مفلسی و فراوانی کا سنگم اور اشاعت قرآن

مرتب – محمد حنیف ٹنکاروی
تاریخ اسلام کے کشادہ سینہ پر فتح و مسرت کے تمغے اور شکست و ہزیمت کے رِستے زخم بھی ہیں۔ اکابر امت نے علم کے حصول میں زندگیاں وقف کردیں، قرآن، حدیث، فقہ، نحو و صرف وغیرہ علوم کو صِرف حاصل ہی نہیں کیا بلکہ ہم تک پہچانے میں ان کو دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
ائمہ قراءت نے بھی شیوخ سے قراءات حاصل کرنے میں بڑی محنت کی ہے، لمبی لمبی مسافت طے فرماتے اور باوجود لمبی مسافت طے کرنے کے طلبہ کے ہجوم کی وجہ سے شیخ سے قراءات حاصل کرنے میں دشواری آتی چنانچہ امام ورش رحمۃاللہ علیہ کا واقعہ مشہور ہے کہ آپ کو بمشکل امام نافع رحمہ اللہ سے پانچ پانچ آیات سنانے کا موقع ملا تھا، جہاں عدم فرصت، لمبی مسافت کی داستانیں ہیں، وہیں مفلسی اور تنگ دستی کے احوال پائے جاتے ہیں۔ مگر ان خوشہ چینوں نے مبارک فن، علم قراءات کو حاصل کرکے امت تک پہونچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ایسی مفلسی جو بالکل تباہ کردے شاید ہم میں سے کوئی اس سے دوچار نہ ہُوا ہو، اور اللہ تعالیٰ نہ کبھی ایسے دن دکھائے، لیکن ہم انسانی سماج کا حصہ ہونے کی وجہ سے غریبی کا احساس تو کر ہی سکتے ہیں ۔ اگر کر سکتے ہیں تو اندازہ ہوگا کہ مفلسی کس قدر جاں سوز ہوتی ہے اور ساتھ ہی ایک مفلس آدمی کے تئیں سماج کا رویہ کیا ہوتا ہے وہ کس طرح سماجی علیحیدگی کا دکھ جھیلتا ہے ۔ تو ایسے مفلسی و تنگدستی میں لیل و نہار گزارنے والے امام عاصم رحمہ اللہ تعالیٰ جن کی روایتِ حفص دنیا کے اکثر علاقوں میں پڑھی پڑھائی جاتی ہے ان کا ایک واقعہ پڑھ کر زندگی کا نیا شعور حاصل کرتے ہیں۔
حضرت امام عاصم رحمۃ اللہ علیہ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں افلاس و تنگدستی میں مبتلاء ہو گیا، احباب و متعلقین میں سے جن پے تکیہ تھا انہوں نے بھی منھ موڑ لیا، نوبت فقرو فاقہ تک جا پہونچی بالآخر مجبور ہو کر ایک رات جنگل چلا گیا اور صلوٰۃ الحاجۃ پڑھ کر عجز و انکساری کے ساتھ گڑگڑا کر مندرجہ ذیل مقدس کلمات کے ساتھ دعا مانگنی شروع کی۔
*میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے*
*خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر* (اقبال)
امام عاصم رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں : میں دعا سے فارغ ہو کر ابھی اس جگہ بیٹھا ہوا تھا کہ میرے سامنے غیب سے ایک تھیلی آگری میں نے اسے من جانب اللہ نعمت سمجھ کر اٹھا لیا، کھول کر جو دیکھا تو اسّی ٨٠ سونے کی اشرفیاں تھیں اس کے علاوہ ایک سرخ یاقوت بھی تھا، امام صاحب فرماتے ہیں : کہ اسے میں نے اپنے مصرف میں لے لیا جسے میری اولادوں کی اولادیں، پشت ہا پشت تک کھاتی رہیں ۔
وہ مقدس کلمات (دعا) یہ ہیں۔
*يا مسبب الأسباب، يا مفتح الأبواب، ويا سامع الأصوات، ويا مجيب الدعوات، ویا دافع البلیات ويا قاضى الحاجات، اكفنى بحلالك عن حرامك، وأغننى بفضلك عمن سواك*
ہاں یہ وہی امام عاصم ہیں جنہوں نے غریبی میں بھی اپنا مشن جاری رکھا، ہاں یہ وہی امام عاصم ہیں جنہوں نے اتنی ساری تکلیفوں کے باوجود تقوی کا دامن نہ چھوڑا ، ہاں یہ وہی امام عاصم ہیں جنہوں نے قراءتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا، ہاں یہ وہی امام عاصم ہیں جن کے پاس انگلیوں پر نہ شمار کی جانے والی مخلوقِ خدا نے علم حاصل کیا تھا، ہاں یہ وہی امام عاصم ہیں جو ضبط و اتقان، تجویدو قراءت اور تحریر کے جامع تھے،ہاں یہ وہی امام عاصم ہیں جن کا طریقۂ ادا و لہجہ نہایت دل کش تھا، خوش الحانی میں آپ کی نظیر نہ تھی، ہاں یہ وہی امام عاصم ہیں جو وفات کے وقت "ثم ردو الی اللہ مولھم الحق” کا ورد فرما رہے تھے، ہاں یہ وہی امام عاصم ہیں جن کے مایۂ ناز، وفا شعار شاگرد امام ابوبکر شعبہ رحمہ اللہ نے اپنی حیات میں ٢٤ ہزار مرتبہ قرآن مجید ختم کئے تھے، اپنی ہمشیرہ اور بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے مکان کے ایک گوشے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تھا کہ اس گوشے میں کبھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی مت کرنا وہاں میں نے اٹھارہ ہزار مرتبہ قرآن مجید ختم کئے ہیں۔
*ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم*
*تعبیر ہے جس کی حسرت وغم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم*
الغرض تعلیم و تعلم صدق و صفا، اخلاص و خیرخواہی، زہدوقناعت، فقراستغناء غیرت و خود داری، تسلیم ورضاء، امرونہی کے معاملے میں بصیرت مندانہ جرأت اور قرآن کریم کو امت تک پہنچانے کا بے پناہ جذبہ، یہ ان ائمہ قراءت کی زندگی کے اہم عناوین ہیں۔
آہ! یہ ایک عالمگیر بحران ہے، اخلاقی ابتری کی ہمہ جہت روحانی موت ہے، ذہنی پستی ہے، گناہوں کی نحوست ہے کہ دنیا ایسے محسنوں کو بھول چکی ہے، ستم بالائے ستم یہ کہ جب جب بھی ان پاکیزہ نفوس کے حالاتِ زندگی سنائے یا لکھے جاتے ہیں تو شک کی نگاہوں سے سنا اور دیکھا جاتا ہے حالانکہ صدیاں بیت گئیں اور قیامت تک بیتتی چلی جاءیں گی مگر تشنہ کامانِ علم ان کی داستانوں کو دہراتے رہیں گے۔
آج تاریخ ہم سے سوال کرتی ہے…… بڑا چبھتا اور طنز بھرا سوال! "یہ داستانیں تمہارے اپنوں کی ہیں” مگر تم کیا ہو؟ کیا یہ داستانیں تمہیں یاد بھی ہیں؟ کیا تم وحی ربانی سے بہت دور نہیں چلے گئے؟
تاریخ خود جواب دیتی ہے : جب گناہوں سے آنکھیں سینکیں جاتی ہیں، جب مظلوم عصمتیں فریاد سے عاجز رہ جاتی ہیں، جب معروف کی جگہ منکر کا بسیرا ہو جاتا ہے، جب شرم و حیا کا پانی خشک ہو جاتا ہے، جب قلم کی سیاہی رنگ بدل لیتی ہے۔ اس وقت اس سرچشمہ حیات سے قریب ہونے کے لئے ایک زبردست فکری، عملی و انقلابی جست کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمیں سیدھے قرن اول کے مبارک عہد تک جا پہنچائے، اس دورِ زریں کی "جاوداں سیرت” سے کچھ لینے پر آمادہ کرے۔
بار الہا! ان مقدس ہستیوں کی قربانیوں کو قبول فرما کر ہمیں قرآن مجید کا سچا پکا خادم بنادے۔ آمین
______________________
مصادر و مراجع
١.مختلف شروح شاطبیہ
٢.تذکرہ قاریان ہند
٣.برکات دعا
٤.قلم نما
٥.ذراقرن اول کو آواز دینا
٦.گلبانگ عنادل
٧.درسی ڈائری
Comments are closed.