قیمت غم حیات کی تو دام دام لے

از: محمد قمرالزماں ندوی
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
۰۰ تندرستی اور فرصت کے لمحات دو ایسی نعمتیں ہیں جن میں اکثر لوگ گھاٹے میں مبتلا ہیں ۔
ایک حدیث میں رسول معظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ فرمان ہے ۔ اللہ تعالی نوجوان سے سستی پر نفرت کرتے ہیں ۔(فلسفہ اخلاق بحوالہ ماہنامہ رضوان نومبر ۲۰۰۸ء) ۔
امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا مشہور و معروف قول ہے کہ میں اس بات کو قطعا پسند نہیں کرتا بلکہ معیوب اور برا سمجھتا ہوں کہ تم میں سے کوئی لا یعنی فضول اور بے مقصد زندگی گزارے، نہ دنیا کے لئے کوئی عمل کرے نہ آخرت کے لئے ۔
کسی کا یہ مقولہ بھی نظر سے گزرا ہے کہ ، کرنے والے ہمیشہ اپنا کام آج کے دن کرتے ہیں اور نہ کرنے والے ہمیشہ اپنا کام آگے والے روز یعنی کل کے دن پر ڈال دیتے ہیں ۔
ان احادیث اور اقوال کی روشنی میں جب ہم اپنے سماج اور سوسائٹی کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں اور خصوصا نوجوان نسل کی زندگی کے شب و روز کا تجزیہ کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے ،کہ ہمارے معاشرے میں اور خاص طور پر نئی نسل اور جنریشن میں سستی،کاہلی اور فضول اور لا یعنی مشغلہ عام ہے اور اس نے ایک بیماری کی شکل اختیار کر لیا ہے ۔ سستی اور کاہلی کی وجہ سے بے شمار معاشرتی برائیوں نے جنم لے لیا ہے ۔ لاک ڈاؤن میں تو بچے بے قابو ہوگئے ہیں ، دانش گاہیں اور مدارس و مکاتب اور اسکول بند ہونے کی وجہ سے تعلیمی ماحول بالکل ختم ہے ، تربیت کا بھی فقدان ہے ، بچوں کی تعلیم کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے وہ بے مقصد اور فضول زندگی گزار رہے ہیں ، موبائل پر اپنا پورا وقت صرف کر رہے ہیں ، گارجین پریشان ہیں کہ ان کو کیسے مشغول رکھا جائے ، گھر میں نہ کتابیں ہیں اور نہ کوئی لائبریری اور نہ ہی بچوں کی ادبی اور دینی کتابیں پرچے اور رسائل ۔۔
آپ جس طرف نظر اٹھا کر دیکھ لیجئے ہر طرف آپ اس کا مشاہدہ کریں گے کہ آج کی نئی نسل اپنے قیمتی اور بیش بہا اوقات کو موبائل میں ویڈیو گیم ،فیس بک ،یوٹوب، واٹ سیپ اور دیگر اسکرین پر ضائع کرتے نظر آئیں گے اور اپنے پاکیزہ خیالات کو منتشر کرتے دکھیں کے ۔ جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال ناجائز اور حرام نہیں ہے بلکہ اگر اس کو اسلام کی خدمت، دین کی اشاعت اور اصلاح و تبلیغ نیز امت کی ذھن سازی کے لئے استعمال کیا جائے تو بہت بڑی خدمت اس ہوسکتی ہے اور باطل کے عزائم اور منصوبے پر بآسانی پانی پھیرا جاسکتا ہے، شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جاسکتا ہے مخالفین اور معترضین کو مسکت اور دنداں شکن جواب دیا جاسکتا ہے ۔
لیکن افسوس کہ دس فیصد نوجوان بھی ان جدید وسائل ترسیل و ابلاغ کو دین و مذہب کی خدمت کے لئے استعمال نہیں کرتے، بلکہ منفی، غیر ضروری و غیر شرعی اور نامناسب کاموں میں اس کا استعمال زیادہ ہو رہا ہے ۔
دوسری طرف ہمارے ماحول میں سستی و کاہلی اور فضول و لایعنی والی زندگی گزارنے کا رواج عام ہوگیا ہے ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ایسی ہے کہ اس کے سامنے نہ منزل ہے اور نہ کوئی ھدف اور نہ ہی مستقبل کا کوئی خاکہ اور لاحئہ عمل ،۔۔۔
یہ بات ذہن میں رہے سستی و کاہلی اور غفلت و تساہل اور بے کاری ولایعنی والی زندگی ہمارے لئے زہر قاتل ہے، ہمارے مستقبل کے لئے انتہائی مضر نقصان دہ اور تباہ کن ہے ۔ بلکہ یہ نشہ آور چیزوں سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے ۔ کیوں جو شخص اس کا عادی ہوتا ہے وہ معاشرے سے کافی کٹ جاتا ہے مگر تساہل اور سست روی کا شکار معاشرے میں شامل رہ کر معاشرے کے لئے مضر اور نقصان دہ ہوتا ہے ۔
اجرام فلکی ہمہ وقت اور ہر لمحہ گردش میں رہتے ہیں، یہ قدرت کی طرف سے ہمارے لئے اشارہ اور سبق ہے کہ ہم بھی متحرک اور فعال رہیں ہماری زندگی گردش میں رہے ۔ سست اور کاہل انسان تو مردے سے بھی بدتر ہے کیونکہ مردہ کم جگہ گھیرتا ہے ۔
حضرت مولانا علی میاں ندوی رح فرمایا کرت تھے ،کہ انسان کا صرف زندہ رہنا کمال نہیں ہے، بلکہ زندگی کے ساتھ حرکت اور حرارت ہونا بھی ضروری ہے ۔
ایک مشہور مغربی مفکر *بیکن* کا مقولہ ہے ۰۰ انسان کی اکثر برائیاں اور تکلیفیں اس کی سستی کے باعث پیش آتی ہے کسی چیز کے حصول کا متمنی ہونا اور اس کے لئے محنت اور سختی اٹھانے کے لئے تیار نہ ہونا کمزوری اور سستی کی نشانی ہے ۰۰
کاہلی، بےکاری اور سستی دل کے تمام حوصلے پست کردیتی ہے ۔
اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں فکر، غم،کم ہمتی ،بزدلی بخیلی و کنجوسی قرض کے بار سے پناہ مانگتے تھے وہیں سستی اور کاہلی سے بھی پناہ مانگتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی دعا فرماتے تھے :
*اللھم اعوذ بک من الکسل*
اے میرے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی اور کاہلی سے ۔
علماء نے لکھا ہے کہ سستی اور کاہلی سے پناہ مانگنے کی حکمت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی وہ جرآت مندانہ اقدامات اور محنت و مشقت اور قربانی والے وہ اعمال نہیں کرسکتا ،جن کے بغیر نہ دنیا میں کامرانی حاصل کی جاسکتی ہے اور نہ آخرت میں فوز و فلاح حاصل ہوسکتا ہے ۔
اسی لئے خاص طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سستی سے اور ان تمام منفی اور ذلت کی چیزوں سے پناہ چاہتے تھے اور اپنے عمل سے امت کو بھی اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
جب ہم اپنے اسلاف اور اکابر کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں، تو اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ حضرات ان چیزوں سے بچا کرتے تھے جن سے زندگی کی رفتار سست اور دھیمی ہوجائے اور انسان کی نافعیت و فعالیت، اسپرٹ اور حرکت و حرارت میں کمی آجائے ، ہمارے اکابر سستی اور کاہلی کو اپنے سے قریب پھٹکنے نہیں دیتے تھے ۔ وقت کا صحیح استعمال کرتے تھے ،محنت اور جدوجہد ہی کی وجہ سے اللہ نے انہیں عظمت و رفعت اور سرفرازی و بلندی سے اس طرح نوازا کہ دنیا کے ہر شعبے اور میدان میں تعمیر و ترقی اور عظمت ان کا مقدر تھی ۔ گویا ان کا عمل اس شعر پر تھا ۔
قیمت غم حیات کی تو دام دام لے
بہار ہو یا کہ خزاں تو دونوں سے کام لے
اللہ تعالی ہم سب کو بھی ان حقائق کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور سستی اور کاہلی سے ہماری حفاظت فرمائے آمین ۔(شائع کردہ مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی گڈا جھارکھنڈ)
Comments are closed.