مسلم بچیوں پر منڈلاتے گھنے بادل

محمد صابر حسین ندوی
مسلمان بچیوں کا مسئلہ روز بروز نازک ترین صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے، ہندو مہاسبھا، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دَل، آر ایس ایس اور اس کی مختلف ہندو تنظیمیں سالہا سال سری مشن پورا کرنے کے بعد اب سرعام اعلان کر رہی ہیں اور ہرممکن کوشش کررہی ہیں کہ مسلم خواتین غیر مسلموں کی حرم میں آجائیں، یاد ہوگا کہ کشمیر سے دفعہ ٣٧١ ہٹایے جانے کے بعد مسلسل نازیبا بیانات دیے جارہے تھے، وہاں کی مسلم. بچیوں کو نشانہ بنایا جارہا تھا، جو درحقیقت ان کے اندر پوشیدہ نفرت، بغض اور مسلم خواتین کے تئیں نفرت کا پرتو تھا، بعض شواہد، دوستوں اور بزرگوں کی مانیں تو اس سلسلہ میں باقاعدہ لابنگ ہورہی ہے، مسلم بستیاں، علاقے، محلے، خاندان اور افراد کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، پیسے، وسائل اور داد و دہش کی تمام چیزیں مہیا کر کے ہندو نوجوانوں کو تیار کیا جارہا ہے، کئی کیسز میں معلوم ہوا ہے کہ انہیں لاکھوں کی رقم، پلاٹ یا فلیٹ اور دیگر سہولتیں فراہم کی گئی ہیں، اور پھر اس کا انجام بھی ایسا کہ ہر ایک صاحب درد کو رونا آیے، بعض دفعہ اجتماعی عصمت دری، عیاشی اور بدنام گلیوں کی زینت بنائے جانے کی باتیں بھی سنی گئیں، کئی ماہ کا حمل چھوڑ کر در در بھٹکتے، بھیک مانگتے، جھولی پھیلاتے اور سسکتے ہوئے بھی پایا گیا، یہ لوگ لگاتار نوخیز پودے کو نشانہ بناتے ہیں، جن میں جوانی کا جوش، لاابالی پن اور ہوا کے دوش پر اڑ جانے کی للک ہوتی ہے، جو ہوس، نفس اور دماغی الجھن کا شکار ہوکر ایک خطرناک اور مشاق صیاد کے جال میں پھنس جاتی ہیں، گھر، تربیت، دین، اسلام، اپنے پرایے اور تمام حفاظتی دستے کو زنجیریں اور طوق سمجھ کر کاٹ ڈالتی ہیں، آزادی کا خواب، مغرب کا دکھایا گیا سنہرا باغ، فیمینزم اور اسلامی شعائر کے خلاف پروپیگنڈے ان کے اذہان کو اچک لیتے ہیں، وہ سراب کو حقیقت جان کر دوڑتی چلتی جاتی ہیں، ایک نامعلوم انجام کی طرف آوارہ، بے مقصد اور بے مروت بن کر اپنی زندگی تار تار کر بیٹھتی ہیں، وقتی جنون، جش اور ندی کے بہاؤ میں بہہ جانے کی تمنا میں سب کچھ کھو بیٹھتی ہیں، ویسے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یقیناً انہیں دام فریب میں الجھانا آسان ہے؛ بالخصوص جس وقت اکثریتی گروہ نشے میں چور ہوں، ہندوازم اور ہندو راشٹر کا جھوٹا خواب لئے گھوم رہے ہوں، مسلمانوں سے دشمنی اور عصبیت گھٹی میں بٹھادی گئی ہو، ساری تنظیمیں، کاوشیں اور سعی پیہم کا مرکز مسلمانوں کو پستی میں دھکیلنے، ملک بدر کر دینے، معاشرتی زندگی تباہ کردینے اور ان کے سماجی و مذہبی اقدار کو داغدار کردینے میں مرتکز ہوگئی ہوں، اگر کوئی ہندوؤں کی جانب سے ان اقدامات کا جائزہ لے تو بلاشبہ وہ پائے گا کہ یہ بلا سیلاب، طوفان اور آندھی بن کر ہمارے معاشرت کی بنیادوں، جڑوں کا استیصال کر رہی ہیں، اور مسلمان کف افسوس مل رہے ہیں، وہ کیا کریں؟ کیسے کریں؟ عموماً بےحسی یا سیکولرازم کے سبز نعروں میں گم ہیں، یا جھنجھلاہٹ اور بےچینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں، جو کچھ کر سکتے ہیں وہ بھی مصلحت کہ چادر تانے ہویے ہیں اور جو کچھ نہیں کر سکتے مگر غیرت کی تپش سینے میں لئے پھرتے ہیں وہ خود گھلا رہے ہیں۔
مگر حقیقت حال یہ ہے کہ تصویر بہت خطرناک ہوچکی ہے، بات اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مسلم معاشرے کے تانے بانے بکھر رہے ہیں، چنانچہ خود ایسے بچیوں کے والدین اہل دانش کو یہی سوال کرتے ہیں اور سبھی خموش رہتے ہیں! ان دنوں مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے ایک گائیڈ لائن / مشاورتی ہدایات جاری کی گئی ہیں، جو صد فیصد درست ہے، اولاً والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بچیوں کی تربیت پر گہری نظر رکھیں؛ لیکن دقت یہ ہے کہ بچی کالج جاتی ہے، یونیورسٹیز اور دیگر اجتماعی پروگراموں میں جاتی ہے، جہاں اختلاط عام بات ہے، اور سب سے بڑھ کر ملٹی میڈیا موبائل، آئی پیڈ اور مہنگے مہنگے گیزیٹس استعمال کرتی ہے، جو خود اپنے آپ میں ایک دنیا ہے، بلاشبہ ایک خاتون پر تمام تر پابندیوں میں جکڑ دیا جائے اور صرف اس کے ہاتھ میں یہ موبائل تھما دیا جائے تو بھی کافی ہے؛ کہ وہ جہاں میں ایمانی دولت کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دے، کیا ہم نہیں جانتے کہ سوشل میڈیا اور ٹکنالوجی نے کیا مصیبت ڈھائی ہے؟ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اسے روکنا بھی مشکل ہے، تعلیم، تحقیق اور بہت سے اہم امور اس سے متعلق ہوچکے ہیں، اگر بچی کو ان سب چیزوں سے محروم کیا جائے تو وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتی ہے، وہ خود یہ تصور کرنے لگتی ہے کہ دین میں صرف پابندیاں ہی پابندیاں ہیں، اس میں سب کچھ حرام ہی حرام ہے، بعض اوقات ایسی صورت میں اسلام اور خواتین پر غیر اسلامی تبصرے بھی سننے کو ملتے ہیں، اسی طرح خود مسلمانوں میں ایک بڑا طبقہ ہے جو اسلامی تعلیمی نظام، نکاح و طلاق کے اصول پر قدغن لگاتا ہے، مسلمان بچیوں کو پیچھے دھکیلنے اور ترقی یافتہ دور سے انہیں محروم کردینے کا الزام لگاتا ہے، اس کا اندازہ آپ اسی بات سے لگائیے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی گائیڈ لائن پر Ndtv میں رپورٹنگ کرتے ہوئے کمال خان اور بعض نام نہاد سیکولر مسلم مفکرین نے اعتراضات کیے اور یہاں تک کہا کہ یہ مشورے کوئی ڈھیٹ پنچایت جیسے معلوم ہوتے ہیں، جہالت، لاعلمی اور تاریکی جن کا خاصہ ہوتا ہے، انہیں آخر کون سمجھائے کہ ایک مسلمان پہلے ایمان کیلئے جیتا ہے، اس کیلئے خواہ کسی بھی حد تک جانا پڑے اسے برداشت کرتا ہے، بالخصوص اسلام کے بنیادی اصولوں سے کبھی بھی پرہیز نہیں کرتا، اگر ایسا کرتا ہے تو وہ صرف نام کا مسلمان رہ جاتا ہے، مگر یہاں پر غور کرنے کی بات ہے کہ کیا اشتہارات اور تقریروں سے کام ہوجائے گا؟ جن لوگوں نے ستر سال زمینی محنت کی اور آج بھی گھر گھر جا کر افراد تیار کرتے ہیں ان کے مقابلے میں کیا یہ کافی ہے کہ ہم اعلان نکال دیں، صحیح و غلط کہہ دیں اور پھر اپنے اپنے دربوں میں چھپ کر بیٹھ جائیں، ظاہر سی بات ہے کہ یہ ایک گونا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے اور دبی ہوئی چنگاری کو ہوا دینے کے مترادف ہے، جسے ہندوازم کے متوالے شعلہ بنادیں گے، اس کے برعکس کیا خوب ہو کہ محلہ/ محلہ مسلم جماعتیں خاموش کام کریں، اسلامی تعلیمات، مکاتب، مساجد کے کرداد پر دھیان دیں، ایمانیات کو اولیت دیں، غیر مخلوط اسکول کھولیں اور اسلامی حدود میں ترقی کی راہیں ہموار کریں، اور ساتھ ہی شادی بیاہ میں سادگی اور بروقت کردینے کا خیال رکھیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو شور کم کام. زیادہ ہوگا، یاد رکھیں! کھیت میں خموش بیج ڈال دیجیے، محنت کردیجیے اور پھل کا انتظار کیجیے! فصل خود بتادے گی کہ آپ نے کیا بویا اور کیا کاٹنے والے ہیں۔
[email protected]
7987972043
Comments are closed.