کیا بیوی کی مرضی کے بغیر اس سے مباشرت کی اجازت نہیں؟   __________ اسلام کا نقطۂ نظر

 

 

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

 

کیرلا ہائی کورٹ نے ایک ایسا فیصلہ سنایا ہے ، جسے ہندوستانی میڈیا نے ‘بریکنگ نیوز’ کی حیثیت دی ہے _ چنانچہ تمام اخبارات اور پورٹلس میں اسے نمایاں جگہ دی گئی ہے اور اس پر مباحثے شروع ہوگئے ہیں _ کورٹ کی ڈویژن بینچ نے کہا ہے کہ بیوی کے جسم کو شوہر کا اپنی ملکیت سمجھنا اور اس کی مرضی کے خلاف اس سے مباشرت کرنا ‘بالجبر جنسی عمل'( Merital Rape) ہے _ کورٹ نے یہ فیصلہ ایک شخص کی اپیل کو خارج کرتے ہوئے سنایا ہے جس نے فیملی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی کہ بیوی کے ساتھ شوہر کے ذریعے زبردستی مباشرت کی صورت میں بیوی کو طلاق لینے کا حق ہے _

 

بینچ کے فاضل ججوں نے کہا ہے کہ اگرچہ قانون Marital Rape کو سزا کے دائرے میں نہیں لاتا ، لیکن کورٹ اسے ظلم ماننے سے نہیں رک سکتا _ اس کی نظر میں اس بنا پر بیوی کو حق ہے کہ وہ علیٰحدگی کا مطالبہ کرے _ کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ ازدواجی زندگی میں جنسی عمل (Sex) زوجین کے درمیان گہرے تعلق کا عکّاس ہوتا ہے _ اِس کیس میں بیوی اپنی مرضی کے خلاف جنسی تشدّد کا شکار رہی ہے _ ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے جو اسے فطری قانون اور دستور نے دیا ہے کہ وہ اپنی نجی زندگی میں اذیّت کا شکار نہ ہو _ بینچ نے کہا ہے کہ اگر زوجین میں سے کسی کی جنسی خواہش بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہو اور دوسرا اس کی تکمیل کا متحمّل نہ ہو تو وہ علیٰحدگی اختیار کرسکتا ہے _

 

یہ موضوع مغرب میں کافی عرصہ سے زیرِ بحث ہے _ وہاں کے بعض ممالک میں قوانین بھی بن گئے ہیں کہ بیوی کی مرضی کے بغیر اس سے جنسی تعلق قائم کرنا غیر قانونی اور قابلِ تعزیر جرم ہے _ کچھ عرصہ قبل یہ موضوع ہندوستان کی سپریم کورٹ میں بھی زیر بحث آچکا ہے _ 2014 میں اسپیشل فاسٹ ٹریک کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ زنا بالجبر (Rape) سے متعلق ہندوستانی قوانین کا اطلاق شادی شدہ جوڑوں پر نہیں ہوتا _اس لیے بیوی کے ساتھ زبردستی جنسی عمل کو Rape نہیں کہا جاسکتا _ اب کیرلا ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا ہے کہ اگر شوہر بیوی کے ساتھ زبردستی کرے تو اس بنیاد پر وہ طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے _

 

احباب دریافت کررہے ہیں کہ اس سلسلے میں اسلام کا کیا نقطۂ نظر ہے؟ ذیل میں نکات کی شکل میں اس کی وضاحت کی جارہی ہے :

 

(1) آزادی جدید دنیا کی بنیادی قدروں میں سے ہے _ مغرب میں بلا حدود و قیود آزادی کا چلن ہے _ وہاں ہر شخص کو آزادی حاصل ہے ، کسی دوسرے کو اس پر قدغن لگانے کا حق نہیں ہے _ کسی مرد یا عورت سے جنسی تعلق اس کی مرضی سے قائم کیا جاسکتا ہے ، اس کی مرضی کے بغیر نہیں ، حتی کہ بیوی کے معاملے میں شوہر کو بھی اس کا حق نہیں _ اسلام بے محابا آزادی کا قائل نہیں ہے _ اس کے نزدیک اتنی آزادی قابلِ تسلیم نہیں ہے جس سے دوسرے کے حقوق پامال ہوں _

 

(2) جنس (sex) لڑکا / لڑکی ، مرد / عورت کی فطری ضرورت ہے _ اسلام نے اسے تسلیم کیا ہے ، لیکن اسے نکاح کا پابند کیا ہے _ اس نے نکاح کے بغیر کھلے اور چھپے ہر طرح کے جنسی تعلق کو حرام قرار دیا ہے :

مُحۡصِنِيۡنَ غَيۡرَ مُسَافِحِيۡنَ وَلَا مُتَّخِذِىۡۤ اَخۡدَانٍ‌ؕ ( المائدۃ :5)

” تم نکاح میں اُن (عورتوں) کے محافظ بنو ، نہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو ، یا چوری چُھپے آشنائیاں کرو۔”

مُحۡصَنٰتٍ غَيۡرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخۡدَانٍ‌ ؕ (النساء :25)

” تاکہ وہ (عورتیں) حصارِ نکاح میں محفوظ ہو کر رہیں ، آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں اور نہ چوری چھُپے آشنائیاں کریں۔ ”

 

(3) زوجین کا باہم عملِ مباشرت ایک پسندیدہ اور مطلوب عمل ہے _ اس سے دونوں کو جسمانی اور نفسیاتی سکون ملتا ہے _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡكُنُوۡۤا اِلَيۡهَا ( الروم : 21)

” اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے ، تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو _”

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جنسی عمل کو فرحت بخش قرار دیا ہے اور اسے ‘شہد جیسی مٹھاس’ سے تشبیہ دی ہے _( بخاری : 5825 ، مسلم : 1433) ایک حدیث میں آپ نے اسے ‘صدقہ’ سے تعبیر کیا ہے _ ارشاد ہے :

” وَ فِي بُضْعِ أحَدِكُم صَدَقَةٌ ”

(تمھارا اپنی بیوی سے مباشرت کرنا صدقہ ہے _)

یہ بات صحابۂ کرام کو عجیب سی لگی _ انھوں نے سوال کیا : ” اے اللہ کے رسول ! کیا ہم میں سے کوئی اپنی جنسی خواہش پوری کرے تو اس پر بھی اسے اجر ملے گا _؟” آپ نے اس سوال کا بڑا پیارا سا جواب دیا _ آپ نے فرمایا : ” اگر وہ حرام کاری کرتا تو اس کا گناہ اسے ملتا_ اسی طرح اگر اس نے جائز طریقے سے اپنی خواہش پوری کی تو اس پر اسے ضرور اجر ملے گا _” ( مسلم : 1006)

 

(4) اسلام زوجین کو حکم دیتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں ، ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں اور ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پورا کریں _ شوہر کو بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی گئی ہے _ قرآن مجید میں ہے :

وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ (النساء :19)

” ان (عورتوں) کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو _”

اور بیوی کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ شوہر کا کہنا مانا اور اس سے سرتابی نہ کرے _ خاص طور سے اسے حکم دیا گیا ہے کہ جب شوہر اس سے جنسی تعلق کا تقاضا کرے تو اگر اسے کوئی عذر نہ ہو تو انکار نہ کرے _ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ” اگر شوہر بیوی کو (جنسی تعلق کے لیے) بلائے تو وہ فوراً چلی جائے ، چاہے وہ تنّور پر بیٹھی ہو _” ( ترمذی : 1160) ایک حدیث میں ہے کہ آپ ص نے فرمایا : ” اگر شوہر رات میں اپنی بیوی کو جنسی تعلق کے لیے بلائے ، لیکن وہ نہ جائے تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت کرتے ہیں _” ایک روایت میں ہے کہ ” اوپر والا اس سے اُس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک شوہر کی ناراضی دور نہ ہوجائے _” (مسلم : 1436)

ان احادیث کا خطاب اگرچہ عورت سے ہے ، لیکن ان کا اطلاق دونوں پر ہوتا ہے _ شوہر اور بیوی دونوں کو چاہیے کہ اپنے جوڑے کی جنسی خواہش کو پورا کرنے سے اعراض نہ کرے ، چاہے کسی وقت خود اس کی اپنی خواہش نہ ہو _

 

(5) زوجین کے درمیان جنسی تعلق کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں اعتدال ہونا چاہیے _ اعتدال کی کوئی حد نہیں قائم کی جا سکتی _ بعض اطباء نے ہفتہ میں ایک بار تعلق کو صحت کے لیے بہتر قرار دیا ہے ، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس معاملے میں زوجین خود فیصلہ کرسکتے ہیں اور اپنی مرضی سے اس میں کمی بیشی کرسکتے ہیں _

 

(6) اگر اس معاملے میں زوجین میں سے کسی کی طرف سے آمادگی نہ پائی جائے _ شوہر کی خواہش ہو ، لیکن بیوی آناکانی کرے ، یا بیوی کی خواہش ہو ، لیکن شوہر کسی دوسرے کام میں مصروف ہو تو دوسرے فریق کو کچھ رعایت دینی چاہیے اور اس پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے _ اس معاملے میں شوہر پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صبر و ضبط کا مظاہرہ کرے _ اس لیے کہ عورت مختلف مزاجی کیفیات سے گزرتی ہے _ حیض سے قبل اس میں چڑچڑاپن ہوسکتا ہے ، بچے کو دودھ پلانے کی مشقّت ہوسکتی ہے ، یا دوسرے گھریلو مسائل درپیش آسکتے ہیں _ جبریہ جنسی تعلق یوں بھی لذّت بخش نہیں ہوتا _ لذّت کی فراوانی اس وقت ہوتی ہے جب دونوں فریق بھرپور طریقے سے ایک دوسرے کا ساتھ دیں _

 

(7) اگر کوئی عورت عملِ مباشرت پر آسانی سے آمادہ نہیں ہوتی اور مسلسل انکار کرتی ہے تو اس کے اسباب جاننے کی کوشش کرنی چاہیے ، پھر ان اسباب کو دور کرنا چاہیے _ اس موضوع پر اس سے کھل کر بات کرنی چاہیے _ بسا اوقات عورت کی شرم گاہ بہت تنگ ہوتی ہے ، جس کی بنا پر مباشرت سے وہ شدید اذیت محسوس کرتی ہے _ اگر ایسا ہے تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے کہ معمولی آپریشن سے اس کی اصلاح ہوسکتی ہے _

 

(8) اگر زوجین میں سے ایک کی جنسی ضرورت دوسرے سے مستقل طور پر نہیں پوری ہوپارہی ہو تو شریعت نے اس مسئلے کو بھی حل کیا ہے _ اگر بیوی کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جس کی وجہ سے وہ شوہر کی جنسی خواہش کی تکمیل سے قاصر ہو تو شوہر دوسری شادی کرسکتا ہے اور اگر شوہر کسی مرض کی وجہ سے بیوی کی جنسی خواہش کو پورا نہ کر پارہا ہو تو عورت خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے _

 

(9) عام حالات میں ، جب بیوی صحت مند ہو اور اسے کوئی عذر نہ ہو تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اگر شوہر مباشرت کا تقاضا کرے تو اس سے انکار کردے ، محض یہ کہہ کر کہ اس کی مرضی نہیں ہے _ اس کا یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ جب وہ چاہے گی تبھی شوہر کو مباشرت کرنے دے گی ، ورنہ نہیں _ اسے شوہر کی جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے برضا و رغبت تیار رہنا چاہیے ، جس طرح شوہر کی ذمے داری ہے کہ جب بیوی مباشرت کی خواہش کا اظہار کرے تو اسے نہ ٹالے _

 

(10) اگر شوہر جلد جلد جنسی عمل کا تقاضا کرتا ہو اور بیوی محسوس کرتی ہو کہ اسے شوہر کی بڑھی ہوئی جنسی خواہش کی تکمیل میں اذیّت ہوتی ہے تو وہ علیٰحدگی کا مطالبہ کرسکتی ہے اور اگر شوہر طلاق یا خلع پر آمادہ نہ ہو تو وہ دار القضاء میں کیس دائر کرکے نکاح کو فسخ کراسکتی ہے _ اسلامی شریعت نے تو عورت کو یہاں تک حق دیا ہے کہ شوہر سے اس کی منافرت کا کوئی بھی سبب ہو وہ اس سے گلو خلاصی حاصل کرسکتی ہے _ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا : ” میں اپنے شوہر پر دین اور اخلاق کے معاملے میں کوئی الزام نہیں لگاتی ، لیکن میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی _” چنانچہ آپ نے ان کا نکاح ختم کروادیا _ (بخاری : 5273 ، 5274 ، 5276)

Comments are closed.