Baseerat Online News Portal

عید الاضحی کا پیغام! از شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

عشق کی یہ خاصیت ہے کہ وہ محبوب کی ایک اک ادا کو جاں نواز بنادیتا ہے، زندگی اس کے چشم ابرو پر نثار ہوجاتی ہے، اس کے ایک اشارے پر سرمایہ حیات کا لٹ جانا بھی عاشق کے لئے فخر وسعادت سے کم نہیں، اس کوچے میں عقل وخرد کا گذر نہیں ہے، یہاں صرف جنون کی حکمرانی ہے ، اس کشور سنگلاخ میں فرزانگی ودیوانگی کی فرمانروائی ہوتی ہے، عشق کی حرارت سے معمور ایک فرزانہ جب اس راہ پر قدم رکھتا ہے تو سود وزیاں سے بے خبر پروانہ وار بڑھتا چلا جاتا ہے اور پھر
اثاثہ زندگی قربان کرکے وقت کے سینے پر عشق ووفا کی داستان رقم کرجاتا ہے۔

صدیوں پہلے 1810قبل مسیح میں عراق کے اوز نامی بستی میں پیدا ہونے والے ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عشق نے شاہراہ زندگی کے ایک اک قدم پر وارفتگی وفرزانگی کے جو نقوش ثبت کئے ہیں وہ عشق کا ایک ایسا سنہرا باب ہے جس کی مثال سے آج تک دنیا خالی ہے، وارفتگی اور وفا کی وہ داستان ہے جس کی نظیر سے تاریخ کے اوراق خالی ہیں۔

محبوب کی منشا ہوئی، تو اس عاشق خدا نے صنم خانے میں اس کے نام کا نعرۂ توحید بلند کیا، بت خانے میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی کی صدا لگائی، اس کی مرضی ہوئی تو وجود کو دہکتے آگ کے شعلوں میں جھونک دیا ،اس کا حکم ہوا تو وطن کو خیر باد کہہ دیا، پھر زندگی کی آخری منزل میں اشارہ ہوا کہ جادہ الفت کا تقاضا ہے کہ زندگی کی سب سے قیمتی متاع بھی نثار ہوجائے۔
آزمائش کی یہ راہ ایسی نہ تھی کہ آسانی سے اس پر زندگی اپنا قدم رکھ دے، یہ امتحان اپنی ذات سے متعلق نہیں بلکہ اس لخت جگر سے وابستہ تھا جو سالہا سال کی آرزوؤں اور تمناؤں کا نتیجہ تھا، ذہن ودماغ سے لیکر شعور وعقل تک کی ساری مملکت عالم تحیر میں داخل ہوگئیں،مگر عشق کی ایک وسیع کائنات تھی اور جنون ووفا کا ایک بحر بیکراں تھا جس نے مطلوبہ متاع حیات کو بھی منی کی وادی میں قربان کرکے قیامت تک دنیائے انسانیت کے لیے الفت ومحبت، دیوانگی و وارفتگی ،سرافگندگی وجاں سپاری اور عشق ووفا کی بے نظیر مثال قائم کردی۔

عید الاضحی کے موقع پر قربانی دراصل اسی اطاعت شعاری،وفا شعاری، الفت ومحبت، عشق ومستی اور خداوند عالم کے ایک اک حکم پر جاں نثاری کا پیغام ہے، یہ لمحہ مبارک صرف ایک تیوہار نہیں بلکہ عبدیت،اطاعت ، سرافگندی، وارفتگی، وفاشعاری اور
اخلاص وپاکیزگی میں ڈھلی ہوئی بندگی کا مظہر بھی ہے، اور ایمان ویقین،اطاعت وفرمانبرداری، اور جذبہ عمل کی بیداری کا وقت بھی۔ کہ خدا کی راہ میں مویشیوں کو قربان کرکے انسان یہ عہد کرے کہ زندگی کی تمام ساعتیں معبود حقیقی کے نام کردی جائیں گی ، اس کی اطاعت کی راہ میں نفسانی خواہشات بھی قربان ہوں گی اور دنیا کی آسائشوں کے لئےجدو جہد کے تمام دشت و صحرا بھی، اس کے احکامات کی تعمیل میں مناصب بھی قربان ہوں گے اور عہدے بھی، مادی اثاثے بھی نثار ہوں گے اور پست جذبات کے ماتحت دنیوی تعلقات کے نخلستان بھی،

اس عظیم الشان عید قربان کا یہی تقاضا ہے کہ زندگی سراپا بندگی بن جائے، وجود خدائے واحد کا شاہراہ حیات کے ہر لمحے میں پرستار ہوجائے، دنیا کی منفعت اس کے حکم کے آگے بے حیثیت ہوجائیں، قلب ونظر اس کی اطاعت وعبادت سے سرشار ھوجائیں، نفسانی مملکت،اور خواہشات کے جزیرے اس کی وفاکے سمندر میں اس طرح غرق ہوجائیں کہ زندگی کی تمام نقل وحرکت اسی کے محور عشق کے گرد گردش میں آجائے۔ جذبات کی یہ دنیا اگر اس مقدس لمحے میں رونما ھوجائیں، عزم جواں کے شراروں سے قلب کی دنیا اگر روشن ہوجائے، اور اطاعت شعاری وعدہ وفا روح میں اتر جائے تو بالیقین انسان کامیاب و کامران ہے بصورت دیگر قربانی کا یہ عمل ،ظاہری عبادت ہر چند ہوگی مگر روح سے بھی اس کا رشتہ موجود رہے ایسا ممکن نہیں ہے، کہ خدا کے یہاں قربان ہونے والے جانوروں یا اس کے کسی حصے کی رسائی نہیں،اس دربار اعلیٰ مقام میں تو صرف جذبات واحساسات پہونچتے ہیں۔
لن ینال اللہ لحومہما ولا دماءھا ولکن ینالہ التقویٰ منکم ( الحج آیت 37)

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوار گوونڈی ممبئی

Comments are closed.