اولاد پرستی کا عجیب فتنہ

 

محمد صابر حسین ندوی

موجودہ دور میں ایک بڑا فتنہ اولاد پرستی کا ہے، پرستی کا لفظ ذہن کو پرستش کی طرف لے جاتا ہے، یقیناً پرستش، عبادت، بھکتی اور وندنا صرف معبود حقیقی کی ہوتی ہے اور وہی اس کا سزاوار ہے؛ لیکن انسان اس دنیا میں اپنے اپنے حالات اور ذہنی اٹھان کے مطابق بہت سے بت تراش لیتا ہے، شب و روز کی کدو کاوش اور الجھنوں میں الگ الگ مشکل کشا ڈھونڈ لیتا ہے، دل کے خوف اور ڈر کو کسی نہ کسی صورت میں سر پر بٹھا لیتا ہے، بسااوقات ایک اللہ کی عبادت کے باوجود یہ عمل جاری رہتا ہے؛ حتی کہ پنج وقتہ نماز، رمضان المبارک کے روزے اور بدنصیبی دیکھئے کہ حج کے باوجود دل کا یہ چور نکل نہیں پاتا، مادیت، ظاہریت، ہوس رانی، خواہش پرستی وغیرہ تو عام ہے؛ مگر اولاد کی بھی پرستی ہو اور کسی کو اس کی طرف متوجہ کیا جائے تو اسے ماننے سے انکار کردے گا، اس کی دو وجہیں ہیں، پہلی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر پرستش کو صرف روحانی طاقت کے ساتھ خاص سمجھا جاتا ہے، دوسری بات یہ کہ اسے فطرت، جذبات اور احساسات سے جوڑ کر دیکھتے ہیں، جو شخص اس پر انگشت نمائی کرے وہ گویا بے دل اور احساس سے عاری کہلائے گا، اس سلسلہ میں بھلے ہی وہ کسی بھی حد تک چلے جائیں….. مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان بالخصوص حالات حاضرہ میں وہ اولاد کے فتنے میں پڑ چکا ہے، قرآن مجید نے پہلے ہی اولاد کو ایک آزمائش قرار دیا تھا، دنیاوی زندگی میں انہماک، اللہ تعالی سے غفلت اور عبادت سے دوری کا وسیلہ بتایا تھا، فرمان الہی ہے: اِنَّمَاۤ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ ؕ وَ اللّٰہُ عِنْدَہٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ (تغابن:١٥) "یقیناً تمہارا مال اور تمہاری اولاد آزمائش کا ذریعہ ہے ، اور اللہ کے پاس بڑا اجر ہے ۔” ظاہر ہے کہ لوگ اولاد کی خاطر اپنے حدود میں توسیع لاتا ہے، قوت بازو کو مزید پھیلاتا ہے، وہ بھی نہیں سوچتا کہ کیا حق ہے اور کیا باطل ہے؟ اس کے اعمال اور رویہ سے کیا نتائج برآمد ہورہے ہیں یا مستقبل میں ہوسکتے ہیں؛ بلکہ غلاظت پر چاندی کا ورق لگاتے لگاتے وہ خود کو سونار اور اولاد کو سونا سمجھ بیٹھتے ہیں، بچے کو ایک معبود سے جوڑنے، مادی دنیا میں اتھل پتھل سے بچنے کی تلقین کرنے کے بجائے اسے شیطانی ہاتھوں میں چھوڑ دیتے ہیں، دنیا کی روانی میں خود بھی بہتے ہیں اور اسے بھی بہنے پر مجبور کرتے ہیں، پھر وہ وقت آتا کہ بچہ خدا بیزار اور دین بیزار ہوجاتا ہے، اس کے نرمی و محبت اور خلوص کا کوئی ٹکڑا نہیں بچتا، وہ مادیت کا پجاری اور ظاہریت کا دلدادہ بن جاتا ہے، رفتہ رفتہ نوبت یہ آجاتی ہے کہ وہ دین و دنیا سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، والدین بھی سر پکڑ کر رہ جاتے ہیں، ضعیفی کا سہارا لاغری کی لعنت بن جاتا ہے، ظاہر ہے جو اللہ کا نہ ہوا، خالق و مالک کا نہ ہوا، ابدی زندگی جس کی ترجیح نہ رہی تو پھر مجازی رب، وقتی دنیا اور زندگی کا فریب اسے کیسے درستگی کی طرف لوٹا سکتا ہے!
مولانا وحیدالدین خان ایک. جہاں دیدہ بزرگ تھے، وہ دیش دنیا پر گاہ رکھتے تھے، گھریلو دشواریوں اور تربیتی پہلوؤں پر بصیرت افروز تجربہ رکھتے تھے، الرسالہ میں کئی دفعہ اس جانب توجہ دلایا کرتے تھے، ایک موقع پر آپ کے فتنے پر لکھا تھا، جو پڑھنے کے قابل ہے، مولانا رقم طراز ہیں: "ایک حدیث رسول میں بتایا ہے کہ سب سے گهاٹے میں وه شخص ہے جو دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کهو دے- یہ حدیث موجوده زمانے میں سب سے زیاده ان لوگوں پر چسپاں هوتی ہے جو صاحب اولاد ہیں- موجوده زمانے میں صاحب اولاد لوگوں کا حال یہ ہے کہ ہر ایک کے لیے اس کی اولاد اس کا سب سے بڑا کنسرن بنی هوئی ہے- ہر ایک کا یہ حال ہے کہ وه اپنی اولاد کے لیے زیاده سے زیاده دنیا کمانے میں مصروف ہے، اور خود اپنی آخرت کی خاطر کوئی حقیقی کام کرنے کے لیے آدمی کے پاس وقت ہی نہیں- موجوده زمانے میں ہر آدمی اس حقیقت کو بهول گیا ہے کہ اس کی اولاد اس کے لیے صرف امتحان کا پرچہ ہے۔ (الانفال:28) اولاد اس کو اس لیے نہیں ملی ہے کہ وه بس اپنی اولاد کو خوش کرتا رہے، وه اپنی اولاد کی دنیوی کامیابی کے لیے اپنی ساری توانائی لگا دے- موجوده زمانے میں بہت سے لوگ ہیں جو بظاہر مذہبی وضع قطع بنائے رہتے ہیں اور رسمی معنوں میں صوم و صلاه کی پابندی بهی کرتے ہیں، لیکن عملا وه اپنا سارا وقت اور اپنی بہترین صلاحیت صرف دنیا کمانے میں لگائے رہتے ہیں، صرف اس لیے کہ جب وه مریں تو اپنی اولاد کے لیے وه زیاده سے زیاده سامان دنیا چهوڑ کر جائیں- مگر ایسے لوگ صرف اپنے آپ کو دهوکہ دے رہے ہیں- خدا کو دینے کے لیے ان کے پاس صرف کچهہ ظاہری رسوم ہیں اور جہاں تک حقیقی زندگی کا تعلق ہے، اس کو انهوں نے صرف اپنی اولاد کے لیے وقف کر رکها ہے- یہ خدا پرستی نہیں ہے، بلکہ وه حدیث کے الفاظ میں اولاد پرستی ہے- اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اولاد پرستی کا طریقہ کسی کو خدا پرستی کا کریڈیٹ نہیں دے سکتا- خدا پرستی، زندگی کا ضمیمہ نہیں، حقیقی خدا پرستی وه ہے جو انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہو-” (الرسالہ، اپریل 2008)

[email protected]
7987972043

Comments are closed.