اس فریضہ کو ہر حال میں انجام دینا ہوگا

 

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

روایت میں آتا ہے کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریر فرمائی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کی تعریف فرمائی کہ یہ لوگ دوسروں کو دین کی باتیں بتاتے ہیں، پھر فرمایا کہ ایسا کیوں ہے، کہ کچھ لوگ اپنے پڑوسیوں میں دینی سوجھ بوجھ اور شعور پیدا نہیں کرتے، ان کو تعلیم کیوں نہیں دیتے؟ ان کو نصیحت کیوں نہیں کرتے ؟ بری باتوں سے کیوں نہیں روکتے ؟ اور ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ دین کی بات نہیں سیکھتے ؟کیوں اپنے اندر دینی شعور اور سمجھ پیدا نہیں کرتے ؟ خدا کی قسم آس پاس کی آبادی کو دین سکھانا ہوگا،ان کے اندر دینی شعور پیدا کرنا ہوگا ،وعظ و تلقین کا کام کرنا ہوگا اور لوگوں کو لازما اپنے قریب کے لوگوں سے دین سیکھنا ہوگا ،اپنے اندر دینی سوجھ بوجھ پیدا کرنی ہوگی اور وعظ و نصیحت قبول کرنا ہوگا، ورنہ میں انہیں اس دنیا میں جلد سزا دوں گا ۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لے آئے ،لوگوں میں چے می گوئیاں ہونے لگیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے سخن کن لوگوں کی طرف تھا ،کچھ لوگوں نے کہا آپ کا اشارہ قبیلئہ اشعر کی طرف تھا ۔ یہ لوگ دین کا علم اور شریعت سے واقفیت رکھتے ہیں اور ان کے قریب دین سے ناواقف و بے پروا دیہاتی بستے ہیں اور اشعری لوگ دعوت و تبلیغ سے غافل ہیں ۔
جب محضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تقریر کی خبر اشعری لوگوں کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا حضور! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم سے کیا قصور سرزد ہوا کہ ہم پر غضب ناک ہوئے ؟ ۰۰کیا تعلیم و تبلیغ بھی ہماری ذمہ داری ہے۰۰؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! یہ بھی تمہاری ذمہ داری ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل الخ (طبرانی بحوالہ چراغ راہ صفحہ ۱۸۸)
بنی اسرائیل کے کافروں پر(حضرت) داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کی زبانی لعنت کی گئی ،اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے ۔ آپس میں ایک دوسرے کو برے کام سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے ،جو کچھ بھی یہ کرتے تھے ،یقینا وہ بہت برا تھا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آیت اس موقع پر تلاوت فرمائی اس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ بنی اسرائیل نے نافرمانی کرنے والوں کو نہیں روکا، جس کے نتیجہ میں خدا کی ناراضگی اور غصہ ان پر بھڑکا ،تم نے بھی اگر نافرمانوں کا ہاتھ نہ پکڑا ان کو برائی سے نہیں روکا اور غلط قسم کی رواداری برتی تساہلی اور لاپروائی سے کام لیا اور اپنی ذمہ داری اور فرض منصبی کو نہیں سمجھا تو تم بھی اس غضب کے شکار ہوگے۔
ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ یقینا اللہ تعالی خاص لوگوں کے عمل ( گناہوں ) کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا، یہاں تک کہ جب عام لوگوں کا حال یہ ہو جائے کہ وہ برائی اپنے درمیان ہوتے دیکھیں اور اس پر وہ نکیر کرنے پر قادر بھی ہوں ،لیکن وہ اسے تنقید کا نشانہ نہ بنالیں ۔ یعنی برائی پر نکیر نہ کریں ۔ جب ایسے ہونے لگے تو اللہ تعالی کا عذاب عام اور خاص سب لوگوں کو اپنی لپٹ میں لے لیتا ہے ۔
ایک روایت میں اس فریضہ کے ترک پر یہ وعید سنائی گئ ہے کہ تم عذاب الہی کے مستحق بن جاو گے ، پھر تم اللہ سے دعائیں بھی مانگو گے تو قبول نہیں ہوں گی ۔ ( سنن ترمذی ابواب الفتن)
ان تفصیلات کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت کو خصوصی طور پر دعوت کی ذمہ داری اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سونپا ہے، اس لئے ہم میں سے ہر ایک کو اس فرض اور ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا ،بے خبر لوگوں کو دین سمجھانے کی فکر کرنی ہوگی اور تعلیم و تبلیغ کے فریضہ کو ہر حال میں انجام دینا ہوگا ۔ یہی راستہ ہے نجات و فلاح کا یہ ڈگر ہے کامیابی اور کامرانی کی, اور یہی راستہ ہے خدا کے غضب سے بچنے کا ٫اور اس کی رضا حاصل کرنے کا ۔ ہم سب کو اس کے لیے کمر بستہ ہونا پڑے گا اور اس کے لئے خاص جد و جہد کرنی پڑے گی ۔ خاص طور پر ہم طبقئہ علماء کو اس محاذ پر سرگرم عمل ہونا پڑے گا کہ ہم جانشین رسول اور نائیبن انبیاء ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو ہی ذمہ داریاں بیان فرمائی تھی ایک یہ کہ انما بعثت معلما میں پوری انسانیت کے لئے معلم و گائڈ بنا کر بھیجا گیا ہوں اور دوسری حیثیت اور منصب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا کہ بعثنی اللہ مبلغا اللہ تعالٰی نے پوری انسانیت کے لئے مجھے داعی اور مبلغ بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔

Comments are closed.