افغانستان کے موجودہ اور ماضی کے حالات، جمعیت علماےاسلام اور ”اےاین پی“ کی پالیسی۔ تحریر: مولانا امان اللہ حقانی

جوں ہی افغانستان سے امریکی اور نیٹو فورسز گھبراہٹ کے عالم میں نکلنا شروع ہوگئی ہے-اور حریت پسند مجاہدین طلبہ افغانستان کے طول و عرض میں بڑی سرعت کے ساتھ پھیلنا شروع ہوگئے تب سے اے این پی کے قائدین کے اوسان خطاء ہوگئے ہیں۔ آئے روز انکی قیادت جمعیت علماء اسلام پر بے سروپا الزامات لگارہی ہے-یہ لوگ جمعیت علماء اسلام پر طعنہ زن ہے کہ جمعیت افغانستان میں 80ء کی دہائی سے دہشت گردوں کی حمایت کررہی ہے-جس سے پشتونوں کا خون ہورہا ہے۔
آئیں ذرا تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں
تاریخ سے آگاہ لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ جب 1973ء میں ظاہر شاہ کے چچا زاد سردار داود خان نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا تو اس میں وہاں کی مذہبی جماعتوں اور جمعیت علماء اسلام کا کوئی کردار نہیں تھا-
پھر جب سردار داود کی حکمران جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان شدید اختلافات کے باعث خلق اور پرچم کے دو حصوں میں بٹ گئی- پرچمی لیڈر نور محمد ترکئی نے سردار داود سے حکومت چھوڑنے کا مطالبہ کیا مگر اس نے اس مطالبہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور یوں 28 اپریل 1978 کی صبح نور محمد ترکئی نے پرچم آرمی کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے اسکو "انقلاب ثور” کا نام دیا۔
یہاں بھی مذہبی وہاں کی مذہبی جماعتوں کا کوئی کردار نہیں رہا۔
پھر جب کمیونسٹ نور محمد ترکئ کو اکتوبر 1979ء میں قتل کیا گیا، تو اس کی قتل میں وہاں کی کوئی مذہبی جماعت شامل نہیں تھی بلکہ خلقیوں اور پرچمیوں کی آپس کی خانہ جنگی،چپقلش اور اقتدار کی رسہ کشی تھی۔
پھر میرے جیسے تاریخ کے طالب علم کو یہ بھی خوب یاد ہے کہ ترکئ کی جگہ لینے والے حفیظ اللہ امین کو وہاں کی قوم پرستوں نے انکو مختصر عرصہ کے لئے اقتدار میں رہنے کے بعد 1979ء میں قتل کیا-
اور پھر اسی سال دسمبر میں حفیظ اللہ امین کی جگہ لینے والے ببرک کارمل نے جب سوویت یونین کو افغانستان میں فوجیں داخل کرنے کی دعوت دی تو اس کے بعد یہاں آگ اور خون کا کیسا گھناؤنا کھیل کھیلا گیا ؟
اُس وقت تک تو وہاں کی کسی بھی مذہبی جماعت نے اس کشت و خون کے کھیل میں اپنا کوئی حصہ نہیں ڈالا تھا- کیا نجیب سمیت مذکورہ حکومتیں جمہوری طریقے سے منتخب ہوکر آئی تھیں۔
پھر جب افغانستان میں نام نہاد قوم پرستوں کی دعوت پر روس نے ایک مسلم ملک افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کرکے وہاں کی آبادی پر وحشیانہ طریقے سے چڑھ دوڑا تو اُس وقت سے وہاں کی مذہبی جماعتوں،غیرت سے سرشار پشتونوں اور حریت کے متوالوں نے اجنبی استعمار اور حملہ آور کے خلاف مزاحمت کی تحریک شروع کی۔ اب بھی پشاور یونیورسٹی میں پی ایس ایف کے نوجوانوں کے یہ نعرے میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ
"سرخ انقلاب جلد ہی تورخم بارڈر کراس کرنے والا ہے”
"سرخ ڈولی جلد ہی پہنچنے والی ہے”
یہ نعرے ابھی تک ہم بھولے نہیں۔ آپ بتائیں کہ افغانستان میں اس کشت و خون کا کھیل مذہبی جماعتوں نے شروع کیا تھا یا نام نہاد قوم پرستوں نے اپنوں کا خون بہانے کے بعد ستم بالائے ستم کرتے ہوئے سوویت یونین کی فوجوں کو دعوت دے کر ملک کو ایک لا متناہی خون ریزی میں دھکیل دیا-ان ایام میں قوم پرستوں کی قیادت روس کی ثناء خوانی میں مصروف تھی-پھر جب حریت پسند مجاہدین نے طویل قربانیوں کے بعد روس کو ذلت آمیز طریقے سے بھاگنے پر مجبور کیا تو جس طرح آج امریکہ نے قصداً عمداً خروج کا ایسا طریقہ اختیار کیا تاکہ یہ خطہ ہمیشہ بدامنی کا شکار رہے یہی طریقہ سوویت یونین نے بھی اختیار کیا تھا- جس کے بعد مجاہدین آپس میں لڑ پڑے- ان ابتر حالات میں سابق مخلص مجاہدین طالبان کی شکل میں اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے برق رفتاری کے ساتھ افغانستان کے زیادہ حصے پر کنٹرول حاصل کرکے مثالی امن قائم کیا- تاہم جمعیت علماء اسلام نے ان حالات میں بھی طالبان اور متحارب گروہوں میں مصالحت کرنے اور قیام امن کے لئے بھر پور کوششیں کیں- پاکستان کی نامور علمی شخصیات کے وفود بناکر افغانستان میں ان کی آپس میں مصالحت کرانے کے لئے بات چیت اور جرگے کیے؛ لیکن اس دوران ایک چھوٹے خطے کے علاوہ طا لبا ن پورے افغانستان کے حکمران بن گئے۔
پھر جب نائن الیون کا واقعہ پیش آیا تو امریکہ نے جینوا کنونشن اور تمام بین الاقوامی جنگی ضابطے پاوں تلے روندتے ہوئے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجاکر بش نے اس کو نویں صلیبی جنگ قرار دیا- اس دوران اے این پی کی قیادت نے کھل کر امریکی بربریت کی حمایت کی اور آناً فاناً سرخ ڈولی میں ملبوس دلہن کو کاندھوں سے اتار کر "سبز ڈولی” کو اپنے سرخ کاندھوں پر لاد دیا- جبکہ جمعیت علماء اسلام کی قیادت نے روز اول سے مظلوم کی حامی بن کر امریکی ظلم و بربریت کے خلاف ملک کے طول و عرض میں شدید احتجاج شروع کیا- یاد رہے کہ جنرل مشرف جونہی اقتدار پر قابض ہوا تو قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کو مشرف نے فوراً گرفتار کر لیا-اور پھر جب امریکی ظلم و بربریت کے خلاف میدان میں نکلے تو انکو پھر پابند سلاسل کردیا- اس دوران ہمیں خوب یاد ہے کہ اے این پی والے یہ نعرے لگارہے تھے کہ جنرل مشرف اور ولی خان ایک کشتی کے سوار ہیں۔
ہمیں یہ فلسفہ سمجھ نہیں آرہا کہ اس سے قبل اے این پی کی قیادت روس کے کیمونسٹ انقلاب کی نوید ہمیں پاکستان میں سناتی رہی لیکن روس کے نکلنے کے بعد جب امریکہ افغانستان پر قابض ہوا تو سرخ انقلاب کے نعرے کو پس پشت ڈال کر امریکی سرمایہ دارانہ ظالمانہ نظام کی حمایت کرنے لگی- لیکن یہ تبدیلی ویسے نہیں آئی بلکہ اسکا بہت بڑا معاوضہ لیا گیا جس سے ان کے گھر کے بھیدی سابق وزیراعلی حیدر خان ہوتی کے والد گرامی اور بیگم نسیم ولی خان کے بھائی اعظم خان ہوتی نے علی الاعلان پردہ اٹھایا تھا- ان کا دعویٰ تھا کہ اسکے عوض اسفندیارولی خان نے امریکہ سے 35 ملین ڈالر کا معاوضہ وصول کیا ہے-انہوں نے اس پر اے این پی کی قیادت کو کئی دفعہ مناظرے کا چیلنج بھی دیا تھا؛ لیکن وہ سامنا کرنے سے گریزاں رہی۔
اب اے این پی والے ہمیں اس سوال کا سیدھا سادھا جواب دیں کہ افغانستان میں ابتدائی کشت و خون کی حمایت آپ نے کی-پھر روس کی بربریت کو آپ نے خوش آمدید کہا اور اس بعد امریکی ظلم و بربریت کی کھل کر تم لوگوں نے فخریہ انداز سے حمایت کی- کیا باچا خان نے آپ کو یہ فلسفہ پڑھایا ہے؟ حالانکہ باچا خان نے تو شیخ الہند کی قیادت میں تحریک ریشمی رومال کے دوران اجنبی غاصب برطانوی استعمار کے خلاف طویل جدوجہد کی- آپ لوگوں نے روسی استعمار اور پھر امریکی سامراج کی حمایت کرکے باچا کا فلسفہ بہت پہلے دفن کردیا ہے۔ یہ فلسفہ تو اسفندیار ولی یا ایمل ولی خان کا ہوسکتا ہے؛ لیکن اس کا باچا خان کے فلسفہ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
Comments are closed.