ترجمان ملت ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی

تحریر: مفتی محمد حسن آزاد قاسمی
محترم عالی مرتبت حضرت ڈاکٹر مولانا مفتی محمد عرفان عالم صاحب قاسمی عمت فیوضہم، ایک حاذق طبیب، مستند عالم دین، مقبول و باکمال خطیب، مایہ ناز انشا پرداز، صاحب طرز ادیب، معروف صحافی اور باذوق اہل قلم ہیں، جو اپنے حسن اخلاق، تواضع وسادگی، جذبہِ خیرسگالی اور کدوکاوش و جانفشانی کی وجہ سے عوام وخواص میں ہردلعزیز ہیں، جب کہ ضیافت و اعانت ان کا خاص وصف ہے۔ حضرت نے 22 اپریل سنہ1977ء میں اس جہان رنگ وبو میں آنکھیں کھولیں۔ اس کرہ ارض پر قدم رکھتے ہی انہوں نے ایک طویل اور کام یاب سفر کا آغاز کیا، جس کا پہلا مرحلہ درس نظامی کی تکمیل اور دارالعلوم دیوبند سے فراغت کی شکل میں پورا ہوا؛ لیکن موصوف کے حصول تعلیم کے شاہیں صفت شوق و اشتیاق نے انہیں یہاں رکنے اور تعلیمی سلسلہ منقطع کرنے کی اجازت نہ دی کہ ”تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا، تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں“ بلکہ انہیں تعلیمی سلسلہ کو آگے جاری رکھنے پر مجبور کیا؛ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے کولکاتہ (کلکتے) سے علم طب حاصل کیا، جس میں انہوں نے ڈاکٹری کی ایم بی بی ایس جیسی اعلیٰ ڈگری حاصل کرکے قوم وملت کا نام روشن کیا، تاہم ممدوح کی علمی تشنگی یہاں بھی آکر نہ بجھ پائی تو پھر انہوں نے حضرت مفتی عبدالرزاق خان صاحب مدظلہ العالی کے ہاں سے تخصص فی الافتاء کیا اور اپنی تعلیمی پیاس بجھائی۔ بعد ازاں، میدان صحافت میں، اہل حق کے خلا کا جب انہوں نے ادراک کیا تو قلم سے اپنا رشتہ استوار کرلیا۔ اللہ رب العزت کی آں محترم پر کچھ اس طرح سے خصوصی کرم گستری ہوئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے جرنلزم کے فیلڈ میں انہوں نے بہت قلیل عرصے میں کافی شہرت، پذیرائی اور ترقی حاصل کرلی۔ممدوح شہر بھوپال سے پابندی سے شائع ہونے والا ہفت روزہ اخبار ’’آب حیات‘‘ کے مدیر بھی ہیں، جس کے سبب آپ کے قلم کو مزید جلا نصیب ہوئی ہے، چنانچہ ایڈیٹر صاحب کے مضامین و مقالات پڑھتے ہوئے آپ محسوس کریں گے کہ مدیر محترم نے خامہ فرسائی کے دوران کس طرح سے اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ اگر موصوف اپنی تحریر میں ایک طرف چمنستان علوم و معارف کی سیر کراتے نظر آتے ہیں تو وہیں دوسری جانب اپنے فطری ادبی ذوق، انتخابِ الفاظ کے حُسن، فصاحت و بلاغت کی رعایت اور اسلوب کی لطافت کی بنا پر قارئین کے لیے مرکز توجہ بنے رہتے ہیں۔ اچھا! حضرت کا ایک اور خاصہ جو انہیں دوسرے صحافیوں سے ممتاز کرتاہے یہ ہے کہ وہ ایک نڈر اور بےباک صحافی ہیں (جس میں عصر حاضر میں تیزی سے کمی آرہی ہے کہ بہت سے نام نہاد صحافیوں نے چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہوئے، مفاد قوم اور دین کی صحیح تصویر کو بالائے طاق رکھ کر، تملق و چاپلوسی کو ہی اپنے لیے وسیلہِ ارتقا اور ذریعہ نجات سمجھ لیاہے)، جو خوشامد سے پاک اور بے لاگ تبصرہ کرتے ہیں، جن کا قلم ہر آن رواں دواں رہتا ہے، حالات خواہ کتنے ہی سنگین اور ناگفتہ بہ کیوں نہ ہوں، لیکن ممدوح کا قلم رکتا نہیں، جھکتا نہیں اور ڈرتا نہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران مفتی صاحب نے مختلف علمی و فکری موضوعات پر سیکڑوں مضامین تحریر فرمائےہیں، جو روزنامہ ندیم بھوپال، اخبارمشرق کلکتہ و بھوپال، قومی تنظیم پٹنہ اور ہفت روزہ آب حیات بھوپال کے علاوہ ملک کے متعدد اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے علمی و دعوتی واصلاحی مضامین نہایت شوق سے پڑھے جاتے ہیں، ملک کا شاید ہی کوئی معتبر اخبار یا رسالہ ہوگا جس میں مفتی صاحب کے مضامین شائع نہ ہوتے ہوں۔ مفتی صاحب کے قارئین کا حلقہ کافی وسیع ہے۔ ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی کو اللہ تعالی نے صلاحیت اور صالحیت دونوں سے نوازا ہے، وہ بھوپال میں لوگوں کے جسمانی معالج بھی ہیں اور روحانی بھی، کلینک بھی ہے اور خانقاہی انداز کی طرز زندگی بھی، حضرت مولانا قمر الزمان صاحب الہ آبادی دامت برکاتہم کے دست گرفتہ ہیں۔ اس لئے تصوف کے مشاغل اور اوراد و اذکار اس پر مستزاد جمعہ کے دن مسجد میں وعظ و تذکیر کا کام بھی کرتے ہیں اور اس فانی دنیا کے لوگوں کے لئے آب حیات بھی نکالتے ہیں، جو لوگوں تک پہنچا کر ان کے دل و دماغ کو تسکین فراہم کرتے ہیں۔ موصوف ارباب علم و دانش کے مابین ایک خاص مقام رکھتے ہیں، چنانچہ کئی دینی اداروں اور تنظیموں کے سرپرست ہیں۔ نوجوانانِ آب حیات سوشل ویلفیئر ایجوکیشنل نام کی ایک سوسائٹی ہے، جس کے آپ صدر اور ذمہ دار ہیں، جو ضرورت مندوں، غریبوں، مفلسوں اور بے سہارا لوگوں کی امداد کے ساتھ ساتھ مسلم نوجوانوں میں اسلامی بیداری اور قرآن و حدیث کی بنیاد پر صالح معاشرہ کی تشکیل کے لیے کوشاں رہتی ہے، علاوہ ازیں، ہم وطنوں میں اسلامی شناخت کے قیام کی جدوجہد بھی کرتی ہے۔ اب تک یہ سوسائٹی چھے عظیم الشان کامیاب سیمینار نہایت سلگتے ہوئے موضوعات پر منعقد کر چکی ہے۔
ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی کا نام بھوپال میں قیام پذیر علماء، صلحاء کے درمیان احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کے اندر مختلف سطح کے لوگوں کو جوڑنے کی صلاحیت ہے۔ اسی صلاحیت کی وجہ سے وہ ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند بھوپال کے سکریٹری، مجلس مشاورت بھوپال کے صدر، جامعہ تحفیظ القرآن الکریم بھوپال کے ناظم، مدرسہ اصلاح المسلمین صدیق پورہ بھوپال اور مدرسہ حسینیہ صدیقیہ رحیم پور رکسا مظفر پور کے سرپرست، بی کے ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی مظفر پور کے سرپرست اور مسجد صدیق پورہ انانگر بھوپال کے امام و خطیب برائے نماز جمعہ ہیں۔ آپ آل انڈیا ملی کونسل کے رکن اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سوشل میڈیا ڈیسک کے فعال رکن ہیں۔
آپ گونا گوں مصروفیات کے باوجود بھوپال آنے والے علماء، صلحاء سے ملاقات اور ان کی خدمت کے لئے وقت نکال لیتے ہیں۔ ان کے اخلاص کی وجہ سے ان کے اوقات میں اللہ نے بڑی برکت دے رکھی ہے، خدمت دین کی کرتے ہیں اور معاش کا حصول کلینک میں آنے والے جسمانی مریضوں کےلئے نسخہ تجویز کرکے کرتے ہیں یعنی اس میدان میں بھی مشغلہ خدمت خلق ہے۔
2011ء میں آپ نے بہ یادگار قطب الاقطاب حضرت مولانا بشارت کریم گڑھولویؒ ماہ نامہ ’’نور الہدیٰ‘‘ اردو میں اور اصلاح نوجواں ہندی میں نکالا۔ جس میں عام علمی و اصلاحی مضامین کے علاوہ مختلف ادبی و تحقیقی عنوانات پر دل چسپ اور علم ریز مقالات شائع کیے جاتے تھے۔ ساتھ ہی ان دونوں رسائل میں نعت و حمد اور دیگر منظومات بھی شائع ہوتی تھیں، لیکن گورنمنٹ آف انڈیا کی گائڈ لائن کی وجہ سے آپ کو یہ رسالہ شائع کرنے سے رُکنا پڑا۔ آں محترم نے مولانا آزاد اردو یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کے ساتھ قاضی کا کورس امتیازی نمبرات سے پاس کیا ہے۔ کئی اداروں اور تنظیموں نے آپ کی علمی، دینی اور ملی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ایوارڈ سے نوازا ہے۔ مثلاً حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ایوارڈ ختم نبوت کے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں۔ حضرت مولانا منت اللہ ایوارڈ اردو صحافت کے فروغ وترقی کے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں۔ آں جناب ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں جب کہ اتنی ہی کتب زیر طبع ہیں۔ممدوح کی تالیفات و تصنیفات: (١) آئینہ رسولﷺ،(٢) رسول الثقلین،(٣) کفن دفن احترامیت کا پاکیزہ طریقہ، (٤)شادی مبارک، (٥)عورتوں کے شرعی وطبی مسائل، (٦) گلدستہ احادیث، (٧) حضور اکرم ﷺ بحیثیت خاوند، (٨) کیا آپ پر زکوٰۃ فرض ہے؟، (٩) بیت المقدس ماضی اور حال کے آئینے میں، (١٠)حج عمرہ و مقامات مستجابات،(١١) تحفۃ الحجاج،( ١٢)خوشگوار ازدواجی زندگی،(١٣) ظہور مہدی ونزول عیسیٰ کب، کیوں اور کیسے؟ (١٤)تحفہ عید قرباں، (١٥)شفائے امراض،( ١٦)شراب بیماری ہے دوا نہیں، (١٧)گود لیے ہوئے بچوں کی شرعی حیثیت، (١٨) یادوں کے جھرونکے، (١٩) اعتکاف کے مسائل وآداب، (٢٠)آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کا لائحہ عمل،(٢١) مولانا محمد علی مونگیریؒ اور خدمات ختم نبوت، (٢٢) مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ اور خدمات ختم نبوت، (٢٣) اسلامی کوئز، (٢٤) حالات حاضرہ میں علماء اور مدارس کی اہمیت وضرورت۔
Comments are closed.