صبر ایوبی سے حاصل موعظت و عبرت کے پہلو محمد قمرالزماں ندوی جنرل سکریٹری: مولانا علاؤالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ رابطہ: 9506600725

اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآن مجید کی سورہ ”صٓ“ میں چند پیغمبروں کے اوصاف و کمالات اور خصوصیات کا ذکر کیا ہے اور اخیر میں یہ فرمایا کہ وہ سب ہاتھ والے اور آنکھ والے تھے، یعنی ان کو جسمانی قوت اور ذہنی بصیرت اعلی درجہ میں حاصل تھی ، وہ معرفت اور عملی صلاحیت کے اعلی مقام پر فائز تھے۔ ان پیغمبروں میں سے ایک حضرت ایوب علیہ السلام بھی ہیں، جن کا خصوصیت کے ساتھ اس سورہ میں تذکرہ کیا گیا ہے، نیز ان کے صبر و شکر، تحمل و برداشت اور خدا کی مرضی امتحان اور حکم و فیصلہ پر سو فیصد آمنا و صدقنا کہنے کی مثال قرآن نے پیش کیا ہے۔ 

حضرت ایوب علیہ السلام بنی اسرائیل کے برگزیدہ لوگوں میں تھے، اللہ تعالی نے آپ کو رسالت و نبوت سے سرفراز کیا ۔ آپ کا زمانہ مورخین کی تحقیق کے مطابق نویں صدی قبل مسیح کا ہے۔ آپ کو اللہ نے کافی مال و دولت سے نوازا تھا ۔ مگر آپ مال و دولت میں گم ہوجانے کے بجائے خدا کی عبادت کرتے، ذکر و اذکار اور تسبیح و اوراد میں اپنا زیادہ وقت صرف کرتے اور لوگوں کو خدا کی طرف بلاتے، خیر کی دعوت دیتے اور برائی سے روکتے۔ کچھ کم فہم اور غلط قسم کے لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ایوب کو جب اس قدر مال و دولت حاصل ہے، اسباب و وسائل کی زیادتی ہے اور خوش حالی اور فارغ البالی حاصل ہے تو وہ دیندار اور پرہیز گار نہیں بنیں گے تو اور کیا کریں گے ۔ اللہ تعالٰی نے لوگوں پر حجت قائم کرنے کے لئے حضرت ایوب کو مفلس اور نادار بنا دیا ،مگر وہ حسب سابق اور بدستور اللہ کی عبادت کرتے رہے اور ان کی زندگی میں پہلے کے مقابلے میں کوئی فرق نہیں آیا اور زبان پر یہ جملہ آیا، اور انہوں نے کہا اللہ تعالی نے ہی دیا اور اس نے ہی یہ مال و دولت واپس لیا، بس اللہ تعالی کا نام بلند اور مبارک ہو۔
شریر اور بدخصلت لوگ اس پر بھی چپ اور خاموش نہ رہے؛ بلکہ آگے یہ کہنا شروع کردیا کہ اصل امتحان اور آزمائش تو یہ ہے کہ وہ جسمانی تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہوں اور پھر صبر و شکر پر قائم رہیں۔ اللہ تعالٰی نے لوگوں کو یہ نمونہ اور مثال بھی دکھایا ۔ حضرت ایوب کو سخت جلدی بیماری لاحق ہوئی اور ان کے جسم پر پھوڑے ہوگئے۔ مگر بدستور صبر و شکر کی تصویر بنے رہے ۔ جب لوگوں پر حجت تمام ہوگئی تو اللہ تعالی نے حضرت ایوب کے لئے ایک چشمہ جاری کیا، جس میں نہانے سے ان کا جسم بالکل تندرست اور ٹھیک ہوگیا اور مال و دولت بھی دوبارہ پہلے سے اضافہ کے ساتھ عطا فرمائے۔
حضرت ایوب علیہ السلام کی زندگی، صبر، آزمائش اور امتحان سے یہ سبق اور پیغام ملا کہ خدا جب اپنے دین کے لئے کسی کو استعمال کرتا ہے اور وہ شخص بغیر کسی تحفظ کے اپنے آپ کو خدا کے حوالہ کردیتا ہے، تو اللہ تعالی اس کو دوبارہ پہلے زیادہ نواز دیتا ہے، جتنا ماضی میں امتحانا اس سے چھین لیا تھا۔
حضرت ایوب علیہ السلام کے اس واقعہ میں صبر وضبط، استقلال و استقامت اور مصائب و مشکلات میں شکر و سپاس گزاری کے اتنے اسرار اور حکمتیں ہیں، جو اہل بصیرت کے لئے سراپا درس عبرت ہیں ، عبرت و بصائر کے چند پہلو ہم قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
بندگان خدا میں سے جس کو اللہ تعالی کے ساتھ جس قدر تقرب حاصل ہوتا ہے اسی نسبت سے وہ مصائب و مشکلات کی بھٹی میں زیادہ تپایا جاتا ہے اور جب وہ ان کے پیش آنے پر صبر و استقامت سے کام لیتا ہے تو وہی مصائب و مشکلات اور آزمائش و امتحان عند اللہ اس کے درجات کی بلندی کے سبب بن جاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مصائب میں سب زیادہ سخت امتحان انبیاء کرام علیہم السلام کا ہوتا ہے۔ اس کے بعد صلحاء کا نمبر ہے اور پھر حسب مراتب و درجات۔
انسان اپنے دین کے درجات کے مناسب آزمایا جاتا ہے، پس اگر اس کے دین میں پختگی اور مضبوطی ہے، تو وہ مصیبت کی آزمائش میں بھی دوسروں سے زیادہ ہو گا۔
انسان کو چاہیے کہ کسی حالت میں خدا تعالی کی رحمت سے ناامید نہ ہو، اس لئے کہ قنوطیت کفر کا شیوہ ہے اور یہ سمجھے کہ مصیبت و بلا گناہوں کی پاداش ہی میں وجود پذیر ہوتی ہیں، بلکہ بسا اوقات آزمائش اور امتحان بن کر آتی ہے اور صابر و شاکر کے لئے اللہ تعالی کی آغوش رحمت وا کرتی ہیں۔
عیش و عشرت اور آرام میں تواضع و شکر اور رنج و غم میں ضبط و صبر دو ایسی بیش بہا نعمتیں ہیں کہ جس شخص کو یہ نصیب ہوجائے وہ دین و دنیا میں کبھی ناکام نہیں رہ سکتا۔
حضرت ایوب علیہ السلام امتحان و آزمائش کے دنوں میں سراپا صبر بنے رہے اور کسی طرح تنگی اور شکوہ زبان پر آنے نہیں دیا یہی انبیاء کرام اور اہل اللہ اور خاصان خدا کی خصوصیت ہے۔
حضرت ایوب علیہ السلام نے بیماری کے ایام میں کسی بات پر قسم کھا لی تھی کہ اچھے ہوگئے تو اپنی بیوی کو سو لکڑیاں ماریں گے۔ (اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس پاک بیوی نے حضرت ایوب کی انتہائی تکلیف سے بے چین ہوکر کچھ ایسے کلمات کہہ دئے تھے جو صبر ایوبی کو ٹھیس پہنچانے والے اور خدائے واحد کی جناب میں شکوہ کا پہلو لئے ہوئے تھے، حضرت ایوب علیہ السلام اس کو برداشت نہیں کرسکے اور قسم کھا کر فرمایا میں تجھ کو سو کوڑے ماروں گا)
جب حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش کی مدت ختم ہوگئی اور وہ صحت یاب ہوئے تو قسم پوری کرنے کا سوال آیا۔ ایک جانب غم گُسار بیوی کی انتہائی وفاداری غمخواری اور حسن خدمت کا معاملہ اور دوسری طرف قسم کو پورا کرنے کا سوال۔
اللہ تعالٰی نے اس قسم کو پورا کرنے اور نیک بیوی کی نیکی اور شوہر کے ساتھ وفاداری کا یہ صلہ دیا اور اس کی یہ تدبیر انہیں بتائی کہ ایک جھاڑو لو جس میں ایک سو سینکیں ہو اور اس سے ہلکے طور پر اپنی بیوی کو مار دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے یہ نتیجہ بھی نکلا کہ مخصوص حالات میں بدرجہ مجبوری حیلہ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ وہ کسی حکم شرعی کو باطل نہ کرتا ہو ۔
حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش و امتحان اور ہر قسم کی بربادی کے بعد ان کے سارے ساتھی اور تعلق والے ایک ایک کرکے آپ سے الگ ہوگئے اور کوئی ہمدرد و غمگسار نہ رہا ،صرف آپ کی نیک اور باوفا بیوی آپ کی تیمار داری میں شریک رہتی تھی ۔
حضرت ایوب علیہ السلام اور ان کی وفا دار اور اطاعت شعار بیوی کے اس قرآنی واقعہ سے یہ پیغام ملا کہ میاں بیوی کے تعلقات میں وفاداری اور استقامت سب سے زیادہ محبوب شئ ہے، اور اسی لئے ایک حدیث میں شیطانی وساوس میں سب سے زیادہ قبیح وسوسہ جو شیطان کو بہت پیارا ہے، میاں بیوی کے درمیان بدگمانی اور بغض و عداوت کا بیج بو دینا ہے، اسی لئے صحیح احادیث میں اس عورت کو جنت کی بشارت دی گئی ہے، جو اپنے شوہر کے حق میں نکو کار اور وفا دار ثابت ہو اور اس وفا اور محبت کی قدر و قیمت اس وقت بہت زیادہ ہوجاتی ہے، جب شوہر مصائب و مشکلات اور آلام و حوادث میں گرفتار ہو اور اس کے اعزا و اقربا تک اس سے دوری بنا چکے ہوں اور کنارہ کش ہوچکے ہوں ۔ چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام کی وفا شعار بیوی نے ایوب علیہ السلام کے زمانئہ مصیبت میں حسن وفا، اطاعت و تسلیم ،ہمدردی اور غمخواری کا ثبوت دیا، تو اللہ تعالی نے اس کے احترام اور عوض میں حضرت ایوب علیہ السلام کی قسم کو ان کے حق میں پورا کرنے کے لئے عام احکام قسم سے جدا ایک ایسا حکم دیا، جس سے اللہ تعالٰی کے یہاں اس نیک بیوی کی قدر و منزلت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ ( مستفاد از قصص القرآن ۲۔ ۱۹۶)

Comments are closed.