Baseerat Online News Portal

"اللّٰہ اور سکون”

آمنہ جبیں (بہاولنگر)

 

کبھی کبھی زندگی ایک بوجھ سی لگتی ہے۔ جینے کا دل نہیں کرتا خواہشوں کی مدت آنکھوں میں ٹھر جاتی ہے۔ نہ کسی چہرے کی نہ کسی ساتھ کی تمنا نہیں رہتی انسان اپنے آپ سے بھی بوجھل ہو جاتا ہے۔ اکتا جاتا ہے۔ اس کا دل کرتا ہے کہ کسی ویرانے میں جا کر چیخ اٹھے اپنے ہونے پہ ماتم کی صدا لگائے۔ بے بسی آنکھوں کے کٹوروں سے بہتی ہوں چہرے کو وحشت زدہ کر دیتی ہے۔ نہ کسی کے آنے کی نہ کسی کے جانے کی پرواہ رہتی ہے۔ دل کی گہرائیوں میں سلگتے ارمان ختم ہونے کو ہوتے ہیں۔ یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب انسان کو رب سے ملاقات کا شرف ملتا ہے پھر بے بسی کی ساری سوغات رب کے آگے رکھ دی جاتی ہے۔ اپنے آپ کو اس ذات کے حوالے کر کے اپنی پیوندکاری کا انتظار کیا جاتا ہے۔ پیشانی سجدے میں جھک کر ہمیں اللّٰہ سے ملا دیتی ہے۔ سکون کی کیفیت دل میں کہیں برسنے لگتی ہے۔ کتنا پیارا ہے نہ رب اور بندے کا ساتھ کہ جب ہم بیزار بوجھل بدن لیے اس کی طرف جاتے ہیں تو وہ ہماری پکار پہ لبیک کہتا ہوا تھام لیتا ہے۔رب اپنے بندے کو توڑتا ہے اسے آزماتا ہے اسے پلٹا دینے کے لیے اور پھر جب ہم بکھر کر اپنے ذرے اس کے پاس لے جاتے ہیں تو وہ جوڑ دیتا ہے۔ یہ اللّٰہ ہی ہے جو سکون کا محور ہے جس کی یاد دل میں مکیں ہو تو سانسیں اطمینان پا سکتی ہیں۔ قربتِ الٰہیہ میں جو سکون ہے وہ دنیا کی رنگینیوں میں نہیں ہے۔ ایک توبہ کا آنسو اسے منا لیتا ہے۔ ایک آہ اسے راضی کر دیتی ہے۔ اس کی طرف بڑھایا ایک قدم اسے پسند آ جاتا ہےجسے اس نے اپنی طرف لا کر ہی سکون دینا ہو پھر اسے وہ بے سکون کرتا ہے۔ دنیا میں گھماتا ہے اسے دنیا کی پہچان کرواتا ہے اور انسان کو بارہا رب ذوالجلال یہ باور کروا دیتے ہیں کہ میرے سوا تیرا کوئی نہیں میرے سوا کوئی تیرا خیر خواہ نہیں میرے سوا کوئی تجھے چاہنے والا نہیں۔ ہاں!! پھر سب سے لاتعلقی اختیار کر کے جب کوئی نظر نہیں آتا تو ایک سہارا ہمیشہ رہتا ہے۔ کہ رب ہے اللّٰہ رب العزت ہیں جو تیرے لوٹنے کے منتظر ہیں۔ اللّٰہ جیسی محبت بندے سے کوئی نہیں کرتا یہ دنیا اور اس کے بہکاوے محظ سراب ہیں۔ اور رب کا ساتھ سکون کا باعث ہے۔ جہاں دل ٹوٹتے نہیں مان ختم نہیں ہوتے۔ اکتاہٹ نہیں ہوتی۔ بیزاری نہیں ہوتی دل شکنی نہیں ہوتی۔ اذیت نہیں ملتی۔ جہاں انتظار کیا جاتا ہے آپ کی توبہ کا آپ کے لوٹنے کا منتظر رہا جاتا ہے۔ جہاں ندامت پہ رب خوش ہوتا ہے مذاق نہیں بناتا جبکہ دنیا میں سب اس کے الٹ بکھرا ہے اور رب کے پاس صرف سکون ہے۔ اب منتخب کر لو اپنے لیے کیا چاہتے ہو سکون یا بے سکونی

اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ

ترجمہ: خوب سمجھ لو کہ اﷲ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہوجاتا ہے۔

دنیا میں کھویا ہوا انسان اپنی نظر میں سکون سے خالی نہیں ہوتا۔ دن رات عیش و عشرت میں گزارتا ہے۔ اللّٰہ کی نافرمانیاں کرتا ہے۔ اللّٰہ سے رخ موڑ کر اپنی خواہشات کے چنگل میں پھنسا جی رہا ہوتا ہے۔ اور اس کے دل کو کبھی سکون کا کھٹکا بھی نہیں لگا اسے کبھی سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ مجھے سکون بھی میسر ہے یا نہیں وہ دن رات اپنے آپ میں مگن اللہ کی یاد سے دور غفلت کے ڈبے میں بند مدہوش زندگی گزارتا ریتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہر وقت غلاظت کے ماحول میں رہے گا تو وہ غلاظت انسان کی دل دماغ میں رچ بس جائے گی اور وہ اسی ماحول میں جینا سیکھ جائے گا۔ اسے لگے گا کہ اس سے بڑھ کر کوئی زندگی ہی نہیں ہے۔ جبکہ اگر وہ باہر کی دنیا گھومے اپنے آپ کو اس قیدی ماحول سے باہر نکالے تو اسے پتہ چلے کہ جہاں وہ رہ رہا تھا وہ سکون کا کتنا گھٹیا اور نچلا درجہ ہے۔جب قرآن کہتا ہے کہ سکون اللّٰہ کی یاد میں ہے تو آج اللّٰہ کی یاد کو چھوڑ کر انسان کیسے خوش ہیں۔ وہ اس لیے خوش ہیں کہ وہ اپنی خواہشات میں جکڑے دنیا پرستی میں لگ گئے ہیں۔ اور سکون کے معنی سے نہ آشنا سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔قرآن دلاسہ ہے۔ اللّٰہ کی یاد سکون ہے خوشی ہے۔ تو پھر آج ہم اس کے بغیر اگر خود کو خوش سمجھتے ہیں اطمینان میں پاتے ہیں تو نظر دوڑائیں ہمارے ساتھ بہت سے مسائل بہت سی بےچینیاں بہت سی نہ سمجھ آنے والی الجھنیں پل رہی ہوں گی۔ جن کا حل ہم ایک کام سمجھ کر دن رات ڈھونڈتے ہیں اور اپنی خواہشات کو سکون کا محور بنا کر اللّٰہ کی یاد سے غافل پڑے خود کو سکون کی تسلیاں دیتے رہتے ہیں۔ جب کہ یہ جو دل ہے اس میں اللّٰہ نے ایک ایسا مقام رکھ دیا ہے جس کی آبادکاری صرف اور صرف اللہ کی یاد سے ہی ممکن ہے۔ زندگی کا حسن سکون کا محور اطمینان قلب صرف اور صرف رب کی ذات ہے۔لوٹنا مشکل ہوتا ہے چاہے وہ خدا کی طرف ہو یا دنیا کی کی رنگینیوں سے اکتاہٹ کھا کر آزاد ہونے کی خو ہو۔ لیکن آپ نکل سکتے ہیں اور نکل آتے ہیں ان تمام چیزوں سے اگر آپ میں لگن ہے آپ کو سکون درکار ہے۔ آج آپ کے گرد ایک ایسا ماحول ہے جو آپ کے دماغ میں رچ بس گیا ہے۔ جب آپ ایمان افروز ماحول کو تصور کرٹے ہیں اس میں رہنے کے لیے سوچتے ہیں تو بہت مشکل ہوتی ہے۔ کیونکہ ایمانی ماحول میں ہم آزاد نہیں رہتے پھر ہم پابند کر دیے جاتے ہیں۔ اللہ کی مرضی کے پابند اور ہمیں پھر ثابت قدمی بھی دکھانی پڑتی ہے۔ لیکن یقین کرو شروع کے وقت قدم ڈگمگائیں گے۔ گرو گے۔ اس رستے پہ قدم رکھتے چوٹ کھاؤ گے۔ سوچو گے کہ کیسے خود کو پابند کریں گے۔ لیکن پھر ایک وقت آئے گا آپ کے اردگرد نور ہی نور بھر جائے گاپھر جس ماحول سے آپ نکل کر آئے تھے اس ماحول میں قدم رکھنے کو دل نہیں کرے گا۔ یوں نورانی کیفیات آپ کے گرد رقص کریں گی۔ آج جو لذت اپنی خواہشات میں ڈھونڈ رہے ہو اسے چھوڑ دو رب کی طرف رخ کر جاؤ اس سے نور مانگو وہ نور جو آپ کو منور کر دے۔ آپ کے دل کو منور کر دے آپ کی روح کوپاک اور شفاف کر دے۔ اللّٰہ سے اپنے لیے نور کی بارش مانگو اور اپنی ترجیحات بدل لو کیونکہ آخرکار سکون تو رب کی یاد میں ہی ہے۔جب ٹوٹ جاؤ بکھر جاؤ۔ دل کے تار چھلنی ہو جائیں تو بھی غم نہ کرو۔ خدا کی قسم!! کوئی تھامتا نہیں ہے سوائے رب کے اسے پکار کر دیکھنا وہ تمہارا حال بھی سنے گا دلاسہ بھی دے گا۔ مرہم بھی لگائے گا۔ اپنی آنکھوں سے اس کے لیے محبت بہا کر دیکھو اسے یاد کر کے غم کر کے دیکھو وہ ملے گا بہت قریب پاؤ گے رب کو۔ بیشک ہدایت وہ اسے ہی دیتا ہے جیسے خود چاہتا ہے۔ لیکن ہدایت پانے کی جستجو اپنے اندر سے کبھی ختم نہ کرنا پھر دیکھنا چن لیے جاؤ گے۔ سنوار دیے جاؤ گے۔ اور محبوب کر لیے جاؤ گے۔

Comments are closed.