مری عزیزہ سلمک اللہ! تم صبر کرنا۔۔! تحریر: محمد صابر حسین ندوی

محمد صابر حسین ندوی
ایک شخص ہندوستان کے قدیم ترین علمی ادارے کا فارغ التحصیل، اعلی علمی لاحقہ رکھنے والا، مسنون داڑھی، جبہ، دستار، ٹوپی اور ٹخنے سے اوپر پائجامَہ پہننے والا، غالباً پنج وقتہ نمازی، اپنے آپ کو دیندار اور سنت کا متبع کہلوانے والا جب لاکھوں کی رقم اپنے فرزند کیلئے شادی کے نام پر نقد لے، اپنی مرضی و خواہش کے مطابق ایک ایک سامان، فرنیچر اور گھریلو ضروریات کی اشیاء خرید وائے، پھر جب کوئی معمولی نقص نکل آئے تو اس پر تماشہ کروائے، یوں لگے مانو کوئی بولی لگ رہی ہے، بازار سجا ہے اور ایک باپ فاخرانہ بولیاں لگا رہا ہے، ایک باپ کی ضعیفی، فقیری اور لاچاری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے ایک بیٹی کا باپ ہونے کی سزا دے، اس کے آنسوؤں، آہوں اور فکروں کا سودا نرینہ اولاد کی بھینٹ چڑھائے، ان سب کے باوجود دنیا کو یہی بتائے کہ وہ معصوم ہے، اپنے گناہوں، کرتوتوں اور حرام کاری کو دوسروں کے پردوں میں چھپائے اور دوسرے بھی زمانے کی باتیں، رسمیں اور رواج کی پشت پناہی میں سب کچھ کرتے چلے جائیں، وہ قدم قدم پر ایک باریش شخص سے ملکر اپنے بچے کو پیدا کرنے، تعلیمی اور تربیتی مراحل عبور کروانے کی قیمت لگوائیں، اس سلسلہ میں کوئی رو رعایت مناسب نہ سمجھیں؛ بلکہ اگر کوئی کچھ کہہ دے اور اعتراض کرنے کی کوشش کرے تو اسے زمانے کا طعنہ دے کر خاموش کروادیں اور ہاں! خود نوشے میاں ان سب کارستانیوں میں شامل حال رہیں، قولاً فعلاً کسی بھی جانب سے خودی، غیرت اور انسانیت عیاں نہ کریں، وہ اگرچہ کہتے ہوں کہ انہیں کوئی لینا دینا نہیں ہے؛ لیکن جب موقع آئے تو خود بنیادی سامان پر معترض ہوجائیں، فون کر کے شکایت درج کرائیں، اپنی بولی لگوائیں، اپنا نکماپن ظاہر کریں اور پورا سماج تماشائی بن کر بت خانہ کا صنم بنے؛ بلکہ بعض گوشوں سے پرتکلف خوبیاں نکال کر تعریف کریں، اگر بعضے صحیح و غلط کی نشاندہی کرے تو اسے سماج کا دھتکار ہوا، ناکارہ اور نالائق بتاکر سبھوں کے ہونٹ سِل دئے جائیں تو مری عزیزہ تم صبر کرنا!
یقیناً اللہ نے تمہیں رحمت بنایا ہے، یہ میرا ایمان و عقیدہ ہے، تم ماں حوا کی بیٹی ہو، تم مریم اور عائشہ (رضی اللہ عنھن) کی بچی ہو، تم سے اس زندگی کی راحت ہے، زمانے کی بے چینیوں، پریشانیوں اور تمام دقتوں میں تمہی گھنا سایہ، راحت کی سانس اور سکون کی گھڑی ہو؛ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد دفعہ یہ بشارتیں سنائی ہیں، زمانہ جاہلیت کی رسوائیوں سے سبھوں کو نکالا ہے اور انہیں دنیا کی سب سے قیمتی متاع قرار دیا ہے؛ لیکن شومی نصیب جاہلیت کے دلدادہ اسلامیت سے دور ہونے لگے اور پھر سے تم جیسی معصوم بچیوں کا شکار کرنے لگے، پیٹ میں مار دینا پھر سے عام ہوگیا، اگر کسی نے زندگی پائی تو اس نے سماج کی روایتوں، کم ظرفیوں کی بیڑیوں میں خود کو جکڑا ہوا پایا، قدم قدم پر اس کیلئے آزمائش کھڑی کردی گئی تعلیمی لیاقت بمشکل حاصل ہوتی ہے اور اگر ہو بھی جائے تو زندگی کی یہ مشکل ترین گھڑیوں میں سے ہوتی ہیں، جوانی اگرچہ نعمت بن کر ہر کے جوبَن کو کھلا دیتی ہے؛ لیکن تم بچیاں اسے بوجھ کی طرح ڈھوتی ہیں، ماں باپ کے سینے پر سانپ بن کر لوٹتی ہیں، وہ خود جس کشمکش میں مبتلا رہتی ہیں ان پر دفاتر تیار ہوجائیں؛ لیکن ایک ماں اور باپ کی کہانی تو بیان کے بھی قابل نہیں ہے، راتوں کو اٹھ اٹھ کر رونا اور اپنی بچی کیلئے جہیز تیار کرنا اور پل پل جینا اور مرنا ان کا مقدر ہوجاتا ہے، مگر ان سب کے باوجود لڑکا اگر جہیز اور تلک کا دلدادہ ہو تو پھر سوچئے ان والدین پر کیا مصیبت بیتی ہوگی، ان کے دلوں پر کیا قہر گرتا ہوگا، ان کی صبح و شام پر کیا قیامت اترتی ہوگی، ایک دفعہ یاد ہے! تمہارے والد نے جھنجھلاہٹ میں کیا کچھ کہہ دیا تھا، آنکھیں اشکبار تھیں، دل پھٹا ہوا تھا اور وہ صاف صاف لہجوں میں کہہ رہے تھے مذکورہ شبیہ والے لوگ سب سے زیادہ سُور (حرام سے کنایہ ہے) کھاتے ہیں، اس وقت یہ دل بھی بیٹھ گیا تھا اور سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ واقعی کیا زمانہ ہے، مصلح ہی مفسد بنا ہوا ہے، قوم کا رہبر ہی رہزنی کا کردار ادا کر رہا ہے۔
بلاشبہ جب ایک عالم دین ہی دنیاوی رسوم کا جھانسہ دے کر، ضرورت اور حاجت کا بہانہ بنا کر اور دیگر حیلہ سازی کے ذریعے اپنے لئے جہیز کی آگ جہنم سے اختیار کرے تو اس سے بڑھ کر اور کیا تکلیف ہوگی، مستزاد یہ کہ کریلا اور نیم چڑھا کی کہاوت یاد کیجیے اور پھر سنئے! کہ جب ایک عالم دین اپنے بچے کی شادی انہیں شرائط پر کرے تو والدین اور خود دلہن کو کس درد سے گزرنا پڑتا ہوگا؟ آخر یہ کس دل کے لوگ ہیں، شریعت کو انہوں نے طاق پر رکھ دیا ہے، اسلام سے ایسے لوگوں کا کیا ربط ہوسکتا ہے، نام اگر ہٹادیں تو پھر کیا اسلامیت رہے گی جو انہیں اوروں سے ممتاز کرے گی؟ شاید اس میں کوئی الجھن نہیں ہونا چاہیے کہ یہ لوگ سماج کا بدترین داغ ہیں، ان کی وجہ سے پورا معاشرہ کینسر زدہ ہے، اس کا پورا جسم زخم آلود ہے، واقعتاً ایک شخص نماز نہ پڑھے، زکات نہ دے، حج نہ کرے تو یہ انفرادی گناہ صرف اس کی ذات پر اثر انداز ہوں گے؛ لیکن جہیز تلک وغیرہ کا لین دین اور وہ بھی ایک عالم دین کی جانب سے پورے سماج کیلئے ناسور ہے، عموماً اس گئے گزرے دور میں بھی لوگ علماء کو اپنا اسوہ مانتے ہیں، خاص طور پر شادہ بیاہ اور دیگر دینی امور و معاملات میں انہیں کے نقش قدم پر چلنا پسند کرتے ہیں، ذرا غور کیجئے! ایسے فاسق و فاجر عالموں اور دینی شکل وشباہت اور علمی چوغے میں ملبوس دجالوں کو دیکھ کر عوام کیا سیکھے گی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ فاسق و فاجر جن کے گناہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جہیز اور تلک کے سلسلہ میں لاکھ کوششیں ہوں مگر جب اس کے سرخیل ہی داغدار ہوں گے اور وہ سادگی کو ترجیح نہ دیں گے تو پھر کیسے سماجی اصلاحات کی بات کی جائے، دل چھلنی چھلنی ہے، تم ہماری عزیزہ اور رضاعی بہن ہو، تمہارے دل کا حال خوب معلوم ہے، تمہارا دل بھی والدین کی بے چینی پر کرب محسوس کرتا ہے۔
تم نے بچپن سے لیکر اب تک جہیز /جہیز کی رَٹ سنی ہے، سودے بازیاں دیکھی ہیں، دل پر پہاڑ لئے وقت گزارا ہے، اللہ تعالی پر بھروسہ اور دعاؤں کا سہارا لیا ہے، عمدہ اخلاق و اطوار اپنائے، للہیت اپنائی، دل نرم رکھا، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت سیکھی، حسن کی نزاکتوں کے ساتھ روحانی لطافتیں بھی پائی، اور پھر آج (٢٦/جولائی ٢٠٢١ء) تم ایک نئی زندگی کی شروعات کر رہی ہو، تم اپنا دل ہلکا نہ کرو! اپنے بھائیوں، والدین کی قربانیوں اور نیم شبی کو یاد کر کے بے قرار نہ ہو! خود کو لعن و طعن نہ کرنا! اپنے وجود کو بوجھ نہ سمجھنا! یاد رکھو! جو جیسا کرتا ہے ویسا بھرتا ہے، اگر کوئی شریعت اسلامی کا استہزاء کرتا ہے تو اس کا مزاق بنے گا، وہ رسوا و ذلیل و خوار ہوگا، اگرچہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں بظاہر کوئی سرخروئی نصیب ہوجائے، جہیز اور تلک کے پیسے سے گھر کی تجوریاں بھر جائے، عمارتیں کھڑی ہوجائیں اور گاڑیاں دوڑنے لگیں، سماج میں اکڑ کر چلنے اور نام ونمود کی راہیں کھول لی جائیں؛ لیکن اچھی طرح جان لو! ایسوں کیلئے یوم آخرت دردناک عذاب ہے، وہ اللہ تعالی کی گرفت سے بچ نہیں سکتے، ان کیلئے دہکتی آگ ہے، جنہوں نے اللہ تعالی تخلیق اور سب سے حسین تخلیق کو انسانیت پر بوجھ بنانے کی کوشش کی ہے، اپنی ہوس و خواہش اور طمع کو پیش رکھا ہے، وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ عاطفت اور کرم سے بھی دور ہوں گے اور کیا معلوم کہ ایسوں کو شفاعت بھی نصیب نہ ہو! اس کے بالمقابل تم صبر کرو! تمہارے ساتھ اللہ تعالی کی مدد رہے گی، تم دنیا و آخرت میں کامیابی کا علم تھاموگی، یہی صبر معیت الہی کا بھی سبب ہے، سو گھبراؤ نہیں! ایک نئی زندگی کا استقبال کرو! غم کے بادل میں دمکتا چاند بن کر مسکراؤ! تم خوش و خرم رہو اور اپنے دل کو مطمئن رکھو! یاد الہی کو اپنا توشہ حیات بنا لو! دنیا کو خوش کرنے کے بجائے اللہ تعالی کی مرضی و خوشنودی کے حصول کو اصل جانو! اللہ تمہیں ایک حسین زندگی دے اور بہتر آخرت عطا کرے!
[email protected]
7987972043
Comments are closed.