قصہ امریکہ کی سیاسی بالادستی کا..! تحریر: فتح محمد ندوی

دوسری جنگ عظیم کی خونی داستان حیات کے بعد۔ امریکہ نے دنیا پر اپنی بالادستی کا خونی جشن ہیرو شیما اور اور ناگاساکی پر ایٹم بم کے گولے گراکر کیا۔ مشہور کالم نگار جناب حفیظ پرویز لکھتے ہیں۔ ہیرو شیما پر ایٹم بم گرانے کے بعد Enola gay نام کے امریکی جنگی طیارے کے پائلٹ کی آنکھیں چندھیا گئی تھی جب اس نے آنکھیں کھولی اور نیچے زمین پر دیکھا تو اسے جہنم کا منظر نظر آیا اس کے ساتھی پائلٹ نے جب نیچے دیکھا تو بے ساختہ اس کی زبان سے یا خدا یہ ہم نے کیا کردیا۔ نکلا۔۔ وہ ۶ اگست ۱۹۴۵ایک منحوس صبح تھی۔تین دن کے بعد ۹ اگست کی صبح اس نے جاپان کے ایک دوسرے شہر ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا۔ انقلاب سنڈے میگزین تیرہ اگست بروز اتوار ۲۰۱۷ء
ان دونوں مہلک ایٹمی ہتھیاروں کی تباہی سے جاپان میں کتنے انسانوں کی جانیں گئی اور کتنا نقصان ہوا اس کا کوئی اندازا نہیں لگایا جا سکتا میں تو یہ کہوں گا کہ جاپان نے انسانی لاشوں کے ملبے سے کسی راکھ کے ڈھیر میں دبے ہوئے قسمت والے نفوس کے بطن سے دوبارہ جنم لیا ہے کیونکہ کوئی انسان نام کا شخص ایسا صحیح سلامت جاپان کی سرزمین پر بچا ہی نہیں تھا۔جس سے جاپان کی قومی بقاء کا وجود از سر نو ہو جاۓ۔
امریکہ نے یہ سب جنگی جرائم روس کی بالادستی اور اس کے مغربی ایشیا سے اثر کو ختم کرنے کے لیے کیا تھا۔ کیونکہ انیسویں صدی میں سپر پاور کا تمغہ روس ہی کے پاس تھا۔تاہم اس مقصد کے لیے امریکہ نے مغربی ایشیا میں جگہ جگہ اپنے فوجی اڈے قائم کیے۔ اس طرح اس نے یہاں یعنی پورے مغربی ایشیا میں روس کو بالادستی کے میدان میں شکست دے کر یہ تمغہ اپنے نام کر لیا۔
امریکہ نے مزید اپنے سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے اور روس کے خطہ میں اثرات کو کم کرنے کے لیے مختلف میدانوں پر محاذ آرائی شروع کر دی ایک طرف اس نے روس سے سرد جنگ کا آغاز کر دیا دوسری طرف کچھ ملکوں میں خانہ جنگی کراکر وہاں کا اقتدار ان لوگوں کے حوالے کرا دیا جو ان کے تربیت یافتہ ذہنی غلام تھے۔ جیسے مصر۔ عراق۔ اور ایران وغیرہ میں ان لوگوں کے اقتدار حوالے کر دیا جو تمام عمر امریکی بالادستی کے لیے جان کھپانے میں معصوم شہر یوں کا خون چوستے رہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ امریکہ نے ان حکمرانوں اور ان ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی جن ہوں نے اس کے راستے میں حائل ہونے کی کچھ بھی کوشش کی۔ جیسے صدام حسین مرحوم اور اس طرح کی سوچ رکھنے والے دوسرے طاقت ور حوصلہ کے پابند حکمران۔
بہ شمول عراق کے دوسرے ایسے تمام ممالک جن ہوں نے امریکہ کے عزائم میں خلل ڈالنے کی کوشش کی وہی اس کی آنکھ کا کانٹا بن گیا۔پھر جھوٹے الزام لگا کر وہاں خون کی ندھیاں جاری کر دی۔ ہیرو شیما ناگاساکی۔ ویتنام ۔جرمن۔ افغانستان اور بہت سے افریقی اور عرب ممالک ان کی خونی داستان کی آج بھی گواہی دے رہے ہیں۔
جہاں بانی اور کشور کشائی کا یہ وجد آفریں جزبہ وقتا فوقتاً حالات اور زمانے کے اعتبار سے تغیر پذیر ہوتا رہتا ہے۔ کبھی یہ جنون جرمنی قوم کے سروں پر تھا لیکن فرانس اور برطانیہ نے اپنے اختلاف بھلا کر فوجی اتحاد قائم کر لیا اور جرمنی کی بڑھتی ہوئی بحری طاقت کو اپنے حق میں کرنے کی ہر ممکن کوشش کی بلکہ جرمنی نے فرانس کو ایک موقع پر جو ذلت ناک شکست کا مزہ چکھایا تھا۔ فرانس اس بدلے کے فراق میں بھی ء تھا۔اسی لیےاس نے برطانیہ سے اپنے اختلاف بھلا کر اس کے وجود کو مٹانے کی پلاننگ بنائی۔ برسوں سے فرانس برطانیہ اور جرمنی کی یہ کشمکش جاری رہے۔بلکہ یہی کشمکش جنگ عظیم اول کا سبب بنی۔آخر فرانس نے بڑی طاقتوں کے اتحاد سے جس میں روس اور بعد میں امریکہ بھی شامل تھا جرمنی کو شکست فاش دیکر اس کا نشہ ڈیھلا کر دیا بلکہ جرمنی کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔اور جرمنی شہنشاہیت ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئی۔ اب جرمن قوم کو پھر ہٹلر نے تازہ خون فراہم کیا لیکن فرانس اور برطانیہ نے فوجی اتحاد کرکے جرمن کو شکست کے قعر مذلت میں دھکا دید یا بلکہ یہ جرمنی کے ڈکٹیٹر ہٹلر کی خود کشی کا اس طرح سبب بنی کہ روس جنگ عظیم دوم میں امریکہ کا اتحادی تھا۔ ان سب نے اپنی فوجوں کو جرمن میں داخل کر دیا ان اتحادیوں نے جرمن کو شکست دے کر اس کی پیشانی پر ذلت و رسوائی کا نشان ثبت کردیا اس مدت میں یعنی جنگ عظیم دوم کے آخری ایام میں ہٹلر نے خود کشی کر لی۔
کچھ مدت تک فرانس۔ اٹلی۔ روس اور برطانیہ کا سکہ چلا لیکن زوال ان کا بھی آخر مقدر بنا اور ملک گیری کی ہوس نے انہیں بھی لاکھوں معصوم انسانوں کی جانوں کے سبب دنیا میں رسوائی ان کے گلے کا ہار بنی۔ اب ان سب کے زوال کے بعد یہ جنون اور ہوس اقتدار اور دنیا پر زور آزمائی کی خاطر امریکہ نے اس کا آغاز ناگاساکی اور ہیروشیما کے خونی سفر سے شروع کیا۔ انجام اس کا بھی شکست اور ذلت کی شکل میں ہوا یا کچھ وقت کے بعد یہ آگ جو اس نے معصوم انسانوں کے آشیانوں پر لگائی ہے ایک ایک امریکی گھر تک پہنچے گی۔ وقت اور تاریخ اس کو جلد ہی سچ ثابت کردیگا دیر آید درست آید۔
بہرحال جنگیں تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔دنیا کی تاریخ میں بہت سی مثالیں موجودہیں۔ تاتاری قوم جن کی انسانیت سوزی سے پوری دنیا واقف ہے لیکن اﷲ نے اس قوم سے دین کی حفاظت کا بڑا کام لیا،روس نے افغانستان کے اندر افغان کے معصوم انسانوں پر مسلسل نو سال تک آگ برسائی، ان کا خون ﷲ نے ضائع نہیں ہونے دیا،اس کی برکت سے روس کے ٹکڑے ہوے اورچھ بڑی مسلم ریاستیں روس کے قبضے سے آزاد ہوئی ماہرین کے مطابق اگر روس افغانستان کے اندر جنگی جنون کے ساتھ داخل نہ ہوتا تو وہ مسلم ریاستیں روس سے آزادی حاصل نہیں کرپاتی آج یہی صورت حال افغان قوم کی ہے۔ ان کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی بلکہ معصوم انسانوں کے خون سے یہ سر پھر زمین گل رنگ ہوگی۔
کیونکہ دنیا کے تمام ظالم لوگ بھوکے جا نوروں کیطرح ان کے خون کوچوس رہے ہیں ،شاید انسا نی تاریخ میں ایسے واقعات بہت کم انسانوں کو پیش آئے ہونگے جب انسانوں نے انسانوں کے ساتھ ایسا معاملہ کیا ہو جو حالات افغانستان میں اب دیکھنے کو مل رہے ہیں ،ایک ہی جسم ایک ہی خون ایک ہی روح اور ایک ہی باپ کی اولاد یہ انسان پھر ایسا کیوں ہو گیاہے؟ بس یہ اسی آخری صورت میں ممکن ہے جب انسان انسان نہ رہے وہ حیوان بن جا ئے اور انسانی مخلوق سے اس کا رشتہ ختم ہو جائے ۔
اس وقت افغانستان سمیت دنیا میں مسلمانوں کے جو حالات ہیں ،ان کے حوالے سے مسلم دنیا کی بے حسی پر جو بہت سے خدشات اور سوالات سامنے آئے ،وہ عالم اسلام کی قیادت اور مسلمانوں کے مستقبل کے لیے مایوس کن ہیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ جو مسلم قیا دتیں اس وقت مو ثر کردار ادا کرسکتی ہیں ،وہ اس قدر مصلحت شناس ہیں ،کہ دنیا میں ان کو صرف و ہی کام کرنے ہیں جو ان کے اقتدار کے تحفظ کو یقینی بنا سکے ،اس میں بات صرف کسی ایک ملک کی نہیں یا ٖصرف اس کی ذمہ داری سعودی حکو مت پر ہی نہیں بلکہ تمام مسلم حکومتیں اس کی برابر کی ذمہ د ا ر ہیں۔
ہو سکتا ہے اس مجرمانہ خاموشی کے پیچھے کچھ مسلم حکومتوں کی یہ سوچ ہو کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ہو نے دو ہمیں کو ئی مطلب نہیں ،تو پھر کچھ کہنا فضول ہے۔لیکن یہ مسلمانوں کا کام نہیں کہ وہ اپنے مسلم بھا ئیوں سے راہ فرار اختیا ر کریں ،ان کے دکھ درد میں شریک نہ ہو ، وہ بھی صرف اقتدار کی خاطر، جبکہ حکومت اور اقتدار کی جہاں تک بات ہے تو اﷲ جب تک چاہے گا اس وقت کو ئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے ، لیکن جب زوال آئیگا تو تما م تد بیرں تمام مصلحت شنا سی تما م خموشیاں رکھی رہ جا ئیں گی ،کو ئی بچانے نہیں آئیگا ،حال کی دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد اور گواہ ہے،صدام حسین، معمر قذافی حسنی مبارک، کچھ اور حکمراں جن میں نواز شریف اور پر ویز مشرف وغیرہ شامل ہیں ۔ان تمام پر گذرے ہو ے برے حالات موجودہ حکمرانوں کی ،عبرت کے لیے کافی ہیں ،مولا نا ابوالکلام آزاد ؒنے کہا تھا کہ جس طرح ہمارے جسم کے اندر ہر سانس ایک انقلابی حیثیت رکھتا ہے یعنی ایک سانس آ نے بعد دو سرے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے ،یہی صورت حال دنیا اور اس کے نظام کی ہے کب کہا ں کیا ہو جا ئے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے ۔
اس وقت جو حالات مسلمانوں کو دنیا میں در پیش ہیں ،ان کے حوالے سے دل برداشتہ ہو نے کی ضرورت نہیں ،بلکہ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ غور وفکر کے ذریعہ اس کا پتہ لگا یا جائے کہ یہ حالات اور مشکلات کیوں آئے ان کے پیچھے کیا وجوہات ہیں جب تک اصل مرض کی طرف رجوع نہیں کیا جا ئیگا اس وقت تک بیما ری کا علاج ممکن نہیں چاہے کتنے ہی ہا تھ پا ؤ ں ما ر لیے جا ئیں،ا س موقع پر غزوہ احد کا ذکر نا گزیر ہے ،غزوہ احد میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ ؑ کے تمام صحابہ شدید مشکلات سے دوچار ہوے ،آپ خود بھی شدید زخمی ہوے ،آپ کے چچا حضرت حمزہ سمیت تقریباً پچھتر صحابہ شہید ہو ے ، تو اس موقع پر غم کا ہو نا فطری تھا ،اﷲ کی طرف سے آ پ ؐ کو غمگین دیکھ کر تسلی دی گئی اور یہ آیت نازل ہو ئی’’ اور تم ہمت مت ہا رو ،اور رنج مت کرو،اور غالب تم ہی رہو گے ا گر تم پورے مومن ر ہے‘‘( سورہ آل عمران آیت ۱۳۹) پھر اﷲ نے آپ کی مدد فرمائی اور فتح وکامرانی آپ کے اور کے صحابہ کے حصہ میں آئی۔بہرکیف اﷲ کی مدد اسی صورت میں آئی گی جب صبر شکر اور تقوی اختیار کیا جا ئیگا۔
Comments are closed.