مسلم نوجوان فوج میں بھرتی ہونے کی کوشش کریں..! از مفتی منظور ضیائی

سیکولر ازم، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، ہندو مسلم سکھ عیسائی بھائی چارہ، اتحاد ویکجہتی، ملک کے لیے جان قربان کردینے کا جذبہ ، دستور کے ساتھ وفاداری ان تمام خوشنما الفاظ کی جیتی جاگتی تعبیر اگر کہیں نظر آئے گی تو وہ جگہ ہے ہندوستانی فوج۔ ہندوستان کی مسلح افواج نہ صرف ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے بلکہ کسی بھی قدرتی آفت اور مصیبت کے موقع پر مسلح افواج کے جوان لوگوں کی خدمت میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اسوقت مہاراشٹر سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں شدید بارش کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی اور بربادی پھیلی ہوئی ہے ان حالات میں سب سے زیادہ مستعدی کے ساتھ سیلاب میں پھنسے لوگوں کو بچانے کی کوشش اگر کوئی ادارہ مستعدی کے ساتھ کررہا ہے تو وہ ہندوستانی مسلح افواج ہے۔ ماضی میں آفت ارضی اور سماوی کے موقع پر محصور لوگوں کو بچانے کے معاملے میں ہندوستان کی مسلح افواج کا کردار نہایت شاندار رہا ہے۔
جہاں تک فوج کا سوال ہے یہاں نہ تو کسی بھی قسم کا ریزرویشن ہے نہ ہی فوج کی جانب سے اس بات کے اعداوشمار فراہم کیے جاتے ہیں کہ فوج میں کس فرقے کی کتنا فیصد نمائندگی ہے شاید یہ فوج کے مزاج کے خلاف بھی ہے۔ لیکن جس طرح جیلوں کو چھوڑ کر ملک میں تمام شعبوں میں مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ تو یہ مانا جاسکتا ہے کہ فوج میں بھی ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہوگی۔ معاملہ کسی حد تک مسلمانوں کے ہاتھوں میں بھی ہے اگر مسلم نوجوان صحت کے اعلی معیار پر پورے اترے اور فوج میں بھرتی ہونے کے لیے جو ٹیسٹ لیے جاتے ہیں اس میں کامیاب ہوں تو فوج کے راستے ان کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ فوج میں مسلمانوں کی کم نمائندگی کے لیے علاوہ دیگر باتوں کے مسلمانوں کی اس میں عدم دلچسپی اور مسلمانوں کے اندر فوج کے تعلق سے پھیلی کچھ غلط فہمیاں اور بدگمانیاں بھی ذمہ دار ہیں۔ آج ہم اس مضمون کے ذریعے کوشش کریں گے کہ فوج کے تعلق سے مسلم کمیونٹی میں جو غلط فہمیاں موجود ہیں ان کو رفع کردیا جائے عام طور پر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ فوج میں بھرتی ہونے کے بعد شراب پینا لازمی ہوگا، مسلمان دینی احکامات پر عمل نہیں کرسکیں گے، حلال گوشت دستیاب نہیں ہوگا یہ محض غلط فہمی ہے۔ فوج سے زیادہ مذہب کا احترام کسی بھی ادارے میں نہیں کیاجاتا یہاں مسجد، مندر، چرچ، گرودوارے سب ہوتے ہیں جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ جہاں ایک سو بیس کے قریب مسلمان تعینات ہوتے ہیں ان کو نماز باجماعت کی ادائیگی کا موقع دیاجاتا ہے اور ان کے لیے ایک امام اور موذن کا بھی تقرر کیاجاتا ہے۔
مسلح افواج میں مسلمانوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دئیے ہیں، بریگیڈ عثمان اور ویر عبدالحمید کو افسانوی کردار کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔ ماضی قریب میں کارگل کی جنگ میں میجر سلمان کی شہادت ناقابل فراموش ہے۔ ہندوستانی فوج میں ہمیشہ سے مسلمانوں کی نمائندگی رہی ہے نچلی سطح پر بھی بڑی تعداد میں مسلم فوجی ہیں اب تک نو مسلمان میجر جنرل کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ فضائیہ کے سربراہ کے عہدے کو ادریس حسن لطیف زینت بخش چکے ہیں۔ لطیف صاحب مہاراشٹر کے گورنر رہ چکے ہیں۔
مسلح افواج میں بھرتی ہوکر مسلمان نہ صرف ملک اور قوم کی گراں قدر خدمات انجام دے سکتے ہیں اور اپنی روزی روٹی کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں بلکہ اس سے مسلمانوں کی شبیہ بھی معاشرے میں سدھرے گی اور ان کو عزت اور وقار کی نگاہ دیکھا جانے لگے گا۔ فوج میں شمولیت مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری بھی ہے۔ قرآن کی ایک آیت ہے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ اس میں مسلمانوں پر حاکم وقت کی اطاعت بھی لازمی قرار دی گئی ہے اور اولی الامر کی حکمرانی کو قائم رکھنے کا ایک بنیادی ذریعہ فوج ہے۔ ہندوستان میں بحری بری اور فضائی افواج اس لیے تعینات ہے تاکہ ملک محفوظ رہے ملک میں امن ہو اور قانون کی حکمرانی قائم ہو۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی فوج میں شمولیت ایک طرح سے ان کی مذہبی ذمہ داری بھی ہے مسلمانوں کو یہ بھی تعلیم اور تلقین کی گئی ہے کہ وطن سے محبت آپ کے ایمان کا حصہ ہے جس سے محبت ہوگی اس کا تحفظ بھی لازمی ہوگا اس لیے اگر مسلح افواج میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو یہ اسلامی تعلیم کے زمرے میں آئے گا۔
آخر میں اپنے مسلم نوجوان دوستوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کریں گے کہ وہ تعلیم ساتھ ساتھ اپنی صحت کا بھی خاص خیال رکھیں، نشہ خوری اور اس طرح کی دیگر لعنتوں سے ہر قیمت پر چھٹکارہ پائیں۔ مسلح افواج میں بھرتی کے لیے اکثر اشتہارات شائع ہوتے رہتے ہیں اس پر نظر رکھیں، اس میں بھرتی کے لیے جو معیار مقرر کیا گیا ہے اس پر پورا اترنے کی کوشش کریں فوج کے دروازے آپ کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ ہماری مسلم رہنماوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کو اپنے سیاسی عزائم کی آگ کا ایندھن بنانے کے بجائے ان کو قوم کی خدمت کے لیے کثرت سے فوج میں بھرتی ہونے کی تلقین کریں اور ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت کا بھی خیال رکھیں اور ان کی رہنمائی کے لیے کیمپ وغیرہ کا انعقاد کریں دھرنے اور پردرشن سے مسلمانوں کی حالت سدھرنے والی نہیں ہے۔
(مضمون نگار بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر، صوفی کارواں کے روح رواں، آل انڈیا علم و ہنر فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں اور ملکی اور ملی معاملات پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ہونے والی ڈیبٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور بہترین نمائندگی کرتے ہیں)
Comments are closed.