شرک کی بے ثباتی دیکھیے!!

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

شرک باطل ہے اور باطل کو فنا ہوجانا ہے، حق اللہ تعالی کا وجود ہے اور حق کے سامنے کسی بھی نام نہاد طاقت، فکر اور معبود کی کوئی اوقات نہیں ہے، دنیا خواہ کتنی ہی ترقی کر لے، سائنس و ٹکنالوجی سے لیکر سولر ورلڈ اور ناسا دنیا کی پہچان بن جائے، چاند پر بستیاں بَس جائیں، دنیا کی توسیع ناقابل یقین حد تک ہوجائے، وسائل حیات پر پوری طرح قابو پالیں، سورج پر بھی کمندیں ڈالنے کی کوشش کرلیں، جو ناقابل تسخیر سمجھا جاتا ہے؛ لیکن یہ حقیقت کبھی نہیں بدلے گی کہ ہر مخلوق کو فنا ہونا ہے، دوام کسی بھی جاندار کو حاصل نہیں ہے، بالخصوص انسانوں نے نادانی میں جنہیں آقا و مولا کے لائق سمجھا، طاقت و قوت کی بنیاد پر ہو یا پھر نفسانی خواہشات کی جڑ پر ہو ان میں سے ہر ایک بنیاد کو اکھڑ جانا ہے، شرک، مشرکین اور خود ساختہ معبودین کی تاریخ بتلاتی ہے کہ باطل ہونے نے ہی انہیں کبھی پنپنے نہ دیا، اگرچہ ایک زمانے میں انہیں شہرت تھی، لوگ سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے اور پوجتے تھے، مگر پھر وہ دور آیا جب انہیں معبود کو ٹھو کر مار کر نوجوان نسلوں نے انقلاب بپا کردیا، آسمان، چاند، ستارے پوجے جاتے رہے؛ لیکن صنعتی انقلاب، نفس اور پھر اب مادیت کا دور ہے، ایک دفعہ دوران کلاس ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مہتم مخدوم و مکرم مولانا ڈاکٹر سعیدالرحمن صاحب اعظمی ندوی دامت برکاتہم کہنے لگے کہ ایک وقت آئے جب لوگ اس مادیت کی چادر کھینچ کر پھینک دیں گے، ایک بغاوت اٹھے گی اور روحانیت کا چرچا ہوگا، لوگ ایک دوسرے کو پھر سے غاروں کی رغبت دلائیں گے، گوشہ نشینی اور سادگی کی تلقین کریں گے، یہ ایک تحریک بن جائے گی- – – – اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ مغرب کا یہ بت اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے، لوگوں میں سرکشی دکھائی دیتی ہے، مادیت کا بھوت اتر رہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ متعبین مغرب اب بھی اس کی گرد چھان رہے ہیں، مشرقی ممالک اس سراب میں بیک رہے ہیں، مگر یورپ کی بڑی تعداد اس سے بیزار ہوگئی ہے، آخر کیوں نہ ہو؟ یہ سب باطل ہیں، اللہ تعالی نے باطل کے اندر دیر سویر ڈھہہ جانے کی ہی صلاحیت رکھی ہے، یہ اگرچہ خوبصورت، آنکھوں کو خیرہ کرنے والا اور انسانوں کو ابھارنے والا ہوتا ہے، مگر اس کی حقیقت غلاظت پر سونے کا ورق چڑھے ہونے سے ذرا بھی الگ نہیں ہوتی، یہی داستان ہے، گزشتہ زمانے سے یہی ہوتا آرہا ہے اور مستقبل میں بھی یہی ہوگا، ہوسکتا ہے کہ اس دوران کشمکش طویل تر ہوجائے، لوگوں کے ایمان کو خوب جانچا اور پرکھا جائے، حالات ایسے بھی ہوں کہ ظاہریت کے سامنے مادیت کی لو مدھم لگنے لگے، پھر اہل ایمان کا عقیدہ انہیں یہی باور کرایا گا کہ بَس اسے چلے جانا ہے، یہ چھلکا ہے اور مغز ہی کو باقی رہنا ہے، مولانا وحیدالدین خان مرحوم نے شرک کی بے ثباتی پر بڑی عمدہ تحریر لکھی ہے، اسے پڑھیے اور ایمان تازہ کیجئے! مولانا لکھتے ہیں:

"شرک کیا ہے- شرک یہ ہے کہ انسان، اللہ کے سوا کسی اور کو معبود بنائے- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جب بهی کوئی انسان، اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا معبود بناتا ہے، تو وه اپنے لیے نہایت برے بدل کا انتخاب کرتا ہے : یعنی یہ کتنا زیاده برا بدل ہے ظالموں کے لیے ( الکهف:٥٠) یہ آیت گویا کہ پوری تاریخ پر ایک تبصره ہے- انسان نے بار بار ایسا کیا ہے کہ اس نے خدا کے سوا، کسی اور کو اپنے لیے معبود کا درجہ دیا- لیکن ہر بار یہ ثابت هوا کہ انسان کا انتخاب نہایت برا انتخاب تها- ایک اللہ کے سوا، کسی کا بهی یہ درجہ نہیں کہ اس کو اپنا معبود بنایا جائے- قدیم زمانے میں ہزاروں سال تک انسان، نیچر کو معبود کا درجہ دیتا رہا- چنانچہ دنیا میں عمومی طور پر وه نظام پرستش رائج هوا جس کو فطرت پرستی کہا جاتا ہے-سورج، چاند، پہاڑ، دریا، سمندر اور دوسری چیزوں کے بارے میں انسان نے یہ فرض کر لیا کہ ان کے اندر الوہیت موجود ہے- اس مفروضہ کی بنا پر،نیچر کی ہر چیز انسان کے لیے قابل پرستش بن گئی- جدید سائنس کے زمانے میں نیچر کی ہر چیز کو تحقیق کا موضوع بنایا گیا، ہر چیز کا آزادانہ مطالعہ کیا جانے لگا- اس تحقیق سے معلوم هوا کہ نیچر صرف نیچر ہے، اس میں کسی بهی قسم کی الوہیت (divinity) موجود نہیں- اس دریافت کے بعد فطرت پرستی کا افسانہ ختم هو گیا- نیچر نے معبود هونے کی حیثیت کو کهو دیا- اس کے بعد موجوده زمانے میں صنعتی تہذیب کا دور شروع هوا- اس جدید تہذیب سے انسان کو بہت سی ایسی چیزیں ملیں، جو اس کو پہلے نہیں ملی تهیں- جدید تہذیب کی اس کامیابی نے بہت سے لوگوں کو فریب میں مبتلا کر دیا- وه سمجهنے لگے کہ جدید صنعتی تہذیب، ان کے لیے معبود کا بدل (substitute) ہے- جدید تہذیب سے لوگوں کو وہی تعلق قائم هو گیا جو معبود حقیقی کے ساتھ هونا چاہئے-لیکن جلد ہی معلوم هوا کہ انسانی صنعت کا ایک بہت بڑا منفی پہلو ہے، وه یہ کہ انسانی صنعت صرف تہذیب کو وجود میں نہیں لاتی، بلکہ وه اسی کے ساتھ صنعتی کثافت بهی پیدا کرتی ہے- اکیسویں صدی عیسوی میں یہ صنعتی کثافت اپنی اس حد کو پہنچ گئی جس کو گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے- یہاں پہنچ کر معلوم هوا کہ جدید صنعت همارے لیے جو دنیا بنا رہی ہے، وه ایک پر کثافت دنیا ہے، یعنی ایک ایسی دنیا جہاں انسان جیسی کسی مخلوق کے لیے رہنا ہی ممکن نہیں- انسان یہ سمجهتا تها کہ صنعتی تہذیب اس کے لیے اسی دنیا کو جنت بنا دے گی، مگر معلوم هوا کہ صنعتی تہذیب جو دنیا بنا رہی ہے، وه اپنی آخری حد پر پہنچ کر انسان کے لیے ایک صنعتی جہنم کے سوا اور کچھ نہیں- اس طرح، صنعتی تہذیب کا مفروضہ معبود بهی ایک باطل معبود ثابت هوا- اب انسان نے ایک اور معبود تلاش کیا- یہ معبود انسان کی خود اپنی ذات، یا سلف ہے- یہ سمجھ لیا گیا کہ خود انسان کے اندر وه سب کچهہ موجود ہے جس کو وه اپنے باہر تلاش کر رہا ہے- اس ذہن کے تحت، یہ فرض کر لیا گیا کہ انسانی وجود کا صرف ایک منفی پہلو ہے، اور وه موت ہے- لوگوں کو یہ یقین هو گیا کہ جدید میڈیکل سائنس یہ مسئلہ حل کر دے گی اور انسان ابدی طور پر اس دنیا میں جینے کے قابل هو جائے گا- مگر میڈیکل سائنس بے شمار تحقیقات کے باوجود اس معاملے میں ناکام هو گئ، جدید میڈیکل سائنس، انسان کو ابدی زندگی کا فارمولا نہ دے سکے- چنانچہ یہ نظریہ معبودیت بهی بے بنیاد ثابت هو کر ختم هو گیا- اب انسانی علم اس مقام پر پہنچا ہے، جہاں اس کے لیے صرف ایک انتخاب باقی ره گیا ہے، اور وه یہ کہ وه حقیقت پسند بنے اور اللہ واحد کو اپنا معبود تسلیم کرکے اس کے آگے جهک جائے- اسی حقیقت پسندانہ اعتراف میں انسان کی دنیوی کامیابی کا راز بهی ہے اور اسی میں اس کی آخروی کامیابی کا راز بهی-” (الرسالہ، ستمبر 2008)

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.