کووہاں سے خود طالبان نے کہیں اورمحفوظ مقام پرمنتقل کردیاجبکہ افغان حکومت کواس سے اگلے دن بگرام ائیربیس کے خالی ہونے کی اطلاع ملی جبکہ امریکابگرام کے انخلا سے دودن قبل اسے اپنے مکمل حصارمیں لے چکے تھے۔آخرطالبان کوبگرام ائیربیس کے خالی ہونے کی بروقت اطلاع کیسے معلوم ہوئی؟امریکاجواب تک7ائیربیسزخالی کرکے افغان فورسزکے حوالے کرنے کی پالیسی پرگامزن تھا،آخراس نے بگرام ائیربیس پراپنے انخلاکافوری طورپرافغان حکومت کوکیوں نہیں بتایا؟
ترکی جوپاکستان کاتودوست مگرچین کامخالف ہے،اس کا اچانک اس معاملہ میں کودکرفوری کابل ائیرپورٹ کی نگرانی کاعمل اپنے ہاتھ میں لینے کاعمل بھی انتہائی پراسرارہے۔ طالبان نے اس کاسختی سے نوٹس لیتے ہوئے ترکی کوتنبیہ کرتے ہوئے افغانستان سے نکل جانے کاکہاہے کہ وہ اپنی سرزمین پرکسی بھی غیرملکی فوجی کوبرداشت نہیں کریں گے۔ترکی کااچانک یہ عمل اورایشیائی ملکوں کے معاملات میں متحرک ہونا بھی ایک پراسرارعمل ہے جوکہ بہت ہی خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔
ادھرمکارہندومودی سرکارنے10اور11جولائی کوقندھار میں اپنے50کے قریب سفارتکاروں اورسیکورٹی عملہ کونکالنے کیلئے دوسی130طیاروں سے نکالنے کے عمل کے پیچھے اپنے آقائوں کے احکام کی تعمیل میں122ملی میٹرکے توپ خانے کیلئے80 ٹن گولہ بارودچھپاکرافغان فورسزکوپہنچانے کے منحوس عمل کوسرانجام دیا۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق اگلے ہی دن دواورآئی اے ایف سی17طیارے جے پوراورچندی گڑھ سے مزیداسلحہ لیکرکابل ائیرفیلڈپہنچے اورہندوستانی ہتھیاروں سے لدے ٹرک کابل کی سڑکوں پربھی دیکھے گئے ،معروف میڈیانے ان خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی تصاویربھی جاری کیں۔ہندوستانی طیاروں کوپاکستان سے بچنے کیلئے لمبے ہوائی راستوں کااستعمال ہوا۔سوال یہ ہے کہ اس ہوائی روٹ کی بھی میڈیامیں تصاویرشائع ہوگئی ہیں۔کیاپاکستان نے اس ملک سے احتجاج کیاکہ ان کی فضائی حدودکومکاربنئے کواستعمال کرنے کی اجازت کیونکردی گئی۔ یادرہے کہ برطانیہ اورامریکایک جان دو قالب مانے جاتے ہیں۔اگرامریکاکوبغیراجازت گولہ بارودلیجانے والے امریکی جہازکوبرطانوی فضائی حدوداستعمال کرنے پرانتہائی سخت احتجاج کاسامناکرناپڑاتھاتوپھرکوئی وجہ نہیں کہ سفارتی لیول پراس خطرناک عمل کوروکنے کیلئے فوری اقدام نہ اٹھائے جائیں کہ ان کاتعلق پاکستان کی سلامتی سے وابستہ ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان 2611کلو میٹر طویل سرحد ہے۔پاکستان کاسب سے بڑاخدشہ یہ ہے کہ افغانستان میں صورتحال خراب ہونے سے اس کی سرحدپرافغان پناہ گزین کادباؤبڑھ سکتاہے۔دوسراخدشہ تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے ہے جوپاکستانی فوج کے آپریشن کے دوران افغانستان چلے گئے تھے اوراب پناہ گزین کی شکل میں پاکستان واپس آسکتے ہیں۔حال ہی میں پاکستانی فوج کے ترجمان میجرجنرل بابرافتخارنے کہاکہ اگرافغانستان میں خانہ جنگی ہوتی ہے تواس سے پاکستان براہ راست متاثرہوسکتا ہے۔ان کے مطابق افغانستان میں خانہ جنگی کے خدشے کے پیش نظرپاکستانی فوج ہرصورتحال کیلئے تیارہے۔

Comments are closed.