سفر نامہ دہلی پہلی قسط

 

 

از قلم۔ محمد انبساط عالم ندوی

 

راجدھانئ ہند دہلی گلستان ہند کی ایک انوکھی و نایاب کلی ہے جو لال قلعہ کے سرخ جوڑے میں ملبوس ہے تو مسجد جہاں نما ( جامع مسجد دہلی) اس کے حسین رخسار کا تل، قطب منار اس کی سیاہ زلفیں تو دلی کی مارکیٹ اس کا کھلتا و مسکراتا چہرہ، انڈیا گیٹ اس کا قلب کشادہ تو وہاں کی سڑکیں اور گلیاں اس کی لہراتی و بل کھاتی کمر ۔۔۔

قصہ مختصر یہ کہ دہلی کی ہر چیز مجھے جاذب نظر، پر کشش اور دلفریب نظر آئیں جسے الفاظ کے پیکر میں ڈھالنا میرے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

دن بھر کوچہ و بازار میں گردش کرنے کی وجہ سے اس قدر تعب و تکان سے چور چور ہو گیا کہ جب لیلئ شب اپنی رداء دزاز کی تو دو شنبہ کی صبح تقریباً آٹھ بجے بیدار ہوا، نماز فجر بھی تصور میں ہی ادا کیا۔۔۔ برادرم سعید اور عزیزم مفیض نے ناشتہ تیار کیا ، بعد از خورد و نوش ہم مشن رفیق مفیض اور راقم کے دل میں مسجد جہاں نما کی دید و زیارت کا شوق و اشتیاق انگڑائیاں لینے لگیں۔۔۔ بالآخر بذریعہ میٹرو وہاں وارد و واصل ہوا۔۔۔

مسجد جہاں نما مسمی بہ جامع مسجد دہلی اپنی تعمیر و تزئین میں منفرد حیثیت رکھتا ہے۔۔۔ اسے مغل شہنشاہ شاہ جہان نے بروز جمعہ ٦ اکتوبر ١۶٥٠ء مطابق ۱۰ شوال ۱۰۵۰ھ کو بدست خود ایک پہاڑ کی چوٹی پر اس کی خشت اول رکھی تھی ،

کرۂ ارضی کے ماہرین تعمیرات، بہترین نقاش، عظیم ترین سنگ تراش، ایکسپرٹ انجینئرز، بہترین خطاطوں اور ممتاز فنکاروں کے علاوہ چھ ہزار مزدور اس میں کام کرتے تھے اور ہر مزدور کو یومیہ دو پیسے ملتے تھے، پتھر و دیگر سامان تعمیرات و تزئینات کے علاوہ دس لاکھ روپے اس کی تعمیر میں صرف ہوئے، مسلسل چھ سال کی تعمیر کے بعد 1656ء (1066ھ) میں مرحلہ تکمیل کو پہونچا،

دوران تعمیر شاہ جہاں کو یہ شکایت موصول ہوئی کہ تعمیری کام بہت سست رفتاری اور کسل مندی سے انجام پا رہا ہے۔۔ لہذا بادشاہ نے نگران تعمیر سعد اللہ خان کو رقعہ طلب ارسال فرما کر اس کی وجہ دریافت کی، سعد اللہ خان نے جواباً کہا کہ مسجد کے اندرونی حصے کے فرش کے ہر پتھر کو نصب کرنے سے قبل ایک قرآن مجید پڑھ کر دم کیا جاتا ہے، جب یہ جواب شاہ جہاں کے گوش گزار ہوا تو انہوں نے حسب سابق تعمیر جاری رکھنے کا حکم دیا۔۔۔۔

*مسجد کی تعمیری نوعیت۔۔*

مسجد میں ۲۵ ہزار افراد بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں، صحن مسجد میں داخل ہونے کے لئے تین دروازے ہیں،شمالی دروازے میں ۳۹ جنوبی میں۳۳ اور مشرقی دروازے میں ۳۵ زینے ہیں، مسجد تین گنبد اور دو بلند و بالا منارے پر مشتمل ہے، مسجد کی لمبائی تقریباً چالیس میٹر اور چوڑائی ۲۷ میٹر ہے، مسجد سرخ سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے۔۔۔ مسجد کی تعمیر میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ اس کا منبر لال قلعہ میں واقع تخت شاہی سے بلند ہو۔۔۔۔

جامع مسجد کے پہلے امام حضرت سید عبد الغفور شاہ بخاری تھے جو اپنے وقت کے بڑے عالم، متقی و پرہیزگار، عابد و زاہد، صحیح النسب اور نجیب الطرفین تھے۔۔۔۔۔

الحمد راقم کو مسافرانہ دو رکعت نماز ظہر ادا کرنے کا موقع ملا۔۔۔ اللہ اس زمیں کو ہمارے لئے بروز قیامت شاھد بنائے۔۔

 

 

*دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے*

 

جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی*

 

حسب توقع مسجد جہاں نما کی سیر و سیاحت بہت زیادہ خوش گوار و دل فریب ثابت نہ ہو سکی کیونکہ اگلی صبح جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مرحلہ امتحان و اختبار سے گزرنا تھا ، جب شاہین باغ، اور جامعہ نگر کی شاہراہوں اور گزر گاہوں سے فدوی کا گزر ہوا تو گزشتہ سال کے وہ سارے دلسوز و دلگداز مناظر آنکھوں کے سامنے رقص کناں ہو گیے ، وہاں کا ذرہ ذرہ، بوٹہ بوٹہ اپنی زبان حال سے یوں گویا تھا کہ ہاں میں وہی شاہین باغ ہوں جس نے ملت اسلامیہ ہندیہ کی بقاء و تحفظ کے لئے وقت کے فراعنہ و جبابرہ کے خلاف ملک گیر پیمانے پر علم احتجاج و مظاہرہ بلند کیا تھا، ہاں میں وہی شاہین باغ ہوں جو سی اے اے اور این آر سی کی تحریک کا محرک ہے، ہاں میں وہی شاہین باغ ہوں جس نے آئین ہند کی حفاظت و صیانت کی خاطر گالیاں سنیں، لاٹھیاں کھائیں، ظلم و بربریت کو جھیلا، طرح طرح کے الزامات و اتہامات کا سامنا کیا، مگر کیا آپ کو وہ منظر بھی یاد ہے کہ شیر خوار معصوم بچوں سے لیکر جوان تک ، عفت نشیں بوڑھی ماؤں سے لیکر عفت مآب قوم کی بیٹیوں اور دوشیزاؤں تک سب ہی حکومت وقت کے ظلم و بربریت کے خلاف کوہ غیر متزلزل بنے رہے تھے ؟، کیا آپ کو سردی کی ٹھٹھرتی راتوں اور اعصاب شکن بارش میں ماؤں اور بہنوں کا شب و روز دھرنا دئیے رہنا یاد ہے؟ کیا آپ کو شہر آرزو (جامعہ ملیہ اسلامیہ) کے نونہالوں کی قربانیاں یاد ہیں؟ کیا آپ کو وہ وقت یاد ہے جب قوم کے شاہینوں کے پروں کی پرواز کو روکنے کے لئے طرح طرح کی سازشیں اور کوششیں کی گئی تھی؟ کیا آپ کو وہ منظر یاد ہے جب ہماری بہنوں اور بھائیوں پر لائیبریری میں گھس کر لاٹھیاں برسائی گئیں تھیں؟ انکی آنکھیں پھوڑی گئیں تھیں؟ کیا آپہماری ان تمام قربانیوں کو فراموش تو نہیں کر دینگے؟ کیا آپ مستقبل میں ہماری محنت و جفاکشی کو بھلا تو نہیں دینگے؟۔۔۔ وہاں کے در و دیوار کی یہ سر گوشیاں سن کر میری آنکھیں اشکبار، قلب و جگر مضطرب، دل پریشاں ، زباں گنگ، اعضاء مفلوج اور قوت فکر و عمل چند ساعتوں کے لئے فنا سی ہو گئیں تھیں، تفکر و تدبر کی صلاحیتیں ان کی آہوں تلے دب گئیں، اور مجھ پر ان کے مذکورہ سوالات بادلوں کی طرح منڈلانے لگے مگر قلت وقت دامن گیر ہونے کی وجہ سے کوئی جواب نہ دیا جا سکا۔۔۔۔۔۔

جب شہر آرزو پہونچا تو تشنگانِ علوم کا ہجوم قیامت کبریٰ کا منظر پیش کر رہا تھا، ندوۃ العلماء کے کئی ایک احباب سے معانقہ و مصافحہ ہوا، ماضی کی مختصر داستان اور مستقبل کے حسیں خواب کا تذکرہ ہوا، گفت و شنید جاری ہی تھا کہ گھنٹے کی آواز سنائی دی۔۔۔

بہر کیف قاعۃ الاختبار میں اس حالت میں پہونچا کہ میری آنکھیں نمدیدہ، قدم لغزیدہ، جبیں افسردہ، نظر شرمندہ اور بدن لرزیدہ لرزیدہ تھا ، نگران امتحاں نے سارے اصول و ضوابط دہرائے، سوالات و جوابات کی کاپیاں دی گئیں۔۔۔۔ ذہن و دماغ پہلے ہی بہت سے سوالوں کے گھیرے میں تھا اب ایک اور مصیبت آن پڑی، حسب استطاعت و صلاحیت جواب دینے کی مکمل کوششیں کیں مگر کچھ عقدے ایسے تھے جن کی گرہیں کھل نہ سکیں۔۔۔ ڈیرھ گھنٹے کا وقت تھا، وقت نہاں ہوتے ہی نگران امتحاں کاپیوں پر اس طرح جھپٹے جسے شکاری اپنے شکار پر اور کسی امتحان دہندہ کو لمحہ بھر کی فرصت بھی میسر نہ آئی، یہ کیفیت دیکھ کر بے ساختہ زبان و دل پر یہ آیت گردش کرنے لگی”لكل أمة أجل إذا جاء أجلهم فلا يستأخرون ساعة ولا يستقدمون” ( ہر امت کے لئے ایک معین وقت ہے جب ان کا وہ معین وقت آجاتا ہے تو وہ لوگ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں)

 

لہذا ائے دانشوروں! ، اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے ، اپنی صحت کو اپنے مرض سے پہلے ، اپنی مال داری کو اپنی محتاجی سے پہلے ، اپنی فراغت کو اپنی مصروفیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے غنیمت سمجھو۔۔۔

شہر آرزو کا ہر بام و در یوں کہ رہا تھا کہ میں بھی ملت اسلامیہ کا ایک عظیم سرمایہ اور دانش کدہ ہوں، اسلام و مسلمان دشمن عناصر کی نگاہیں مجھ پر ٹکی ہوئی ہیں، مجھے بدنام کرنا اور میرے وجود کو زمیں بوس کر دینا انکی دیرینہ آرزو و تمنا ہے، میرے نونہالوں کو دہشت گرد اور ملک مخالف بتانا ان کا مشغلہ ہے، حکومت وقت ہمیں مٹا دینا چاہتی ہے کیا تم ہماری حفاظت و صیانت اور پاسبانی کے لئے مستعد ہو؟ ہمیں ملت کے ہر فرد کے جواب کا انتظار ہے۔۔۔۔۔ کیا آپ ہر طرح کی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہیں؟

 

٤ اگست ۲۰۲۱

7070395646

[email protected]

جاری

Comments are closed.