گائے کا قضیہ برہمن واد کے تناظر میں

?️ احمد نور عینی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
برہمن واد کے تاریخی پس منظر اور نظریاتی ڈھانچہ سے واقف ہونا اور اس کے شاطرانہ ومفسدانہ کردار کا ادراک کرنا بہت ضروری ہے، برہمن واد کی خطرناکی وسنگینی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ اس ملک کا نا سور اور قومی سالمیت کے خلاف سب سے بڑا خطرہ ہے، یہ بات واضح ہے کہ برہمنیت کے نزدیک سب سے اہم اگر کوئی چیز ہے تو وہ ہے برہمنیت کی بالادستی اور بھارتی سماج کی ذہنی وفکری غلامی، برہمنیت اس مقصد کے حصول کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتی ہے، وہ اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی بھی دے سکتی ہے، گائے کے مسئلے میں ہی دیکھ لیجیے کہ ایک وقت تھا کہ برہمن اس ملک کے سب سے بڑے گاؤ خور تھے، یگیہ کے نام پر اس قدر جانور ذبح ہوتے کہ ہردن برہمن کے لیے بقر عید اور گاؤ خوری کا دن ہوتا، گوتم بدھ نے برہمنیت کا زور توڑنے کے لیے جب یگیہ کے خلاف عوام کی ذہن سازی کی تو برہمن نے یگیہ میں جانور ذبح نہ کرنے کی عظیم قربانی دی، اور برہمنیت کو دوبارہ مستحکم کرنے کے لیے گائے کو مقدس قرار دے کر خود بھی اس کی پوجا شروع کی اور عوام کی بھی ذہن سازی کی، یگیہ میں جانوروں کی قربانی ترک کرنے سے کھانے پینے اور پیٹ پالنے کا ذریعہ ختم ہوا تو اس کے لیے برہمنیت نے مندر کلچر کو فروغ دیا اور اس طرح اپنی شکم پروری کا سامان کیا۔ برہمنیت کے بارے میں یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی کتاب The Untouchables کو پڑھنے سے سمجھ میں آئیں گی۔
گائے کے قضیہ کو برہمن واد کے تناظر میں سمجھنے اور برادران وطن کو سمجھانے کی ضرورت ہے، قانونی پابندیوں کی وجہ سے گاؤکشی سے رکنے کا مشورہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، بل کہ ضرور دینا چاہیے؛ لیکن اس مسئلہ میں حد سے زیادہ دفاعی ہونا اور ذبح گاؤ کے خلاف مسلمانوں کی عمومی ذہن سازی کرنا مناسب نہیں ہے، یہ قضیہ برہمن واد کا چھیڑا ہوا ہے اس لیے اس قضیہ کو لے کر برہمن واد کی جڑوں پر نشتر چلانے کی ضرورت ہے، اس مسئلہ میں سب سے زیادہ حساس اگر کوئی طبقہ ہے تو وہ بی سی کا طبقہ ہے، گائے کو لے کر اس طبقے کی حساسیت بہت قدیم ہے، اس طبقے کے اندر یہ حساسیت پیدا کرکے برہمن واد نے ان کے ذریعہ اچھوتوں پر ظلم کرائے، ڈاکٹر امبیڈکر کی تحقیق تو یہ ہے کہ برہمن واد نے پست طبقات (ایس سی) کو اچھوت اسی بنیاد پر بنایا، ظاہر ہے کہ پست طبقات (موجودہ ایس سی) کو اچھوت صرف برہمن یا آریہ نے نہیں سمجھا؛ بل کہ شودر (موجودہ بی سی) نے بھی سمجھا،بھارت میں اسلام آنے کے بعد برہمن واد نے یہی حربہ مسلمانوں کے خلاف اپنایا، اور سلطنت مغلیہ کے سقوط کے بعد اس میں مزید شدت پیدا کی، گویا گائے کا قضیہ جو برہمن واد کا چھیڑا ہوا ہے اس کی زد میں صرف مسلمان نہیں ہیں؛ بل کہ ایس سی ، ایس ٹی ، بی سی بھی ہیں، اس قضیہ کا مقصد برہمن واد کا وَرُچَسُو ہے، گائے کے اس قضیہ کی حقیقت اور اس کا برہمنی پس منظر مشتعل ہوئے بغیر حکمت وسنجیدگی سے یہاں کے سماج کو سمجھانے کی ضرورت ہے، ایس سی، ایس ٹی کو ساتھ لینا مشکل نہیں ہے، بی سی طبقے کے باشعور بہوجن کاری افراد کو ساتھ لینابھی مشکل نہیں ہے، ان سب کو ساتھ لے کربھارتی سماج کے اور خاص کر بی سی طبقہ کے ذہنی غلاموں کو گائے کا قضیہ سمجھانے اور انھیں اس غلامی سے نکالنے کی ضرورت ہے،برہمن واد کےشکار ذہنی غلاموں اور خاص کر بی سی طبقہ کے جذباتی نوجوانوں کو سمجھانا مشکل ضرور ہے؛ لیکن ناممکن نہیں ہے اور اس کام میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی مذکورہ بالا کتاب بہت مددگار ثابت ہوگی۔ برہمن واد نے اس ملک میں آئیڈیالوجی کی جنگ چھیڑی ہوئی ہے، وہ اپنی اس جنگ میں گائے کے قضیہ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، ذبح گاؤ اور جیو ہتیا کو گوتم بدھ نے برہمن واد کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا جسے برہمن واد نے بڑی چالاکی سے اپنا ہتھیار بنا لیا اور اپنے کو دوبارہ مستحکم کرنے میں کامیاب ہوگیا، برہمن واد نے یہ ہتھیار کسی زمانے میں شودر واتی شودر کو آپس میں لڑانے کے لیے استعمال کیا اور ادھر زائد از ایک صدی سے "ہندو” کو مسلم قوم کے خلاف بھڑکانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، برہمن واد نے جیسے اپنے خلاف استعمال ہونے والے اس ہتھیار کو اپنے استحکام کے لیے استعمال کیا ویسے مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے خلاف استعمال ہونے والے اس ہتھیار کو مومنانہ فراست سے کام لے کر اپنے استحکام کا ذریعہ بنائیں، برہمن واد نے ہندوتو کا نقاب اوڑھ کر سوسالہ شبانہ روز کی محنت سے "ہندو” صف بندی کا جو کام کیا ہے اسے گائے کے اس قضیہ کے ذریعہ دولخت کریں، یہ کام مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں، ہو سکتا ہے اس کام میں سو سال لگیں، لیکن حکمت اور منظم ومستحکم منصوبہ بندی سے کام ہوگا تو یقینا کامیابی ملے گی۔
Comments are closed.