اپنے اندر نرمی اور سہولت پیدا کیجئے.! از:محمد قمرالزماں ندوی مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

انسان کی اہم اور بنیادی صفات و کمالات، اوصاف اور خوبیوں میں سے یہ بھی ہے، کہ اس کے اندر نرمی ،سہولت، شفقت ،ہمدردی، پیار، انس اور محبت ہو، اس کی طبعیت میں حد درجہ رفق و سہولت پائی جاتی ہو ،خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حد درجہ شفیق مہربان، رفیق اور نرم طبیعت کے حامل تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرمی اور شفقت کے واقعات سے سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو خاص طور پر اس وصف اور خوبی کو اپنانے کی تلقین کی اور دوسروں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا بطور خاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ۔
*یسروا و لا تعسروا ۔ و بشروا ولا تنفروا*) بخاری و مسلم )
آسانی پیدا کرو ،سختی نہ کرو۔ اور بشارت دو نفرت نہ دلاؤ ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لئے نرمی اور سہولت چاہتے تھے ،سختی اور مشکل، پسند نہیں فرماتے تھے ۔ آپ کے پیش نظر ہمیشہ امت کی سہولت رہتی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ تھی کہ طاعات کے معاملہ میں ترغیب سے کام لیا جائے تاکہ اطاعت لوگوں کے لئے آسان ہو جائے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مزاج میں نرمی اپنانے اور سختی اور درشت مزاجی سے باز رہنے کی خاص تاکید فرماتے تھے ۔
ایک موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا: علیک بالرفق ان الرفق لا یکون فی شئی الا زانہ ولا ینزع من شئی الا شانہ ( صحیح مسلم)
اے عائشہ ! اپنے اندر نرمی اور سہولت پیدا کرو ،اس لئے کہ نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے، اسے خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی اٹھا لی جائے وہ اسے عیب دار کر دیتی ہے ۔
نرمی محبت و شفقت اور رحم دلی حسن اور جمال و کمال کا باعث ہے ،جب کہ اس کے برعکس سختی اور گرم مزاجی و درشت مزاجی عیب ناکی اور محرومی کا سبب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نرمی اور رفق ایک پسندیدہ عمل اور محبوب وصف ہے، جس سے انسان کے اخلاق و کردار اور سیرت و اطوار میں حسن پیدا ہوتا ہے اور جس سے عند اللہ مقبولیت و محبوبِیت حاصل ہوگی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی خود بھی رفیق یعنی نرمی فرمانے والا ہے ۔ اللہ تعالٰی نرمی پسند کرتا ہے ۔ اور نرمی پر جس طرح اپنے بندے کو عطا کرتا اور نوازتا ہے، سختی کرنے پر اتنا نہیں نوازتا ہے ۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک دوسرے موقع پر فرمایا: *من یحرم الرفق یحرم الخیر* (مسلم شریف)
جو نرمی سے محروم کردیا گیا وہ بھلائی اور خیر و خوبی سے محروم کر دیا گیا ۔
سماج میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو سختی کو اور گرم مزاجی کو اچھا سمجھتے اور خیال کرتے ہیں اور یہ منفی اور فاسد سوچ اور گمان رکھتے ہیں، کہ اس سے سامنے والا مرعوب و متاثر ہوتا ہے ۔ اور یہ کہ سخت رہنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ ڈرے سہمے رہتے ہیں اور عزت کرتے ہیں ۔ چنانچہ وہ اپنے ماتحتوں، بیوی بچوں، والدین ، نوکروں اور خادموں دوستوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ سختی سے پیش اتے ہیں، تاکہ ان کے زعم باطل اور فکر فاسد کے مطابق ان کا وقار اور ان کی شان و شوکت اور جلوہ و رعب و دبدبہ قائم اور باقی رہے ۔ لیکن یاد رہے ایسا سوچنا اور سمجھنا خام خیالی بے وقوفی اور کم عقلی ہے ۔ سختی اور مزاج کی گرمی سے اگر رعب و دبدبہ قائم ہوتا بھی ہے، تو وہ صرف ظاہری حد تک اور بالکل وقتی اور عارضی ہوتا ہے ،جب کہ نرمی شفقت و محبت اور پیار سے جو وقار اور رتبہ و مقام حاصل ہوتا ہے وہ انسانوں کے دلوں کی اتاہ گہرائیوں میں جاگزیں ہوتا ہے اور نہایت پائیدار اور مضبوط ہوتا ہے ،حتی کے موت بھی اس کو دلوں سے نکالنے پر قادر نہیں ۔ مرنے کے بعد بھی نرم دل اور شفیق و مہربان شخص کو لوگ نہایت عزت و احترام اور عظمت و رفعت سے یاد کرتے ہیں ۔
یہاں یہ غلط فہمی بالکل نہ ہو کہ زندگی کے ہر موڑ اور ہر مقام پر شریعت میں نرمی اور سہولت ہی مطلوب ہے، بالکل نہیں یہ حالت اور کیفت نارمل حالت میں ہے ،لیکن اگر کہیں شریعت کی کھلم کھلا نافرمانی ہو رہی ہو ،حرام کا ارتکاب ہو رہا ہو ،کھلے عام منکر اور غلط کاری ہو رہی ہو اور سمجھانے کے بعد بھی لوگ نہ سمجھ رہے ہوں ،تو وہاں نرمی اور سہولت بالکل ہی مطلوب نہیں ہے ،بلکہ وہاں سختی، ڈانٹ ڈپٹ اور سزا ضروری ہے ۔ یہ عین سنت نبی اسوئہ رسول اور حکم شریعت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی ثابت ہے ۔ ایک موقع پر مسجد نبوی کی دیوار پر کسی نے تھوک دیا تھا دیوار پر تھوک اور رینٹ کے نشانات صاف دکھ رہے تھے، اتفاقا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑ گئی، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور چہرئہ مبارک سرخ ہو گیا، سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور اپنے دست مبارک سے صاف فرمانے لگے ۔ اس سے پتہ چلا کہ ایسے موقع پر سخت ہونا بھی ضروری ہے ۔
Comments are closed.