انسانیت

ابو حمران
ایک کہانی پڑھی تھی میں نے، اس میں تھا کہ ایک نوجوان نے اپنی ساری عمر ایک ایسی خیالی لڑکی کو تلاش کرنے میں گزار دی تھی جس کی صورت اس نے خود سے ذہن میں بنائی تھی، حقیقی زندگی میں کبھی اس کا دیکھا نہیں تھا، اس خیالی لڑکی سے محبت میں اس کا یہ حال ہوگیا تھا کہ اگر مجنوں حیات ہوتا اور اس شخص کی دیوانگی دیکھ لیتا تو لیلی کے پاگل کتے سے خود کو کٹوا کر لیلی کی گلی میں ناک رگڑ رگڑ کر شرم سے جان دے دیتا۔
میں اس کہانی کو جھٹلا نہیں سکتا؛ کیونکہ اس نوجوان کی اور میری کہانی بالکل ایک جیسی ہے بس فرق اتنا ہے کہ وہ جس صورتِ خیالی کو تلاش کر رہا تھا وہ ایک لڑکی ہے اور میرے ذہن میں جس تصویر نے جنم لیا ہے وہ انسانیت کی تصویر ہے، اس نے اپنے ذہن میں جس لڑکی کی تصویر بنائی تھی اس نے اسے پالیا، اور میرے ذہن میں موجود انسانیت کی تصویر کا حقیقت میں کوئی وجود اب تک نظر نہیں آیا، کہاں کہاں اسے میں نے تلاش نہیں کیا؟
تاجروں کی دکان پر گیا تو دیکھا کہ تاجر ایک سو روپے کی چیز دو سو میں فروخت کر رہا ہے، سو روپے محنت اور حق کے لے رہا ہے لیکن دوسرے سو روپے وہ حقیقت میں چوری کر رہا ہے، اگر میں جج ہوتا تو جیب کتروں اور قیمت سے زیادہ پیسے لے کر چیزیں بیچنے والوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا دونوں کو ایک ہی سزا دیتا؛ کیونکہ دونوں ہی چور ہیں خواہ طریقہ الگ الگ ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ تاجر نفع نہ لے، لیکن اتنا بھی نفع نہ لے کہ گراہک کا نقصان ہوجائے، بہترین دوکانداری وہی ہے جس میں دوکاندار نفع اتنا ہی لے کہ خریدار کا گھاٹا نہ ہو؛ حلال کمائی اور حرام کمائی کے درمیان فرق ہی یہی ہے کہ حلال پیسہ کوشش اور محنت کا بدل ہوتا ہے، اور حرام جھوٹ اور دھوکہ دہی کا۔
میں نے انسانیت کو عدالت میں بھی تلاش کیا لیکن وہاں بھی میں نے دیکھا کہ سب سے انصاف پسند جج وہی ہے جس کی پوری کوشش یہ ہو کہ کوئی بھی فیصلہ سنانے میں اس سے ایسی غلطی نہ ہوجائے کہ جس نے اسے جج کی کرسی دی ہے وہ اس کے فیصلے سے ناراض ہوجائے اور اسے کرسی سے اپنی تشریف دھونی پڑجائے، ایسے ججوں کے نزدیک مظلوم کو انصاف دلانا، ظالم کو ظلم سے روکنا، حق والوں تک ان کے حقوق پہنچانا اور جو جس سزا کا مستحق ہے اس کے لیے ویسا ہی فیصلہ صادر کرنا بے معنی کام ہیں انہیں وہ واجبات میں شمار نہیں کرتے، ہاں اگر اچھے فیصلے کرنے پر ان کی کرسی پر کوئی آنچ نہ آئے اور کہیں سے کوئی دباؤ نہ ہو تو حق فیصلے بھی عدالتوں میں ہوجاتے ہیں لیکن یہ محض اتفاق ہوتا ہے، ورنہ زیادہ تر تو معصوم جیل میں چکی پیستے نظر آتے ہیں اور مجرم ہوٹلوں میں قہقہہ لگاتے دکھائی دیتے ہیں، اگر کوئی انہیں حقیقت سے آگاہ کرتا ہے تو وہ قانون کا بہانہ بنا کر کہتے ہیں کہ عدالت تو ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر فیصلہ سناتی ہے یہی قانون ہے اور سالوں سے یہی ہوتا آرہا ہے، گویا حقیقت جاننے کے باوجود عقل کو قانون کا غلام بنا دیا جاتا ہے جب کہ قانون عقل کے ذریعے ہی وجود میں آیا ہے اور عقل کو ہی قانون کے سامنے کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے۔۔۔
عدالت میں انصاف کی ایک مورتی رکھی ہوتی ہے جس کے ہاتھ میں انصاف کا ترازو ہوتا ہے اور آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے اس مورتی سے یہ اشارہ دینا مقصود تھا کہ قانون اندھا ہوتا ہے وہ اپنے اور غیروں میں پہچان نہیں کرتا آنکھیں بند کر کے انصاف کے ترازو کے دونوں پلڑوں میں مدعی اور مدعی علیہ کے دلائل کو رکھ کر پلڑا جھکنے والے کے حق میں فیصلہ کردیتا ہے خواہ ہلکے پلڑے والا اس کا اپنا ہو؛ لیکن اب انصاف کے ٹھیکے داروں نے اس کا یہ مطلب نکال لیا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے وہ حقیقت جان کر بھی ان دیکھا کرتا ہے اور فیصلہ اسی کے حق میں سناتا ہے جو اس کے نزدیک مضبوط ہوتا ہے، کمزور شخص انصاف سے ہمیشہ محروم رہتا ہے یا تاریخ پر تاریخ لے لے کر خود تاریخ کا ایک حصہ بن جاتا ہے اور فائل بند ہوجاتی ہے۔
منصفِ وقت ہے تو اور میں مظلوم مگر
ترا قانون مجھے پھر بھی سزا دے گا
میں نے انسانیت کو مال داروں کے بنگلوں میں تلاش کیا تو دو طرح کے لوگ نظر آئے بخیل اور فضول خرچ، بخیل کی تو بات چھوڑیے اس کی فطرت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اگر وہ حضرتِ فاطمہؓ کا پڑوسی ہوتا اور رات کے وقت ماں کی آہیں اور بچوں کی بھوک کی وجہ سے نکلتی کراہیں سنتا تو بھی اس کا دل نہیں پگھلتا اور نہ ہی اپنے کانوں میں روئی ٹھونستا کہ آواز سنائی نہ دے کیونکہ اسے اپنے پتھر جیسے دل پر اتنا اعتماد ہوتا ہے کہ کوئی بھی آہ و کراہ اس کے پتھر دل کو موم نہیں کرسکتی۔
اور فضول خرچی کرنے والا امیر یا تو حسینوں میں نظر آئے گا یا عشرت گاہوں میں اور یہ دونوں ہی راستے انسانیت کے راستے سے بالکل الگ ہیں۔
میں نے انسانیت کو سیاسی مجلسوں میں بھی تلاش کیا؛ لیکن وہاں بھی یہی دیکھا کہ عہد و پیمان، اتحاد و اتفاق، شروط و قواعد، اصول و ضوابط سب کا مطلب ایک ہی ہے اور وہ ہے جھوٹ!
کرسی پر بیٹھنے کے بعد نیتاؤں اور وزیروں کا سب سے پسندیدہ مشغلہ عہد و پیمان کو توڑنا اور عوام کو تنگ کرنا ہوتا ہے۔۔انہیں اپنے ملک کے لوگوں سے زیادہ پڑوسی ملکوں کی دشمنی محبوب ہوتی ہے۔۔انہیں اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ قوم کس حال میں ہے اور جنگ کی صورت میں ملک کی معاشی حالت کس قدر گر سکتی ہے؟
انسان نے انسان کو اپنا سب سے بڑا دشمن بنا لیا ہے، ہر ملک نے میزائل، ٹینک، بندوق، گولہ بارود، لڑاکے طیارے، اور بموں کا ذخیرہ کرکے رکھا ہوا ہے، جب کسی بات پر دو ملکوں کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تو انسان انسانیت کا لباس اتار کر حیوانیت کی پوشاک چڑھا لیتا ہے اور پھر حیوانیت کا وہ کھیل شروع ہوتا ہے کہ وحشی جانور بھی تھرا جاتے ہیں۔
آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر
ایک تنہا آدمیت ہی نہیں
اگر دونوں ملکوں کے سپاہیوں سے پوچھا جائے بھائی تمہیں کیا ہوا ہے؟ اور یہ قتل وغارت گری کیوں؟ یہ جو غصہ تمہارے اندر ہے یہ کیسے پیدا ہوا؟ لڑائی کی وجہ کیا ہے؟ جسے تم قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہو شاید اسے جانتے بھی نہیں ہو؟ تو اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ اس کے بادشاہ کا یہی حکم ہے۔
دونوں ملک کے فوجی انسانیت کے مقصد سے نہیں آئے ہیں بلکہ وہ اپنے بادشاہ کے تاج کو گرنے سے بچانے آئے ہیں جس کی قیمت ہزارہا جانوں سے بھی قیمتی ہے!!!!!
اے آسمان تیرے خدا کا نہیں ہے خوف
ڈرتے ہیں اے زمین ترے آدمی سے ہم
انسانیت کو میں نے علمائے دین میں بھی تلاش کیا لیکن افسوس معدودے چند علما کے اکثر کو عقل کی تجارت کرتے دیکھا، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کے ذہن کو دین کے نام پر اپنے قابو میں کرکے ان کے احساسات و جذبات سے کھیلیں اور سامانِ عیش و عشرت درآمد کرتے رہیں۔
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
غرض ایں کہ میں نے انسانیت کو ہر جگہ تلاش کیا لیکن اسے پانے میں ناکام رہا، کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ شراب خانوں یا جوؤں کے اڈوں پر چلا جاؤں یا چمبل گھاٹی جاکر دیکھوں یا جیل کی سلاخوں کے پیچھے تلاش کروں شاید انسانیت انہیں جگہوں میں جاکر بس گئی ہو!
کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ انسانیت کے معاملے میں مَیں نے مبالغے سے کام لے لیا ہے، انسانیت اس درجہ بھی مفقود نہیں جیسی میں بیان کر رہا ہوں بلکہ انسانیت ابھی بھی زندہ ہے اور انسانیت نواز بندے کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
ان کا یہ اعتراض درست ہوگا؛ میں انسانیت کے وجود کا منکر نہیں لیکن اس کے مقام کا مجھے علم نہیں، لوگوں کی ریا کاری اور دکھاوے نے میری آنکھوں کے سامنے شک کا ایسا پردہ ڈال دیا ہے کہ انسانیت کا صرف دھندلا منظر نظر آتا ہے، اس کی مکمل صورت دکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی اس کی جگہ کا علم ہوپاتا ہے۔
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
ہر انسان کا یہ دعوی ہے کہ وہ انسانیت نواز ہے، ہر انسان انسانیت کا لباس پہنے نظر آتا ہے، اور انسان بننے کی کوشش میں ایسے ایسے جتن کرتا ہے کہ برے سے برا انسان بھی اسے انسان سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے، لیکن جب وہ اپنی فطرت پر آتا ہے تو آنکھیں شرم سار ہوجاتی ہے۔۔۔اب مجھے کوئی بتائے کہ انسانیت کا صحیح مقام طے کروں تو کیسے کروں؟
جانور آدمی فرشتہ خدا
آدمی کی ہیں سیکڑوں قسمیں
لوگ خوش نصیبی ،عیش و عشرت اور سعادت و خوش بختی کی زندگی کی باتیں کرتے ہیں اگر ایسی کوئی زندگی ہوتی ہے تو میرے لیے سب سے بڑی خوش نصیبی یہ ہوگی کہ زندگی کے کسی موڑ پر کسی پل ایسا انسان مل جائے جس کی محبت اور صداقت بالکل خالص ہو، اس کا دل غرض و لالچ سے بالکل پاک ہو، نیک دل ہو، حریص نہ ہو، نہ دل میں بغض و کینہ رکھتا ہو نہ ہی اس کے دل میں عداوت کی چنگاری بھڑکتی ہو، اس کی گفتگو خلوت میں بھی میرے بارے میں ویسی ہی ہو جیسی جلوت میں ہوتی ہے، زبان کا سچا ہو، نہ جھوٹ بولتا ہو نہ چغلی کرتا ہو، نہ کسی کا مذاق اڑاتا ہو نہ ہی بد زبانی کرتا ہو، شریف ایسا کہ اسے انسانیت سے بے پناہ پیار ہو اور شیطانیت سے اتنی ہی نفرت!
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
اسلام کے بعد سعادت اور خوش نصیبی کچھ اگر ہے تو ایسے ہی انسانوں کا ساتھ ہے اور ایسے ہی اخلاق کے مجموعے کا نام انسانیت ہے، لیکن کیا آپ نے کبھی انسان دیکھا ہے؟ میں نے تو نہیں دیکھا! ۔
گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
اگر میرے کاندھوں پر کچھ ذمہ داریاں نہ ہوتیں تو میں اس شور شرابے کی دنیا چھوڑ کر خاموش دنیا میں چلا جاتا، جہاں صرف اور صرف سکون ہوتا اور میں۔
*انسانیت بالا ترین ہنر، زیبا ترین صفت، وعالی ترین عبادت است*
ن – م – ل – م
Comments are closed.