اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا۔۔۔! محمد نجم الثاقب ناصری کونگو افریقہ

یہ ہیں ہمارے خاندان کے بڑے، بہادر، بارعب، سماجی شخصیت، علم اور علماء نواز جناب حاجی عتیق احمد صاحب ناصری، جنہیں آج بتاریخ 18/ ذی الحجہ 1444ھ مطابق 28/ جولائی 2021ء كو (رحمۃ اللہ علیہ) کہتے ہوئے دل لخت لخت اور طبیعت بوجھل ہورہی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ہم حسبِ معمول دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد کچھہ دیر قیلولہ کے نام پر سوگئے تھے لیکن پتہ نہیں کیوں عام دنوں کی بنسبت آج وقت سے پہلے ہی آنکھہ کھل گئی اور حسب عادت جب لیٹے لیٹے موبائل اٹھا کر واٹس ایپ کھولا تو ان کے انتقال کی خبر نے رہی سہی سستی کو بھی ختم کردیا، فورا انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے جلدی سے سامنے والے کمرے کو کھکھٹایا کہ ان کے بھتیجہ مولانا زبیر احمد شبلی ناصری کو خبر کردیں، روم کھولا تو وہ خود ہمیں یہ خبر دینے لگے۔
حاجی عتیق احمد ناصری صاحب رشتے میں ہمارے پھوپھی زاد بھائی ہوتے تھے، اور صرف ہمارے خاندان اور گاؤں (ناصرگنج نستہ) میں ہی نہیں؛ بلکہ پورے علاقے میں ایک قدآور شخصیت اور بڑے مقام ومرتبہ کے مالک تھے۔ علم پروری اور علماء نوازی میں بے مثال تھے۔
اس حادثے نے جس طرح اہل خانہ کو رنجور اور غمزدہ کیا ہے بالکل اسی طرح ہم بھی غمزدہ ہیں۔
موت تو برحق ہے اور ہر ایک کو اس راہ سے گزرنا ہے، جس طرح ہمارے پُرکھے یکے بعد دیگرے گذر گئے اسی طرح بھیا مرحوم بھی موت کی راہ چلتے اپنے رب کے حضور چل بسے۔
عتیق بھیا مرحوم مجھ سے خاندانی عمومی رشتہ کے علاوہ خصوصی قلبی لگاؤ رکھتے تھے، وہ مجھہ سے بہت محبت فرماتے تھے، جب کبھی کسی نو وارد مہمان سے ملاقات ہوتی تو بڑے اچھے انداز سے تعارف کرواتے اور دادیہال کے ساتھ ساتھ نانیہال کا بھی پورا علمی وروحانی نقشہ کھینچ کر سامنے رکھہ دیتے، جب کبھی مسجد میں جماعت کھڑی ہونے سے پہلے مجھہ پہ نظر پڑتی تو امام صاحب کو بول کر ہمیں آگے بڑھادیتے تھے، ہمارے لیے ازہری ہونا کوئی خاص بات نہیں ہے، لیکن ہمارے ازہری ہونے پر ان کو فخر تھا جس کا اظہار وہ *ازہری مولانا* کہہ کر کیا کرتے تھے، اور ہر ملنے جلنے والوں سے کہتے کہ یہ ہمارے ہمارے چھوٹے امام صاحب ہیں، ما شاء اللہ جامعہ ازہر سے فارغ ہیں۔
پچھلے سفر میں کسی مجبوری کی بنا پر ان سے ملاقات نہیں ہوسکی، ارادہ تھا کہ ان شاء دس پندرہ دنوں میں وطن پہونچیں گے تو سب سے پہلے بھیا سے جاکر ملیں گے، لیکن تقدیر کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے، ایسا نہ ہوسکا، جس کا ابھی بہت افسوس ہورہا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ہمارے *عتیق بھیا* جنہیں ابھی ہم مرحوم کے لاحقے کے ساتھ *عتیق بھیا مرحوم* لکھہ رہے ہیں؛ یہ لاحقہ لگاتے ہوئے آنکھیں اشکبار ہورہی ہیں اور دل پھٹا جارہا ہے۔
مرحوم نے اپنے گاؤں میں ایک دینی مکتب قائم کیا تھا جو آج اللہ کے فضل اور ان کی محنت وکاوش سے تناور درخت بن کر کھڑا ہے، آپ اس کے مؤسس وناظم اور صدر تھے، اور تقریبا دو سالوں سے مدرسہ ان کے چھوٹے صاحبزادے مفتی سلیم احمد ناصری قاسمی کی نظامت میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
اس کے علاوہ مرحوم مختلف دینی، ملی، علمی اور سماجی ورفاہی تنظیم واداروں کے ذمہ دار اور با اثر ممبر تھے، جن میں سر فہرست امارت شرعیہ پٹنہ، مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ دربھنگہ، مدرسہ رشیدیہ رسول پور نستہ دربھنگہ اور عیدگاہ کمیٹی بھروارہ دربھنگہ ہے، نیز مختلف سیاسی پارٹیوں سے ان کے گہرے مراسم وروابط تھے۔
بھیا رحمۃ اللہ علیہ پیشے سے تاجر تھے، اور اپنے گاؤں ہی میں وہ لکڑی کا کاروبار کرتے تھے، پھر ما شاء اللہ ترقی کرتے کرتے ہارڈ ویئر (تعمیراتی مٹیریل) کی دوکان شروع کی اور الحمد للہ دیکھتے ہی دیکھتے ہمہ جہت ترقیات سے نوازے گئے۔
مرحوم تمام تر خوبیوں کے ساتھ ساتھ علاقے میں اپنی مذہبی تشخص سے بھی جانے جاتے تھے، عبادت وریاضت اور تسبیحات کا بہت التزام کرتے تھے، ما شاء اللہ صوم وصلاۃ اور تلاوت قرآن کے پابند تھے، بلکہ مشغول زندگی اور چہار جانب پھیلے ہوئے کاموں کے باوجود تکبیر اولی کے ساتھ نماز ادا کرنے کا اہتمام کرتے تھے، ہر فرض نماز کے بعد (مسجد ہی میں بیٹھہ کر) تقریبا آدھے گھنٹے تک ذکر واذکار ان کی پوری زندگی کا مشغلہ تھا، پوری زندگی وہ تلاوت قرآن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے طریقہ تلاوت پہ کاربند تھے، چنانچہ اتنی بلند آواز سے تلاوت کرتے کہ بسا اوقات راہ چلتے لوگ بھی ان کی تلاوت پر گوش بر آواز ہوجاتے تھے۔
زمزموں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے
کـیـا وہ آواز اب ہمیشـــہ کــے لیــے خاموش ہے۔
حاجی صاحب مرحوم کے پسماندگان میں اہلیہ، چھہ بیٹیاں اور دو بیٹے مولانا انوار احمد ناصری رشادی اور مولانا مفتی سلیم احمد ناصری قاسمی ہیں۔ دونوں صاحبزادے اپنے والد مرحوم ہی کی طرح ما شاء اللہ کشادہ ظرف اور با اخلاق ہیں۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شـخـص سـارے شہر کـو ویـران کـر گیا۔
اللہ پاک ان کی لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف فرماکر انہیں اپنے دامن عفو ودرگزر میں جگہ نصیب کرے، حسنات کو قبول فرمائے اور قبر کو نور سے بھر دے اور اپنے فضل سے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے، نیز گاؤں اور علاقے کو نعم البدل عطا فرمائے۔
Comments are closed.