انسان کبھی مرتا نہیں ہے!! محمد صابر حسین ندوی

زمانہ ماضی میں انسان کو یہ سمجھنے اور یقین کرنے میں بڑی دشواری ہوتی تھی کہ اگر ایک انسان مر جائے، اس کی سانس رک جائے، آنکھیں بند ہوجائیں، رگوں میں خون کی روانی ٹھہر جائے، نقل و حرکت سے وہ عاجز ہوجائے تو بھلا دوبارہ کیسے زندہ ہوسکتا ہے؟
قرآن مجید میں بار بار استعجابی لہجے میں یہ سوال قائم کیا گیا ہے اور اللہ تعالی نے اس سے اپنی قدرت، طاقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لوگوں کو ایمان کی دعوت دی ہے، یہ تو اس دور کی بات تھی جب سائنس اور ٹیکنالوجی کا کوئی وجود نہ تھا اور اگر کچھ تھا بھی تو اس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی جس قدر آج ہے، انسانی عقلوں اور جماعتوں نے وہ کارنامے انجام دے دیے ہیں کہ خدا کی پناہ!! اس کے باوجود افسوس کی بات ہے کہ آج بھی وہی سوال قائم ہے، لوگوں میں تبلیغ و ارشاد کا کام کرنے والے عموماً اسی سوال پر اٹک جاتے ہیں، دنیا کہ چکاچوند، جوانی اور جوش کا عالم یہ ہوتا ہے کہ کوئی اپنے سے ماوراکسی شئ کو تصور کرنا ہی نہیں چاہتا، جو کرنا ہے کر لو! موج اڑانا ہے اڑا لو! کون جانتا ہے مرنے کے بعد کیا ہوگا کیا نہیں ہوگا!! جیسے نعرے اور فقرے معاشرے میں جڑ پکڑ چکے ہیں، اس پرکشکش نعرے پر بسااوقات جدید اذہان بھی مائل ہوجاتے ہیں جو مسلمان ہیں، عقائد و ایمان کے طور پر ایک اللہ کے پجاری اور موحد ہیں، مگر ماحول کی آلودگی اور نئی نسلوں کی سرکشی نے اس دروازے کو سرپٹ کھول دیا ہے؛ ملحدین کی کتابیں اور فلسفیانہ استدلال نے بھی انہیں متاثر کیا ہے، راسخ الایمان نہ ہونے اور ایک اللہ پر کامل عقیدہ نہ رکھنے کی وجہ سے بھی دل شکوک سے بھرے رہتے ہیں؛ حالانکہ اگر کوئی اہل ایمان ہے تو اس کےلیے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، سیدھی سی بات ہے کہ جس رب نے پہلی دفعہ پیدا کیا ہے، وہ دوسری، تیسری مرتبہ بھی پیدا کرسکتا ہے، رہے ملحدین و مشرکین تو اگر وہ پڑھے لکھے ہیں اور سائنس کی دیوی کے معتقد ہیں تو انہیں بھی اسے سمجھنے میں کیا مشکل ہے؟
سائنس خود کہتی ہے کہ کوئی بھی چیز کلی طور پر مرتی نہیں ہے؛ بلکہ وہ ایک دوسرے روپ میں اپنا وجود بدل لیتی ہے، اگر جدید ٹیکنالوجی اس کے سامنے ہے تو اس قاعدے کو صرف چند مخصوص انداز میں برتنے کے بجائے انسانی زندگی پر منطبق کرنے پر کیا دقت ہوتی ہے؟ اس کے علاوہ لاجیکلی بھی سوچیں تو سمجھ جائیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ جب ایک شخص پیدا ہوتا ہے اور مرتا ہے جس پر اس کا کوئی قابو نہیں تو پھر دوسری بار بھی اسے پیدا کردیا جائے تو کوئی حرج ہے؟ جب ایک جگہ کی گھاس کاٹ دی جاتی ہے تو دوبارہ وہاں پر بعینہ گھاس کیونکر اُگتی ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اس مسئلہ پر اس لئے بات نہیں کرنا چاہتے کہ اگر یہ مان لیا جائے تو accountability ایک ذمہ داری قبول کرنی پڑے گی اور انسانی دائرے جو رب نے طے کئے ہیں انہیں ماننا پڑے گا؛ جبکہ انسان تو سرکش ہوتا ہے، بھلا وہ کیوں اپنی لگام کسی کے سپرد کرے؟
مولانا وحیدالدین خان مرحوم نے – انسانی شخصیت – کے عنوان پر اس موضوع کو سمجھانے کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے، بَس اہل علم سمجھنا چاہیں اور مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے متمنی ہوں، یہ چشم کشا تحریر آپ بھی پڑھتے جائیے، مولانا رقم طراز ہیں: "کیمسٹری کا پہلا سبق جو ایک طالب علم سیکهتا ہے وه یہ ہے کہ کوئی چیز فنا نہیں هوتی- وه صرف اپنی صورت بدل لیتی ہے :–Nothing dies, it only changes its form.–اس عالمی کلیہ سے انسان کے مستثنی ہونے کی کوئی وجہ نہیں- جس طرح ماده کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ جلنے یا پهٹنے یا کسی اور حادثہ سے وه فنا نہیں ہوتا، بلکہ شکل بدل کر دنیا کے اندر اپنے وجود کو باقی رکهتا ہے- اسی طرح ہم مجبور ہیں کہ انسان کو بهی ناقابل فنا مخلوق سمجهیں اور موت کو اس کے خاتمہ کے ہم معنی قرار نہ دیں- یہ محض بالواسطہ قیاس نہیں، بلکہ ایک ایسا واقعہ ہے جو براه راست تجربہ سے ثابت ہوتا ہے-
مثال کے طور پر علم الخلیہ (cytology) بتاتا ہے کہ انسان کا جسم جن چهوٹے چهوٹے خلیوں سے مل کر بنا ہے وه مسلسل ٹوٹتے رہتے ہیں- ایک متوسط قد کے انسان میں ان کی تعداد تقریبا 26 پدم ہوتی پے- یہ خلیے کسی عمارت کی اینٹوں کی طرح نہیں ہیں جو ہمیشہ وہی کے وہی باقی رہتے ہوں- بلکہ وه ہر روز بے شمار تعداد میں ٹوٹتے ہیں اور غذا ان کی جگہ دوسرے تازه خلیے فراہم کرتی رہتی ہے- یہ ٹوٹ پهوٹ ظاہر کرتی ہے کہ اوسطاً ہر دس سال میں ایک جسم بدل کر بالکل نیا جسم لو جاتا ہے- گویا دس برس پہلے میں نے اپنے جس ہاتھ سے کسی معاہده پر دستخط کیے تهے وه ہاتھ اب میرے جسم پر باقی نہیں رہا- پهر بهی ” پچهلے ہاتھ ” سے دستخط کیا ہوا معاہده میرا ہی معاہده رہتا ہے- اس کا علم، اس کا حافظہ، اس کی تمنائیں، اس کی عادتیں، اس کے خیالات بدستور اس کی ہستی میں شامل رہتے ہیں- اسی لئے ایک حیاتیاتی عالم نے کہا ہے کہ انسانی شخصیت تغیر کے اندر عدم تغیر کا نام ہے- اگر صرف جسم کے خاتمہ کا نام موت ہے تو ایسی موت تو ” زنده ” انسانوں کے ساتھ بهی ہر روز پیش آتی رہتی ہے- ساٹهہ سال کی عمر کا ایک شخص جس کو هم اپنی آنکهوں کے سامنے چلتا پهرتا دیکهتے ہیں، وه جسمانی خاتمہ کے معنی میں چهہ بار مکمل طور پر مر چکا ہے- اب چھ بار کی جسمانی موت سے اگر ایک انسان نہیں مرا تو ساتویں بار کی موت سے کیوں اس کا خاتمہ هو جائے گا؟
حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو موت کے بعد بهی زنده موجود رہتا ہے- دوسری چیزیں اگر گیس کی صورت میں باقی رہتی ہیں تو انسان اپنے شعوری وجود کی صورت میں اپنے وجود کو باقی رکهتا ہے-” (الرسالہ، اکتوبر 2000)

Comments are closed.